جنس کا پہاڑ (دوسرا حصہ)

عفاف اظہر، ٹورنٹو

یہ سب کچھ کہتے ہوئے ماں کی آنکھوں میں ایک درد سا تھا، ماں کے چہرے پر اس بھرے سسرالی گھر میں رہتے رشتوں کی روایتی سوچ، خاندان کی ذہنیت اور اس سماج کا خوف نمایاں تھا۔ عصمت کا معصوم ذہن تو آج کئی ہفتوں کے بعد ماں کو سب کچھ بتا کر ہلکا پھلکا سا پہلے جیسا محسوس کر رہا تھا، ہاں مگر دوسری طرف اس کی ماں کا دل و دماغ جنس کے اس خوفناک پہاڑ تلے کچلا ہی چلا جا رہا تھا۔

 ہر طرف سے اٹھتا درد کا ایک طوفان تھا، جو گویا اسے اپنی لپیٹ میں لینے کو ہی تھا۔آج اس کی آٹھ سالہ معصوم بیٹی عصمت کی اس ذہنی کشمکش نے اسے ایک بار پھر اذیت کے اسی دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا، جسے بھلانے کی کوششوں میں وہ اب تک اپنی جوانی کی بہاریں خزاں کی مانند گزارتی چلی آئی تھی۔ کچھ ہی لمحوں پہلے اپنی عمر سے کہیں بڑے اس جنس کے احساس سے نپٹی معصوم کلی عصمت اب سامنے کچھ ہی دور صحن میں ایسے ہنس کھیل رہی تھی، جیسے کہ کچھ بھی تو نہ ہوا تھا۔ مگر یہاں ماں کے روپ میں ندرت تھی کہ جس کا وجود اندر ہی اندر شاخ سے ٹوٹے خزاں رسیدہ پتوں کی مانند بکھرتا ہی چلا جا رہا تھا۔ ہر طرف سے اٹھتی یادوں کی آندھیاں تھیں، جن میں قریبی و پراعتماد رشتوں کے گرداب تھے اور جنس کی بھوک اور پھر وہ ہزار نہ چاہتے ہوئے بھی یادوں کے ان تند و تیز جھکڑوں کے ساتھ کسی ٹوٹی ہوئی شاخ کی مانند ڈولتی اپنے ماضی میں ڈوبتی چلی گئی۔

’’ابا۔۔ ابا۔۔ابا‘‘ وہ خوشی سے چیختی، اپنے کھیتوں کی پگڈنڈیاں پھلانگتی ہوئی ابا کی طرف بھاگتی چلی آ رہی تھی۔ آج پانچویں کے امتحان میں ندرت اپنے گاؤں کے اس واحد اسکول میں پہلے نمبر پر آئی تھی۔ خوشی سے اس کا چہرہ دمک رہا تھا، خوشخبری سب سے پہلے ابا کو سنانا چاہتی تھی۔ ندرت گھر میں سب بہن بھائیوں سے بڑی تھی، جتنا اسے پڑھنے کا شوق تھا، اتنے ہی چاؤ سے ابا، اماں بھی اسے پڑھانا چاہتے تھے، مگر ایک طرف غریبی تھی تو دوسری طرف گاؤں میں پانچویں سے آگے کوئی اسکول بھی نہ تھا۔ اماں اس کی مزید پڑھنے کی اس ضد کے آگے خاموش اور بےبس سی تھیں مگر ابا ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھے۔

اگلے ہی دن ندرت کو ساتھ لیا اور شہر پھوپھو کے گھر آ گئے، نجانے ابا اور پھوپھو کے درمیان کیا بات طے ہوئی تھی۔ ہاں اسے صرف اتنا یاد ہے کہ ابا نے جاتے جاتے اسے کہا تھا، ’’بیٹا تم نے اب آگے پھوپھو کے گھر شہر میں رہ کر پڑھنا ہے، میں جیسے تیسے فیس بھیج دیا کروں گا، تم بس دھیان لگا کر پڑھنا اور پھوپھو کی ہر بات ماننا، انھیں کبھی شکایت کا موقعہ نہ دینا‘‘۔ ابا تو اور بھی بہت کچھ سمجھا رہے تھے مگر ندرت ابا کی آنکھوں میں صاف نظر آتے اس کی تعلیم کے سہانے سپنے میں گم تھی۔

 شہر کے اسکول میں چھٹی جماعت میں داخلہ ہوا۔ ندرت بہت خوش تھی۔گھر آ کر پھوپھو کے ساتھ خوشی خوشی کام میں ہاتھ بٹاتی مگر جونہی وہ ہوم ورک کرنے بیٹھتی تھی، پھوپھو اپنے چار سال کے بیٹے اور دو سال کی بیٹی دونوں کو پاس چھوڑ کر کسی نہ کسی کام کا کہہ کر برقعہ اوڑھتے ہوئے گھر سے باہر نکل جاتیں،گھر واپس آتیں تو بھی کام میں الجھا کر رکھتیں، رات کو سوتے میں بھی بار بار کسی نہ کسی کام سے اٹھاتیں اور بچوں کے کپڑے بھی دھلوتی تھیں۔ ندرت کو یہ احساس ہونے میں دیر نہ لگی تھی کہ وہ یہاں پھوپھو کے پاس بھتیجی نہیں بلکہ کسی نوکرانی کی حیثیت سے رہ رہی تھی۔ ہاں مگر اس احساس کو بھی وہ اپنی غریبی کی ایک اور سزا سمجھ کر پی گئی۔ اور دن مہینے بنتے گئے، پھوپھا کسی دوسرے شہر کی پولیس میں تھانے دار تھے، سن تو رکھا تھا، چھٹی ہوتی تو کبھی کبھار گھر چکر لگا جاتے تھے۔ اس بار، جب آئے تو ندرت نے انہیں پہلی بار ہی دیکھا، بھاگ بھاگ کر ان کے بچوں کے کام کرتی ندرت کو پھوپھا گھڑی گھڑی داد دیئے بغیر نہ رہتے تھے، اس بار شاید پھوپھا آئے بھی کچھ لمبی چھٹی پر تھے۔

حسب معمول صبح پھوپھو کا ناشتے میں ہاتھ بٹاتی اور بھاگ بھاگ کر اسکول کے لیے تیار ہوتی، ندرت جب پھوپھا کے مانگنے پر پانی کا گلاس تھمانے گئی تو پھوپھا کے بھاری ہاتھوں نے ندرت کی نازک سی انگلیوں کو کچھ لمحوں کے لیے اپنی گرفت میں لے کر گہری سانس لیتے ہوئے چھوڑ دیا، ندرت اس غیر مانوس سے احساس کو سمجھ تو نہ پائی تھی ہاں مگر وہ اس عجیب سے احساس گھبرا ضرور گئی تھی اور پھر یہ انجاناسا احساس کہ ہر دم اس کا طواف کرتی پھوپھا کی نظروں سے اور بھی طاقتور ہونے لگا تھا۔ وہ بلاوجہ پھوپھا کا ندرت کو آواز دینا، عجیب عجیب نظروں سے اس کا طواف کرتے رہنا، ہاتھوں کو چھونے کا بہانہ ڈھونڈنا اور پیار کے بہانے سر سے کمر تک ہاتھ پھیر کر جسم میں سنسنی سی دوڑا دیتا۔ پھر بات یہاں تک پہنچی کہ پھوپھو کے گھر سے نکلتے ہی زبردستی ہاتھ کھینچ کر گود میں بیٹھا لینا، سینے پر ہاتھ پھیر کر گہری سانسیں لیتے ہوئے ہاتھوں کو رانوں پر اوپر تک پھیرتے جانا، اس دوران محلے سے کوئی دوست ملنے والا چلا آتا تو ندرت کی گویا جان میں جان آ جاتی۔ پھوپھا کا موڈ فوراً بدلتا ندرت کو چائے بنانے پر لگا کر سیاست سے لے کر مذہب تک، محلے بھر کی بہو، بہنوں کی بے پردگی سے لے کر نوجوان بیٹیوں کی بے راہ روی تک، شہر بھر کی معروف خواتین کے معاشقوں سے لے کر خود پر عاشق خواتین کی فہرست تک، الغرض دنیا بھر کے سبھی موضو ع پھر ان کی دسترس میں ہوتے۔

 ندرت کا پھوپھا کو اپنے ارد گرد محسوس کر کے خوف سے ہی دل بیٹھنے لگتا تھا، مگر کرتی بھی تو کیا کرتی؟؟ جاتی تو آخر کہاں جاتی؟؟ اسکول میں پڑھا نہ جاتا تھا، ٹیچر کی کسی بات پر اب دھیان نہ دیا جاتا تھا، واپس گھر آنے کا سوچ سوچ کر اسکول میں دن بھر اس کا ایک اجنبی سے احساس کے خوف سے دم سا نکلا جاتا تھا، گھر آتی تو خود کو کام میں الجھا کر رکھتی، پھوپھا کی نظروں سے بچنے کے لیے زیادہ تر پھوپھی کے ساتھ چپکی رہتی، گویا کہ ان غیر مانوس ہاتھوں کے احساس کے بوجھ تلے اس کا پورا وجود بری طرح مسلاجا رہا تھا۔ ترازو کے ایک پلڑے میں ابا کے سپنے تھے، ندرت کے خواب تھے تو دوسرے پلڑے میں اس انجانے سے خوف کی چٹان۔ ہر پل ایک ڈر کے ساتھ رہتی۔ اب پھوپھی کے گھر ہر ایک لمحہ گزارنا بھی اس کے لیے دوبھر ہوتا جا رہا تھا، چار و ناچار ایک دن تنگ آ کر پھوپھی سے کہہ بیٹھی تھی، پھوپھی جب آپ گھر سے جاتی ہیں تو پھوپھا مجھے اپنے پاس بلانے لگتے ہیں، نہیں جاتی تو کھینچ کر لے جاتے ہیں، میرے جسم پر میری ٹانگوں پر ہاتھ پھیرتے ہیں، مجھے اچھا نہیں لگتا۔

ابھی وہ اپنے اندر اٹھتی ڈر کی لہروں سے لڑتے لڑتے اتنا ہی بول پائی تھی کہ اس کی گال پر پڑتے زناٹے دار تھپڑ سے ندرت کا نازک سا بدن لرز کر رہ گیا اور پھر یہ تھپڑوں کی بارش رکی نہیں تھی۔ ایک کے بعد ایک تھپڑ پڑتے چلے جا رہے تھے اور ساتھ ساتھ پھوپھی کی زبان پر اس کے یہاں پناہ دینے کا سبب بھائی کی غریبی پر احسان کے طعنے تھے۔ لبوں سے اس کی ماں کے لیے اگلتی نفرت اور گالیاں تھیں،  مگر ندرت تھی کہ وہاں گم صم کھڑی اپنا جرم سمجھنے کی کوشش میں ساکت سی بت بنی تھی۔

 اور پھر بات یہاں پر ٹھہری نہیں تھی، پھوپھی کی ندرت کو خوب پیٹ لینے کے بعد اندر کمرے میں جا کر نجانے پھوپھا سے کیا کہا سنی ہوئی تھی کہ پھر اگلے ہی دن پھوپھی نے ندرت کا سامان باندھا اور اسی شہر میں موجود دادی دادا کے گھر جا پہنچیں۔ یہ بھرا گھر جہاں ندرت کی دو غیر شادی شدہ پھوپھیاں اور تین چچا جو ابھی کنوارے تھے، دادی دادا کے ساتھ رہتے تھے۔ ندرت کو پھوپھی کے ساتھ آتے دیکھ کر وہاں حیران تو سبھی نظر آ رہے تھے مگر خوشی کسی کے چہرے پر نہ تھی اور یہی سوال ہمیشہ سے ندرت کو دل ہی دل میں پریشان کرتا تھا کہ آخر کیوں اس کی امی حتی کہ بہن بھائیوں کے ساتھ ددھیال کے تعلق میں بھی کبھی لہو کے رشتوں جیسی گرم جوشی نہ دکھائی دیتی تھی۔ پھوپھی کی سبھی گھر والوں کے ساتھ کچھ گھنٹوں کی کھسر پھسر کے بعد یہی نتیجہ سننے کو ملا تھا کہ ندرت اب دادی اور دادا کے گھر پر رہے گی اور اسکول دور ہو جانے کے سبب چھوڑنے اور لے جانے کی ذمہ داری چچاؤں پر ڈالی جائے گی۔ ندرت نے سکون کا سانس لیا تھا۔ اس کے لیے تو اتنا بہت تھا کہ تعلیم نہیں چھوٹی تھی۔

سلسلہ پھر وہیں سے شر و ع ہوا، گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا اسکول جانا، ہاں فرق اتنا تھا کہ وہاں پھوپھی، حماد اور کرن تھے مگر یہاں تو بہت بڑا خاندان تھا۔ رشتہ داروں کا ہر وقت آنا جانا بھی لگا رہتا تھا اور کام تھے جو کبھی ختم ہی نہ ہوتے تھے، ہوم ورک میں چچاؤں کی مدد بھی اکثر مل جاتی تھی، مذہبی گھرانہ تھا، جہاں پانچ وقت کی نمازوں اور دو وقت تلاوت قرآن کے فرداً فرداً چارٹ بنتے تھے۔ سبھی پھوپھیاں ہفتہ وار تربیتی اجلاس کی خصوصی ممبران تھیں اور سبھی چچا اکثر رات بھر مساجد کے پہروں کی ڈیوٹی کرتے اور دن بھر لمبی تان کر سوتے نظر آتے تھے۔ ہاں مگر جس رات جس نے مسجد میں ڈیوٹی دی ہو اس کو ملے ثواب کے تذکروں کے ساتھ نماز کی چھوٹ پر کوئی پکڑ نہ کرتے ہوئے خاص رعا یت برتی جاتی تھی اور دن بھر خاطر مدارات الگ ہوتی تھی ورنہ ایک بھی نماز قضا ہونے کی صورت میں نیم کی لچکدار چھڑی کے جسم پر جگہ جگہ نشان اور دن بھر ہائے ہائے کی منہ سے نکلتی کراہیں دوسروں کو عبرت دلاتیں اور اس پر دو وقت کی روٹی سے محرومی دوبارہ ایسی غلطی کا سوچنے بھی نہ دیتی تھی۔ ندرت کو بھی اب ان سب کی عادت سی ہونے لگی تھی۔