پاکستان میں عوامی حقوق کی پامالی اور ہماری چپ

مہناز اختر

First they came for the communists, and I did not speak out – because I was not a communist; 
Then they came for the socialists, and I did not speak out – because I was not a socialist; 
Then they came for the trade unionists, and I did not speak out – because I was not a trade unionist; 
Then they came for the Jews, and I did not speak out – because I was not a Jew; 
Then they came for me – and there was no one left to speak out for me. 

by Martin Niemöller

پہلے انہوں نے اشتمالیوں کا پیچھا کیا اور میں چپ رہا کیونکہ میں اشتمالی نہیں تھا

پھر انہوں نے اشتراکیوں  کا پیچھا کیا اور میں چپ رہا کیونکہ میں اشتراکی نہیں تھا

پھر انہوں نے یونینسٹوں کا پیچھا رہااور میں چپ رہا کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ بھی نہیں تھا

پھر وہ یہودیوں کے پیچھے پڑے اور میں چپ رہا کیونکہ میں یہودی بھی نہیں تھا

اور آخر میں وہ میری طرف بڑھے مگر میرے ح‍ق میں آواز اٹھانے والا کوئی نہیں بچا تھا۔

(ترجمہ: مہنازاختر)

 

کچھ سالوں پہلے جب سیالکوٹ میں ایک انسانی ہجوم کے دائرے میں دو معصوم بھائیوں مغیث اور منیب کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گيا تو انہیں دنوں میں نے اپنی والدہ کو جرمن شاعر مارٹن نیمؤلر کی یہ نظم ترجمہ کر کے سنائی تھی اور اس نظم کے بیانیے اور خیال کو واضح کرنے کے لیے کچھ اضافے کیے تھے اور جرمنی کے قوم پرست نازیوں کے مظالم اور انسانیت کی زہریلی چپ اور چشم پوشی کی مختصر تاریخ بھی بیان کی تاکہ وہ آسانی سے سمجھ سکیں۔

خیر میری امّی اس نظم کے مرکزی خیال کو سمجھ گئیں مگر بحیثیت معاشرہ ہم حالات کا ادراک کرنے میں ناکام رہے اور رفتہ رفتہ ایک اندھے، گونگے اور بہرے ہجوم میں تبدیل ہونے لگے۔ بالکل اس ہجوم کی طرح جس کے دائرے میں  مغیث اور منیب کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گيا اور سب سفّاکیت کا کھیل خاموشی سے دیکھتے رہے۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ توہین مذہب  کا نہیں تھا مگر پاکستان میں بلوائیوں کے ہاتھوں سرعام سفّاکیت کی ایسی مثال تھا، جس کی اندھی تقلید پاکستان میں توہین مذہب کے نام پر  بار بار کی گئی۔ مغیث اور منیب کا سرعام بہیمانہ قتل پاکستان میں عوامی حقوق اور انسانیت کا جنازہ بھی تھا

پاکستانی عوام کی اکثریت مناسب خوراک، رہائش، روزگار، صحت اور تعلیم کے حق سے ہی ہمیشسہ محروم رہی مگر اب بحیثیت مجموعی پاکستانی عوام  جان کی حفاظت کا حق، عزّت نفس کی حفاظت کا حق اور انصاف کے حق سے بھی محروم ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے وہ سرکاری اظہاریے اور بیانیے ہیں، جن کا اظہار آج کل دھمکی نمااشتہار/انتباہ کی صورت میں روز کیا جارہا ہے۔ آج کل ٹی وی پر ایک سرکاری انتباہ (پریوینشن آف الیکٹرونک کرائم ایکٹ کے تحت ) بار بار نشر کیا جارہا ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے، ’’ توہین مذہب پر مبنی کوئی مواد شائع کرنا سنگین اور ‍قابل گرفت جرم ہے۔‘‘

بظاہر یہ انتباہ شہریوں کو قانون کی خلاف ورزی سے روکنا ہے مگر اس انتباہ کا اپنے سیاق و سباق میں ادھورا ہونا ہی عوامی حقوق کی پامالی ہے۔

پاکستان  میں توہین مذہب کے حوالے سے قوانین موجود ہیں اور آیا کوئی شخص توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے یا نہیں ؟  توہین مذہب کی نوعیت کیا ہے؟ اگر کسی نے اس کا ارتکاب کیا ہے تو اس واقعے کے پس پردہ حقائق کیا تھے؟  جس بات یا مواد کو توہین مذہب قرار دیا گیا ہے، وہ توہین مذہب ہے یا نہیں ان باتوں کا قیصلہ بہرحال عدالتوں نے کرنا ہے۔ لیکن کیا معمولی فہم و فراست رکھنے والا شخص اس بات کا فیصلہ انفرادی طور پر کر سکتا ہے کہ کسی نے توہین مذہب کی ہے اور اس کے پاس کسی کو بھی قتل کرنے کا لائسنس ہے؟

پاکستان میں توہین مذہب کی آڑ میں کس طرح لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا جاتا رہا ہے، اس کا  علم سب ہی رکھتے ہیں۔ کیا ریاست کی ذمہ داری نہیں کے کچھ انتباہ عوامی حقوق کے تحفّظ کے حوالے سے بھی نشر کرے،  جیسے، ’’ریاستِ پاکستان عوام کی جان و مال ،‏عزت نفس اور بنیادی حقوق کی حفاظت کی ضامن ہے۔ توہین مذہب کی آڑ میں کسی فرد یا گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے، کسی کو قتل کرے یا کسی کی ذاتی یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی‘‘۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں سارے انتباہ عوام کے لیے جاری ہوتے ہیں تاکہ وہ خوف کے سائے تلے زندگی گزاریں،  کیونکہ انسانوں کے شکاری آزاد ہیں اور گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ مارٹن نیمؤلر کی یہ نظم مجھے اس لیے یاد رہ گئی کیونکہ یہ بھی ایک انتباہ ہے کہ ہمیں چپ نہیں رہنا چاہیے ایسا نا ہو کہ جب ہماری باری آئے تر ہمارے حق میں بولنے والا کوئی نا ہو۔