بیرونی امداد اور پاکستان

سنگرخان، سوات

عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں
اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے

وطن عزیز پاکستان کے حکم ران ہاتھ میں کشکول لیے کبھی امریکا کے آگے اورکبھی چین کے آگے خیرات مانگتے نظر آتے ہیں۔ اس خیرات کو حاصل کرنے کے لیے یہ حکم ران کبھی دوسرے ممالک کی سرزمین پر آگ لگاتے ہیں تو کبھی اپنی مٹھی کو خون سے نہلا رہے ہوتے ہے یہ حکمران نہ صرف قوم کی جان اور عزت کو پامال کررہے  ہیں بلکہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کو ایک  شرمناک عادت سے متعارف کرا رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان امریکا سے 78 ارب ڈالرز کی امداد وصول کر چکا ہے، 2009 سے لے کر 2013 تک ہم 665 پاؤنڈز کی امداد برطانیہ سے وصول کرچکے ہیں۔ اس امداد کے علاوہ پاکستان اب تک آئی ایم ایف سے بھی اربوں ڈالر کا قرض وصول کر چکا ہیں۔
جب ان حکم رانوں سے بھیک مانگنے کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو ان کا جواب صرف ایک ہوتا ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے جہاں بھوک اور افلاس سے نجات کے لیے بیرونی امداد بہت ضروری ہے ۔اگر ان حکمرانوں کی کلمات پر تھوڑی دیر کے لئے یقین کرکے ملک کی گلیوں میں نکل کر دیکھا جائے کہ اس بیرونی امداد نے پاکستانی عوام کی حالات زندگی کہاں تک بدلی ہے، تو آپ کو ایک طرف کچرے کی ڈھیر سے دو وقت کی روٹی ڈھونڈتے ہوئے معصوم بچے نظر آئیں گے تو دوسری طرف ان حکمرانوں کے قیمتی کتے سیر ہوتے ہوئے نظر آئیں گے، کہیں پہ آپ کو سر بازار ایک غریب بنت حوا اپنا جسم فروخت کرتے ہوئی ملے گی تو کہی پہ آپ کو ان حکمرانوں کی بیویاں اور بیٹیاں لاکھوں روپے کے ملبوسات میں دکھائی دیں گی، کہی پہ آپ کو اولاد براے فروخت کے نعرے سننے کو ملیں گی تو کہی پہ آپ کو ان حکمرانوں کے آگے پیچھے دس دس مرسیڈیز دیکھنے کو ملیں گی، کہی پہ آپ کو کوئی ماں اپنی بیٹی کے انتظار میں روتی ہوئی نظر آئے گی تو کہی پہ آپ کو راو انوار کے غائب ہونےکی خبریں ملیں گی۔

کہی آپ کو ڈرون حملوں میں ’شہید‘ ہونے والے اپنے ملک کے شہری نظر آئیں گے تو کہی پہ آپ کو کشمیر میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات دیکھنے کو ملیں گی،کہی پہ آپ کو پارلیمنٹ کے سامنے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں پکڑے روزگاروزگار کی بھیک مانگتے ہوئے نظر آئیں گے تو کہی پہ آپ کو بوڑھے ماں باپ پینشن نہ ملنے کی وجہ سے احتجاج کرتے ہوئے دکھیں گے، مختصرا آپ کو اس ملک کے ہر گلی کوچے میں کربلا کا منظر دیکھنے کو ملے گا۔

افسوس کی بات ہے کہ ان حکمرانوں نے چند روپیوں کے عوض اس ملک کی عوام کی جان اور عزت کو گھروی رکھ دیا ہے ، ان حکمرانوں نے عوام سے ایک با عزت قوم کہلانے کا حق چھین لیا ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہم دوبارہ اس غلامی کی زنجیروں میں باندھے تو نہیں جارہے، جنہیں  توڑنےکے لیے بہت سے انسانوں نے اپنے خون سے مقتل گاہوں کو سجایا تھا، وقت اب بھی ہاتھ سے نہیں گیا۔ اس ملک کو بچانے کے لیے ایک با شعور اور ذمہ دار شہری بن کر قانون کی حکم رانی، اس کے بلاتفریق اطلاق کے لیے اپنا کردار ادا نہ کیا اور بدعنوان سیاست دانوں کی پہچان کرکے ان کو دوبارہ اقتدار کی کرسی پر جانے سے نہیں روکا  تو قیامت کے دن تحریک پاکستان میں بہا ہوا خون ہم پر لعنت بھیج رہا ہوگا۔