تحریکِ انصاف کا واٹس ایپ انصاف، قوم کو مبارک ہو۔ 

احسن بودلہ

مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللّہ کے خلاف منشیات برامدگی کیس میں جب ان کے وکیل  فرہاد علی شاہ نے اپنے دلائل مکمل کر لیے تو عدالت کی طرف سے کاروائی کو ایک گھنٹے کےلیے روک دیا گیا۔ ایک گھنٹے کے وقفہ کے بعد جب عدالتی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی تو جج مسعود ارشد نے مقدمہ کی سماعت سات ستمبر تک ملتوی کر دی اور ساتھ ہی کیس کا مزید حصہ سننے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی ’’مجھے واٹس اپ کر دیا گیا ہے کہ آپ کام نہیں کر سکتے، ہائیکورٹ کی طرف سے میری خدمات واپس لے لی گئی ہیں۔  لہذا میں اس کیس میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ نہیں جانتا کہ کیا ہوا ہے، میرا ادارہ میرے پیچھے ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی۔ اگر میں اس کیس میں رہتا تو میرٹ پر ہی فیصلہ دیتا۔‘‘

اس واٹس ایپ انصاف پر معروف صحافی ارشد وحید چوہدری نے انکشاف کیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک سینیر جج نے گزشتہ روز وفاقی وزیر قانون سے خفیہ ملاقات کی تھی۔ کشمیر ہاؤس کے فیملی سویٹ نمبر 280 میں ہونے والی اس ملاقات کے نتیجہ میں مریم نواز، حمزہ شہباز اور رانا ثنا اللہ کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلہ کے نتیجہ میں رمضان شوگر ملز اور چوہدری شوگر ملز کے مقدمات میں مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف کے مقدمات کی سماعت کرنے والےاحتساب عدالت کے ججوں مشتاق الہی اور محمد نعیم کو اچانک تبدیل کر دیا گیا جبکہ جج مسعود ارشد کو مقدمہ کی سماعت کے دوران واٹس اپ کال کے ذریعے فارغ کر دیا گیا۔

ان ججز کو جس نوٹیفیکیشن کے ذریعے ہٹایا گیا ہے اس پر 26 اگست کی تاریخ درج ہے ۔ اب چاہے مسعود ارشد صاحب کو اس نوٹیفیکیشن کی کاپی ڈاک میں ملی ہو یا بقول ان کے واٹس ایپ پر ، ہائیکورٹ کے احکام آنے تک وہ رانا ثناء اللّہ کے مقدمہ میں اپنے فرائض سرانجام دے سکتے تھے ۔مگر اس کے باوجود انھوں نے سماعت کے دوران واٹس ایپ کا حوالہ دے کر خود کو کیس سے الگ کر لیا۔ دوسری جانب احتساب عدالت کے جج محمد بشیر جب نواز شریف صاحب کے خلاف کیس سن رہے تھے ان کو انکی ملازمت کی مدت ختم ہو جانے کے باوجود تین سال کی توسیع یہ کہہ کر دے دی گئی تھی کہ اگر جج تبدیل کیا گیا تو کیس کی نوعیت پر فرق پڑ سکتا ہے۔

یہاں پر یہ سوال  پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس کے کہنے پر اور کیوں ایک جج کی مدتِ ملازمت ختم ہوجانے کے باوجود ان کو تین سال کی توسیع دے دی جاتی ہے اور ایک ہی جماعت کے لوگوں کے مقدمات سننے والے تین ججز کو یوں اچانک بغیر کوئی وجہ بتائے  تبدیل کردیا جاتا ہے۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے یہ وہ قوتیں ہیں جو عمران خان صاحب کو اقتدار میں لیکر آئی ہیں اور نواز شریف ، ان کے خاندان اور ان کے ساتھیوں  کو زیادہ سے زیادہ مشکلات سے دوچار کرنا چاہتی ہیں ۔ نواز شریف کے خلاف جی آئی ٹی سے لیکر نیب کے ریفرنسز اور سپریم کورٹ کے فیصلوں تک اور مریم نواز ، حمزہ شریف ، دیگر مسلم لیگی رہنماوں کی بغیر کسی ثبوت کے گرفتاری سے لیکر ججز تبدیل کرنے تک کا سفر اس امر کا ثبوت ہے۔

ویسے تو ہمارے ملک میں انصاف کے نظام کا معیار کبھی بھی اچھا نہیں رہا ۔مگر تحریکِ انصاف کی حکومت میں جس طرح سے عدلیہ اور نیب سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو اپنی مرضی سے استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کی مثال فوجی آمروں کے دور میں ہی ملتی ہے۔ جس جماعت کی بنیاد انصاف پر رکھی گئی تھی اور یہ دعوے کیے گئے تھے کہ اس کے برسرِ اقتدار آنے سے انصاف کا بول بالا ہوگا۔ اس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گزشتہ ایک سال میں   اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیاں کر کے انصاف کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔

یہ ایسا دور ہے کہ جس میں جب ایک جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے آتی ہے جس میں وہ یہ اقرار کرتے ہیں کہ انھوں نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دباو کے تحت دیا۔ اس ویڈیو کو درست مان کر جج صاحب کو فارغ کردیا جاتا ہے ، مگر ان کا دیا گیا فیصلہ بھی برقرار رکھا جاتا ہے۔ اور جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو ان اداروں کے بارے میں سچ بولنے کی سزا دی جاتی ہے۔

جسٹس شوکت صدیقی تو فارغ ہو چکے ہیں اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس جاری ہے۔ ان کو بھی جلد ہی فارغ کر کے سبق سکھا دیا جائے گا ۔ اور یہ سبق باقی جج حضرات کےلیے بھی ہو گا کہ جب تک ہماری بات مانو گے تب تک اپنے منصب پر رہو گے ورنہ نہیں رہو گے۔ اب یہ انھوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنا منصب بچائیں گے یا پھر جسٹس فائز عیسٰی کی طرح تاریخ میں زندہ رہنا پسند کریں گے۔ باقی تحریکِ انصاف کی حکومت کا یہ واٹس ایپ انصاف قوم کو مبارک ہو کیونکہ یہ آگے بھی ایسے ہی چلتا رہے گا ۔ ابھی کےلیے نور الہدیٰ شاہ کی یہ نظم پڑھ لیں۔

آج کے نام

‏انصاف کو عمر قید سزا سنا دی گئی ہے

اس کی پٹی بندھی آنکھوں کو کھولا گیا

پوچھا گیا بتا

یہ دن ہے یا رات؟

انصاف نے کہا

یہ نہ دن ہے

نہ رات ہے

یہ اندھیرا ہے

روشنی کےمنہ پر مَلی کالک ہے

جو دن کو بھی تاریک کرتی ہے

اور ہر سوُ رات کا بہانہ کرتی ہے

دھوکہ کرتی ہے

تب سے

انصاف

عمر قید کی تاریک کھولی میں پڑا ہے

(نورالہدیٰ شاہ)