تیری پروموشن کی ماں کی

شیزا نذیر

یہ مکالمہ بالی ووڈ فلم ’’کہانی ٹو‘‘ کا ہے۔ مجھے اِس فلم کا یہ سب سے خوبصورت مکالمہ لگا۔ الفاط پر مت جائیے کیونکہ اِس ڈائیلاگ کے پیچھے کہانی تھری ہے۔

فلم ’’کہانی ٹو‘‘ ایک نہایت اساس موضوع یعنی چائلڈ ابیوز پر بنائی گئی ہے۔ مَیں چونکہ اپنے آفس کی طرف سے اِسی موضوع پر ایک تحقیقی مضمون لکھ رہی ہوں جس کے لئے ریسرچ بھی درکار تھی تو اِس بنا پر کہہ سکتی ہوں ’’کہانی ٹو‘‘ کی کہانی (چائیلڈ ایبیوز کی مد میں) حقیقت سے اتنا ہی قریب ہے جنتا کہ حقیقت۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ ودیا بالن چھے سالہ بچی بنام منی دیوان کے بارے میں انکشاف کرتی ہے کہ اُس کا چچا اُسے sexually abused کر رہا ہے۔ وہ بچی یعنی منی دیوان کی دادی کو بتاتی ہے لیکن معاملہ الٹا ہو جاتا ہے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح ودیا منی کو بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

فلم میں یہ بھی دِکھایا گیا ہے کہ قانون اور معاشرہ منی کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ اور یہ ہمارے معاشرے کی بھیانک حقیقت ہے کہ عدالت اور معاشرہ اثر و رسوخ رکھنے والے مجرم کو ملزم ہی رہنے دیتی ہے اور وہ زندگی کے مزے لیتا رہتا ہے۔ اِس فلم میں یہ رویہ ہمیں سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ کیا کیا جائے۔

کہانی لکھنا میرا فیلڈ نہیں لیکن جب کبھی بھی لکھی میرے ایڈیٹر کو یہی اعتراض ہوا کہ مَیں مجرم کی پکڑ کیوں نہیں کرتی۔ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ حقیقی دنیا میں یہی ہوتا ہے اور یہ کہ یہ بات میرا قاری خود سوچے کہ اِس ناسور کو اُسے کیسے ختم کرنا ہے۔
کہانی ٹو میں بھی ایک مایوسی ہے کہ آٹھ سال تک منی کے مجرم کی پکڑ نہیں ہوتی کیونکہ وہ ثابت نہیں کر سکتی کہ آیا اُس کا چچا واقعی اُس کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا تھا یا نہیں۔ فلم کے آخر میں اتفاقاً مجرم مر جاتا ہے لیکن اِس میں قانون اور معاشرہ خاموش ہے۔
چند لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اگر مجرم کو بے نقاب کرنا بھی چایہں تو قانون بے بس نظر آتا ہے بلکہ بڑا قانونی ہو جاتا ہے اور الٹا مجرم کو سہولیات اور سیکورٹی فراہم کرتا ہے۔

قانون منی دیوان کے مجرم کی تو پکڑ نہ کر سکا البتہ اسے بچانے والی ایک خاتون یعنی ودیا پر قتل کے جھوٹے الزام میں اُس کو پکڑنے میں کامیاب ہونے ہی والا ہوتا ہے کہ ایک ایمان دار پولیس افسر بظاہر قانون سے غداری کرتے ہوئے ودیا اور منی کی مدد کرتا ہے کہ وہ فرار ہو کر بیرونِ ملک چلی جائیں کیونکہ قانون اِس بے گناہ کمزور عورت کو سزا دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہوتا ہے۔

پولس افسر سارے معاملے میں اپنے سینئیر افسر پر یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ پروموشن کی خاطر ودیا کو پکڑوائے گا۔ آخر میں صرف سنئیر افسر کی پروموشن ہوتی ہے تو وہ کہتا کہ وہ اپنے ماتحت کو یاد رکھاے گا جس پر وہ یہ ڈئیلاگ بولتا ہے کہ ’’تیری پروموشن کی ماں کی‘‘۔

مجھے اچھے سے یاد تو نہیں لیکن سیاست کے شروع میں عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ مجرم کو سرِ عام سزا دِلوائیں گے۔ اُن کا اشارہ سرِ عام سزائے موت کی طرف تھا۔

نواز شریف، مریم نواز اور کپٹن صفدر پر عدالت جرم ثابت نہ کر سکی اِس لئے سزا معطل کر دی گی لیکن کیا واقعی اُنہوں نے جرم نہیں کیا؟ یا کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ کہہ سکتا کہ ’’ تیری پروموشن کی ماں کی‘‘۔

عجیب صورتِ حال ہے۔ صرف شخصیت پرستی نظر آ رہی ہے۔ سزا ہو گئی تو لوگ پکار اٹھے ’’دیکھا اب بدلہ پاکستان‘‘۔ سزا معطل ہوئی تو سارا الزام عدالتوں پر۔ کیا عدالت پاکستان سے باہر ہے یا یہ تبدیلی کی زد میں نہیں آئی؟ مجھے حیرت اِس بات پر ہو رہی کہ جو چیز ہم سے متعلقہ ہے اِس کے لئے ہم جھٹ سے بڑے قانونی ہو جاتے ہیں یعنی کہ منی دیوان کے مجرم کو اِس لئے سزا نہیں مل سکتی کیونکہ مجرم اثر و رسوخ والا ہے اور جرم ثابت نہیں ہوا یا نہیں کیا گیا اور ودیا کو جھوٹے الزام میں اِس لئے سزا ہو کیونکہ سارے ایوڈنس اُس کے خلاف ہیں۔

ایک بات تو سمجھ آنے لگی ہے کہ ’’تبدیلی‘‘ بس ایک جھانسا ہے، فریب ہے، دھوکا ہے۔