حب الوطنی یا منافقت؟

عاطف توقیر

میرے ایک نہایت قریبی دوست کو یورپ آنا تھا۔ بدقسمتی یہ رہی کہ وہ ملک کے سب سے ’محب وطن‘ ٹی وی چینل میں کام کرتے ہیں۔ تنخواہ خاصی تگڑی ہے، مگر ملتی کیش ہے، یعنی بینک کا کوئی لینا دینا نہیں۔ مہینہ بھر کام کرو اور مہینے کے آخر میں پیسوں کی ایک گڈی آپ کے ہاتھ میں تھما دی جائے گی۔ میرا دوست وہ پیسے لے جا کر بینک میں جمع کراتا رہا اور یہ سمجھتا رہا کہ اسے تنخواہ ہی سمجھا جائے گا۔ مگر اس نے ویزے کی درخواست ایک یورپی ملک کے سفارت خانے میں جمع کرائی، تو وہ اس بنیاد پر رد کر دی گئی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی میڈیا ادارہ نقد رقم بہ طور تنخواہ ادا کر رہا ہو، کیوں کہ یہ تو غیرقانونی سی بات ہے۔

یعنی بول ٹی وی شاید پاکستان کا وہ واحد میڈیا ادارہ ہے، جہاں تنخواہ نقد صورت میں دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تنخواہ پر ٹیکس یا دیگر سرکاری محصولات کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ قائم رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔

میرے دوست نے اس اعتراض پر بول ٹی وی کے دفتر سے رابطہ کیا اور دریافت کیا کہ کم از کم یہ تحریری شکل ہی میں دے دیا جائے کہ اسے تنخواہ نقد صورت میں ملتی ہے اور فلاں ماہ کی تنخواہ اسے اب تک موصول نہیں ہوئی، مگر بول ٹی وی کی انتظامیہ نے اس پر کچھ بھی لکھ کر دینے سے انکار کر دیا۔

پرانے وقتوں میں کہا جاتا تھا، دال میں کچھ کالا ہے، مگر یہاں لگتا ہے کہ پوری دال ہی کالی ہے۔ یہ ٹی وی سارا سارا دن کرپشن کی تباہ کاریوں اور حب الوطنی کے درس دیتا ملتا ہے۔ آپ خود ہی سوچیے اگر دھن سفید ہو، تو کسی ٹی وی چینل کو اپنے ملازمین کو نقد رقم دینے کی کیا ضرورت ہے۔ تنخواہ والے دن کتنے کروڑ نقد صورت میں دفتر لائے جاتے ہوں گے اور پھر ملازمین میں بانٹے جاتے ہوں گے۔ معاملہ شفاف ہوتا تو ان سارے جھنجھٹوں سے بچتے ہوئے تنخواہیں باآسانی بینک کے ذریعے منتقل کی جا سکتی تھیں۔ دوسرا یہ کیسے طے ہو پائے گا کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا اور اس کا ماخذ کیا تھا یا کون تھا؟

حب الوطنی کا دعوے دار اور دوسروں کو گالیاں دیتا، مزاق اڑاتا، ایجنٹ اور غدار قرار دیتا یہ کوئی اکلوتا نشریاتی ادارہ یا معاملہ نہیں۔ اسی ٹی وی چینل سے وابستہ عامر لیاقت، جو اس سے قبل اس ٹی وی چینل کو گالیاں دیتے ہوئے، اس کے ’پول کھولنے کے دعوے‘ کرتے ہوئے اس سے الگ ہوئے اور اب ایک مرتبہ پھر (ماضی کی طرح) اس چینل سے وابستہ ہو گئے، ان کا کردار بھی آپ کے سامنے ہے۔ انہوں نے سینے پر ہر وقت پاکستان کا پرچم لگایا ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کا بھی حب الوطنی ہی کا دعویٰ ہے۔ دوسری جانب تعلیمی قابیلت اور جعلی ڈگریوں کا معاملہ ہو یا لیک ہونے والی ویڈیوز، سیاسی بیانات ہوں یا مذہبی فرمودات، ہر ہر معاملے میں عامر لیاقت کا کردار اور گفتار آپ تمام احباب سے چھپے ہوئے نہیں۔ ان صاحب نے بھی ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر لوگوں کو گالیاں دیں، غدار اور بھارتی ایجنٹ کے نعرے لگائے، توہین مذہب کے الزامات عائد کیے اور اپنی جیب گرم رکھی۔

میڈیا پر عامر لیاقت ہی کی طرز کے دیگر صحافیوں بلکہ لفافیوں کی زندگیاں، کردار اور افکار آپ کے سامنے ہیں۔ مثال کے طور پر اوریا مقبول جان کی اپنی صاحب زادی امریکا میں مقیم ہیں اور مغربی ثقافت میں مکمل طور پر ضم ہیں (یہاں یہ لکھنے سے مراد ہرگز اوریا مقبول جان کی صاحب زادی پر تنقید نہیں، کیوں کہ وہ ایک آزاد شہری کے طور پر ہر اس طرح سے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا اختیار رکھتی ہیں اور نہ ہی یہاں یہ بتانے کا مقصد ان کو موضوع بنانا ہے، خدا انہیں خوش رکھے اور وہ آباد رہیں) مگر ٹی وی چینل پر اوریا مقبول جان کے سبق آمور لیکچرز دیکھیں، تو لگے گا جیسے مغربی دنیا کسی سازش کے ذریعے ملک میں داخلے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک ٹی وی کمرشل میں ایک کرکٹر لڑکی کے لباس پر تنقید (جو لڑکی ٹھیک ان کی بیٹی کی عمر کی تھی) ان کی اس منافقت کو واضح کرتی ہے۔ یہ افراد اپنے بچوں کو مغربی ممالک بھیجنے اور وہاں تعلیم دلوانے، وہاں کی ثقافت میں ڈھلنے سے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کرتے، کیوں کہ ایسی صورت میں وہ بک نہیں سکتا، جو یہ بیچ رہے ہیں۔ https://intellectus.lt/ispanu-kalbos-kursai-suaugusiems/ ispanų kalbos kursai

پھر زید حامد اور اس طرز کے دیگر مداری آپ کے سامنے ہوں گے۔ یہ تمام افراد وہ ہیں، جن کے سینے پر پاکستان کے پرچم اور زبانوں پر ملک، قوم اور مذہب کے نہ ختم ہونے والے جھوٹے، افسونوی بلکہ من گھڑت قصے ہیں، مگر ذرا غور سے ان کے اعمال اور کردار کو دیکھیں یا اچانک ان کی جیبوں میں ہاتھ ڈال دیں، تو تمام حقیقت ایک لمحے میں کھل جائے گی۔

ان تمام افراد میں ایک چیز نہایت مشترک ہے اور وہ یہ کہ اپنے اور اپنے قبیل کے افراد کے علاوہ یہ نہ کسی کو پاکستان سے محبت کرنے والا سمجھتے ہیں اور نہ مسلمان۔ ایک اور چیز ان افراد اور ان کے چاہنے والوں(جنہیں میں ذاتی طور پر کوئی دوش نہیں دیتا بلکہ متاثرہ فرد سمجھتا ہوں) میں مشترک ہے، یہ تمام طبقہ نہایت چرب زبان بلکہ بدزبان نظر آئے گا۔ دوسروں کی ذاتیات پر حملے کرتے، گالیاں دیتے اور گندے القابات سے نوازتے۔ ان میں سے کوئی گفت گو، مکالمت یا علمی بحث حتیٰ کے منطقی بحث کا حامل تک دکھائی نہیں دے گا۔ ان افراد کے منہ سے آپ فقط یہی بدحواسی سنیے گا کہ جیسے انہیں اور اس ملک کو چاروں طرف سے خطرہ ہے اور بچانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ فوجیں ہر طرف چڑھا دی جائیں، ہر مخالف آواز ختم کر دی جائے، مخالفت کرنے والے دشمن کے جاسوس ہیں اور ملک کی بقا کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو بات کرے، اسے غائب کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ تیسری قدر جو ان تمام میں مشترک ملے گی، وہ یہ ہے کہ یہ تمام افراد ملک میں جمہوریت کو برا بھلا کہتے اس ریاست کی بقا کا واحد حل کسی جرنیلی فرشتے کی آمد کو سمجھتے ہیں اور برملا ملک کے جمہوری دستور پر پھبتیاں کستے ہوئے آمریت کا مدحہ سرائی کرتے ہیں۔ایک کلاسیکی شاعر کا قطعہ ہے

حبِ وطن از ملک سلیمان خوشتر

خارِ وطن از سنبل و ریحان خوشتر

یوسف که به مصر پادشاهی می کرد

می گفت گدا بودن کنعان خوشتر

حب الوطنی سینے یا کندھوں پر جھنڈے لگانے سے نہیں بلکہ زمین پر زمین کے قانون کی بالادستی سے عبارت ہوتی ہے۔ وہاں موجود مختلف اکائیوں، قومیتوں، برادریوں اور نسلوں کی ثقافتوں سے محبت اور باہمی برداشت اور مکالمت سے ہوتی ہے، مختلف مکاتب فکر کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو عزت دینے اور اختلاف پر گالیاں دینے کی بجائے گفت گو کرنے سے ہوتی ہے اور دھرتی کے قانون کو برباد کر کے اپنی جیبیں بھرنے کی بجائے اس قانون کا احترام کرنے سے ہوتی ہے۔

جس ریاست میں اگر کوئی ادارہ خصوصاﹰ فوج دستور اور قانون کو یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دے کہ قانون کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا اور قوم کے خون پیسنے کی کمائی سے اپنے لیے صحافی اور دانش ور خریدے جن کا کام صرف اور صرف یہ ہو کہ وہ عوام کو یہ بتائیں کہ قانون شکنی کتنا احسن عمل ہے؟ ملک میں جمہوریت کتنی بڑی بیماری ہے؟ ملک کو کسی دستور کی ضرورت نہیں یا انسانی حقوق کا خیال رکھنا ایک نہایت فضول عمل ہے، تو ایسی ریاست کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے، یہ جاننا مشکل نہیں۔

اب منافقت پر اطمینان کی حالت یہ ہے کہ ملک میں کسی بھی قانون شکنی کا ذکر کیجیے، اس میں کوئی نہ کوئی ’انتہائی محب وطن‘ شخص یا ادارہ ملوث ہو گا۔

سوشل میڈیا پر کچھ روز قبل کسی دوست نے کچھ تصاویر پوسٹ کیں، جن میں کچھ اسمگلر ہتھیاروں اور منشیات سے لدی گاڑیاں دوڑا رہے تھے، تاہم اہم بات یہ تھی کہ ان تمام گاڑیوں پر جھنڈے پاکستان کے لگا دیے گئے تھے۔

لاپتا افراد کا معاملہ ہو، ماورائے عدالت قتل ہوں، کرپشن ہو، کاروباری مقابلہ جات کے ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کانٹریکٹ دینے کا واقعہ ہو، عدالیہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہو، میڈیا اداروں کو دھمکانے کا قصہ ہو، کیبل آپریٹرز کو دھمکیاں دینے کا معاملہ ہو، انتخابات میں بے ضابطگیوں کا مسئلہ ہو، دہشت گردانہ واقعے میں کسی کوتاہی کی بات ہو، صحافیوں کو خریدنے، پلاٹ اور دیگر مراعات دے کر اپنی مرضی کا ’سچ‘ بلوانے کی بات ہو، ملک کی تباہی اور بربادی کا کوئی بھی معاملہ اٹھا کر دیکھ لیجیے، اس کے درپردہ کوئی انتہائی ’محب وطن‘ شخص یا ادارہ دکھائی دے گا۔

اب حالت کچھ یوں ہے کہ جب بھی کسی سینے پر پاکستان کا جھنڈا دکھائی دے یا جب بھی کوئی شخص زور و شور سے حب الوطنی کے اہمیت پر زور دیتا ہوا ملے، احتمال یہی ہوتا ہے کہ کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ ورنہ مٹی سے محبت کے لیے سینے پر بیج سجا کر بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اپنے دیس کے قانون اور وطن کی عظمت کے لیے ملک کے شہریوں کی تکریم میں اضافے پر توجہ سے خود ہی نظر آ جاتی ہے۔

میرا دوست یورپ نہیں آ سکا اور وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ایک ایسے ادارے میں کام کرتا ہے، جو سارا سارا دن پاکستان سے محبت کے دعوے کرتا ہے مگر دنیا بھر میں جعلی ڈگریوں کے کاروبار کی وجہ سے ہماری قوم کی بدنامی کا باعث بنا ہے، جو ملک کے اندر ہر جمہوری آواز کو دبانے اور ملک میں نہ نظر آنے والی مگر مکمل طور پر محسوس کی جانے والی آمریت کی راہ ہم وار کرتا ہے، جو اپنے دیس کے ٹیکس اور بینکنگ کے قواعد توڑتا ہے اور مگر ظاہر ہے کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی، وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے ماتھے پر ’محب وطن‘ لکھوایا ہوا ہے اور سینے پر جھنڈا چپکا رکھا ہے۔

ہم وہ مطمئن منافق لوگ ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی شخص غصے یا جذبات میں بھی پاکستان یا اداروں کے خلاف نعرے لگائے یا پاکستان مردہ باد کہے (جو کہ نہایت نادرست، غلط اور قابل مذمت بات ہے) تو سب پوری شدت سے ’غدار‘ ’غدار‘ اور ’ایجنٹ‘ ’ایجنٹ‘ پکارنا شروع کر دیتے ہیں مگر وہ لوگ جو اس ملک کو حقیقی معنوں میں ’مرد باد‘ کر رہے ہیں، جو اس ملک کی جڑوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، جو ہمارے ملک میں قانون کی بالادستی کو تہ و بالا کر رہے ہیں، جو ہماری قوم کے لوگوں کا مستقبل تاراج کر رہے ہیں، جو ہمارے بچوں سے زندگی کی امید چھین رہے ہیں، وہ زبان سے ’زندہ باد‘ کا نعرہ لگا کر ’حب الوطنی‘ کے تمغے بھی جاری کر رہے ہیں۔