عاصمہ جہانگیر کی موت اور گلگت بلتستان کے معروف وکیل کی گرفتاری

ولید بابر ایڈووکیٹ

گلگت بلتستان کے قوم پرست، ترقی پسند رہنما گلگت سپریم اپیلیٹ بار کے صدر احسان ایڈووکیٹ کو رات کی تاریکی میں گھر سے غیر قانونی طور پر گرفتار کر کہ بالادست بیوروکریسی نے شاید چھوٹے صوبوں اور مفتح علاقوں کو پیغام دیا ہے کہ اب ان کے سروں سے قانون کی بالادستی، انسانی حقوق کی سربلندی اور برابر شہری ہونے کا پرچار کرنے والا دستِ شفقت اٹھا چکا ہے۔ قانون کی بالادستی کا خواب دیکھنے والی عاصمہ سے اس سے بہترین انتقام اور کچھ نہ ہو سکتا تھا کہ جیسے عاصمہ کی روح بھی چھلنی ہو جائے؟ کیا عاصمہ کی روح کے لیے در پردہ یہ پیغام نہیں ہے کہ جب جیتے جی مال روڑ پر گھیسٹ کر بھی باز نہ آئی تو ایسا گھاؤ دیتے ہیں کہ تمہاری روح کانپ اٹھے اور اب کے بار کوئی سر پھیرا تمہاری طرح سوچنے پر بھی انجام سے واقف ہو جائے۔

جہاں یہ گرفتاری ریاستی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے وہاں اس نے ماورائے عدالت اقدامات کی توسیع کرتے ہوئے سنجیدہ حلقوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے درحقیقت بابا جان اور ان کے ساتھیوں کے کیس سے احسان ایڈووکیٹ کو ہٹانا مقصد ہے۔ کیوں کہ فوج اور ایجنسیوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ بابا جان و دیگر پر قائم من گھڑت اور جھوٹے کیس سے احسان ایڈووکیٹ اپنی پیشہ وارانہ مہارت سے بری کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو بغیر کسی ایف آئی آر کے رات کی تاریکی میں گرفتار کرنا اصل میں انہیں دباؤ میں لا کر اس کیس سے ہٹانا اور گلگت بلتستان کے حق میں اٹھنے والی ایک توانا آواز کو دبانے کی ایک کوشش ہے، جو آنے والے دنوں میں گندم سبسڈی اور پراپڑٹی ٹیکس کے خلاف فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو گی۔

یاد رہے اس سے پہلے احسان ایڈووکیٹ کی قیادت میں 2015/16 میں عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے گلگت بلتستان کے عوام نے تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے کر کہ وفاقی حکومت کو اپنے غیر آئین اقدامات واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔

گلگت بلتستان اور کشمیر کو وائسرائے ہند کی طرز پر ڈیل کیا جا رہا ہے ایک غیر منتخب چیف سیکرٹری پانچ فوجی آفیسران کے ساتھ مل کر پونے کروڑ لوگوں کے مستقبل کو تاریک کیے ہوئے ہے اور وہاں کے وسائل کو بےدردری کے ساتھ لوٹ جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت اپنے پسندیدہ افسران کو نوازنے کے لیے ان علاقوں میں تعینات کرتی ہے، جہان محض چند ماہ میں ہی یہ لوگ ارب پتی بن جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت ان دونوں ریجنز کے بجلی، پانی، لکڑی، کوئلے، زرمبادلہ، نوادرات، نباتات اور دیگر وسائل استعمال کرتی ہے مگر این ایف سی ایورڈ میں حصہ نہیں دیتی اور نہ ہی ٹیکس و اِنکم ٹیکس، کسٹم، جی ایس ٹی، ودہولڈنگ کا لوکل طریقہ کار واضح کیا گیا ہے بلکہ وفاقی حکومت کے پراپرٹی ٹیکس نافذ ہیں، جن کی وجہ سے تمام دولت پاکستانی حکومت کے خزانے میں چلی جاتی ہے، جس باعث علاقے کو سالانہ کثیر بجٹ خسارہ اٹھنا پڑ رہا ہے۔

صرف کشمیر کے سولہ سو(16)ارب روپے پاکستان کے بنکوں میں پڑے ہیں۔ ان کے شرح منافع ہی ایک سال کے بجٹ سے دس گنا سے زائد ہے مگر اسٹیٹ بنک آف کشمیر کے نہ ہونے کے باعث تمام تر منافع پاکستان کے خزانہ میں جمع ہوتا ہے مگر واپس کشمیر اور گلگت کو نہیں دیا جاتا۔ “اپنے وسائل پر اپنا راج” کا مطالبہ کرنے والے گلگت تا بلوچستان اور سندھ، خبیر پختونخوا تا کشمیر ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ عاصمہ جہانگیر مظلوم قومیتوں اور عوام کے درمیان ایک زنجیر تھی، جس کی موت کے بعد اس زنجیر کی کھڑیوں کو کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔