جنسی زیادتی کا اخلاقی جواز

ساجدہ  شاہ

کیا جنسی زیادتی کا کوئی اخلاقی جواز ہونا چاہیے ؟ یقینا  نہیں ہونا چاہیے ، مگر ہے !

اب آپ  بھی میری طرح پریشان  ہو رہے ہوں گےکہ اس قدر غیر انسانی و غیر اخلاقی عمل کا اخلاقی جواز بھلے کیسے ممکن ہے؟
تو جناب! آپ کے اس سوال کا جواب بڑا  سادہ  سا ہے  اور وہ یہ ہے کہ  آپ کی یادداشت کمزور ہے بلکہ میں تو یہی کہوں گی کہ بحثیت سماج  ہم سب کی مشترکہ یادداشت ہی  انتہائی کمزور ہے۔

 کیونکہ اگر آپ ذرا سا یاد فرمانے کی زحمت کریں تو آپ کو ضرور یاد آئے گا کہ کیسے بحثیت والدین آپ نے اپنے بیٹے کو یہ اختیار سونپا تھا کہ وہ اپنی بہن کی مورل پولیسنگ کرے اور اسے یہ سمجھاۓ کہ کون سے کپڑے اس کے لیے موزوں ہیں اور کس لباس سے  بے حیائی چھلکتی ہے۔ آپ کو یہ بھی ضرور یاد آئے گا کہ کس طرح سے آپ نے اپنی اولاد کے سامنے اپنی بیوی کی دھلائی کرتے ہوئے اسے طرح طرح کے القابات سے نوازا تھا، بنا اس بات کی پرواہ کئے کہ آپ اپنی اولاد کے رول ماڈل تھے۔

ذہن پر تھوڑا سا زور دیجیے تاکہ آپ کو یہ بھی یاد آئے کہ کیسے گھر کے اندر کے سارے کام بہن کے ذمے تھے، اور آپ دن بھر اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے جینے (جس کا آپ کو حق تھا اور ہے بھی) کے بعد گھر پہنچ کر بہن کی مرضی اور اس کے جینے کے حق کو تسلیم کئے بغیر اس سے نوکروں کی طرح کام لیتے تھے اور وہ بیچاری یہ سب کچھ (لاشعوری طور پر) بھائی کی محبت میں کر جاتی تھی۔

ذرا اپنے  اسکول، کالج کے وہ دن بھی یاد کرنے کی کوشش کیجیے  کہ جب آپ اور آپ کے دوستوں کا گروہ لڑکیوں کا پیچھا کرتا تھا، اپنے نمبر کی پرچی پھینکتا تھا، آتے جاتے آوازیں کستا تھا، فلمی گانے اور ڈائیلاگ   پیش کر تے ہوئے شاہ رخ خان بننے کی ناکام کوششیں کرتا تھا  اور یہ سب کرتے ہوئے یہ یقین رکھتا  تھا  کہ لڑکی نے ہمیشہ سر جھکا کر ہی چلے جانا ہے  اور آپ بے خوف یہ عمل دوہراتے جا رہے تھے۔

ہاں آپ کو  یہ بھی یاد آجانا چاہیے کہ کس طرح سے آپ  نے خدائے واحد کے عظیم نظریے کو اپنے مقصد  کے لیے استعمال کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ عورت مرد کی پسلی کی پیداوار ہے اور اس بات کی آپ نے اس طرح سے تشریح کی تھی کہ عورت مرد سے حقیر ہوتی ہے۔

اچھا یہ بتائیے،  آپ  کو وہ نصابی کتب یاد ہیں، جن کے ہر مضمون میں عورت کو کم زور، حقیر، اور فسادی لکھا گیا تھا؟ وہ استاد تو ضرور یاد ہوگا جس نے  آپ کی اس بات کی تائید کی تھی کہ لڑکیاں میک اپ کر کے لڑکوں کو  بہکاتی ہیں۔

یہ بات تو آپ کو   بہت اچھی طرح یاد ہوگی کہ جب محلے میں جنسی زیادتی کا ایک واقعہ پیش آیا تھا  اور  محلے کا جرگہ (جن میں صرف مرد تھے) لڑکی کے والدین کو یہ سمجھا رہا تھا کہ اپنی بیٹیوں کو کس طرح سے اخلاقی تعلیم دینی چاہے اور یہ کہ اگر لڑکی میں کوئی نقص نا ہو تو لڑکا کبھی خراب نہیں ہوتا  اور ہاں جرگے کے سبھی مرد ہی نہیں بلکہ محلے کی تقریبا تمام عورتیں بھی مل بیٹھ کر یہی بات کرتی تھیں کہ فلاں صاحب کی بیٹی نے ناک کٹوا دی، مگر کسی نے آپ سے یہ سوال تک نہیں کیا کہ اس سارے عمل میں آپ بھی برابر کے حصے دار تھے۔

میرا خیال ہے کہ آپ  کو یہ تو یاد ہونا چاہیے کہ آپ  کی پسند کی شادی (جس میں لڑکی کی پسند شامل نہیں تھی) کے بعد جب آپ  اپنی بیوی پر ظلم ڈھاتے تھے،تو اسی کم بخت لڑکی کے والدین کا یہ کہنا تھا کہ میاں بیوی میں ہلکا پھلکا جھگڑا تو ہوتا رہتا ہے اور بیوی کو یہ برداشت کرنے کی عادت ڈالنا چاہیے۔

تو یاد ہے؟ معلوم نہیں میں ایسا کیوں سوچ رہی ہوں کہ آپ کو یہ سب یاد ہوگا کیونکہ میں آج بھی آپ کو  انسان سمجھتی ہوں ، مگر  ایک انسان اتنا سب یاد کرنے کے بعد کیسے ظلم کو جاری رکھ سکتا ہے؟

خیر یاد کرنے کی کوکوشش کیجیے  اور جب تک آپ  کو یہ سب یاد آجاتا ہے میری اس  بات  کو غور سے سنیے۔

آپ کے بچپن میں بہن کی مورل پولیسنگ کے اختیار سے، باپ کی تلخی اور ماں کی خاموشی سے ، محلے کے معزز جرگے کے “دانش مندانہ” فیصلوں سے، مذہبی تعلیمات کی غلط سمجھ سے، غلاظت بھرے تعلیمی  نصاب سے الغرض سماج کے تمام  پدر شاہی اداروں  کی توثیق سے زینب کے ریپ اور قتل کا اخلاقی جواز ملا ہے۔

اپنی یادداشت پر زور ڈالیے