دو قومی نظریہ اور آزادی

طیب سرور

دو قوموں کا نظریہ ؛ بظاہر یہ مختصر سا مجمل اپنے اندر بہت گہرائی اور گیرائی رکھتا ہے۔ قوم کے اجزائے ترکیبی میں زبان ،علاقہ، ثقافت ، پیداواری عمل اور مشترکہ نفسیات شامل ہے لہزا یہ کہنا کہ اقوام صرف ایک زبان کی بنیاد پر یا مزہب کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں محض ایک فرسودہ خیال ہے جس کا آج کے اس سائنسی دور میں کوئی معنی نہیں ۔ قوم کی تشکیل کا یہ فلسفہ کوئی اتنا پیچیدہ نہیں کہ مشکل سے سمجھا جائے بلکہ عہد حاضر میں دنیا کے اندر اقوام اور ان کے تشکیلاتی عوامل مشاہدے سے سمجھا جا سکتا ہے ۔اس کے برعکس جہاں جہاں خالص مزہب کی بنیاد پر کسی قوم کو تشکیل کرنے کی سعی کی گئی یا کی جا رہی ہے وہاں پر ایک ہی علاقے کے ، ایک جیسی زبان بولنے والے ، مشترک ثقافت رکھنے والے غیر مزہبی یا دوسرے مزاہب کے لوگ بری طرح سے جبر و استحصال کا شکار ہیں ۔ جس کی مثال ماضی قریب میں برعظیم میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں پر دو قومی نظریہ کا ایک غلیظ ہتھیار استعمال کیا جس کا انجام شدید نفرت اور قتل و غارت کے ایک سلسلے کیطور پر اب تک جاری ہے۔

دراصل موضوع مضموں تصور قوم کا تاریخی ارتقاء یا تشکیلاتی سفر نہیں بلکہ جنوبی ایشاء میں دو قومی نظریے کا تصور ہے جس نے برائے نام آذادی کے نام پر انسانیت کے بیچ 1947 میں ایک نفرت کی لکیر کھینچی اور جس کی بنیاد پر ماقبل اور مابعد تقسیم لاکھوں لوگ مارے گئے ، بے گھر ہوئے اور عصمت دری ہوئی ۔اور اس دو قومی نظریے کی اساس مزہبی تھی ۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر ستم ظریفی کہ آج تک یہ نظریہ پورے شد و مد سے زندہ ہے اس کا پرچار دونوں طرف ریاستی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔

برعظیم کے بٹوارے کی تاریخ کو دونوں اطرف اس طرز ڈزائن کیا گیا ہے کہ اِس طرف کا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کی وجہ ہندو تھا بعینہ وہاں کا عامی یہاں کے مسلمان کو مورد الزام ٹھراتا ہے اور ہو بھی کیوں نہ کہ جب اس بے ہودہ پروپیگنڈے کو ریاستی سر پرستی حاصل ہے اور یہ ثابت کرنے پر توانائی صرف ہو رہی کہ ہندو مسلمان دو جدا قومیں ہیں جن ایک ساتھ رہنا غیر فطری ہے جیسے آگ او پانی۔بہرحال یہ ان کی اس تاریخی حقیقت پہ پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے کہ جس میں ہندو مسلم کو کئی صدیوں تک ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے بلکہ دو قومی نظریہ کا تصور تو 1920 کے بعد سے شروع ہوا کہنے میں کوئی مزائقہ نہیں۔ بلکہ اس دو قومی نظریہ پہ اقبال کی نظم “سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ نظم کا شعر ملاحظہ کیجِیے۔

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

دو طرفہ بٹوارے کے اس مقامی تاریخی مطالعے میں جو بات سب سے افسوس ناک ہے وہ برطانوی کلونیل استعمار کا اس تاریخی حادثے میں کردار جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ درحقیقت دو قومی نظریہ کا خالق وہی انگریز استعمار تھا جس نے devide and rule کے مشہور فارمولے کے تحت تقسیم کیا کیونکہ بعد از تقسیم اس نے دو نوزائیدہ ریاستوں کو جدید نو آبادیاتی طرز کی صارف منڈی بنانا تھا جوکہ آج ثابت بھی ہو چکا لیکن ہم آج تک استعمار کو دو قومی نظریے کی عینک سے دیکھتے آیے ہیں بلکہ ہمارے ہاں تو یہ بات عام مشہور ہیکہ انگریز ہندو کا دوست تھا۔

دو قومی نظریے کے کھوکھلے پیڑ کو عوام میں زندہ رکھنے کی کوشش کا سوال اس سماج کی طبقاتی نوعیت کو سمجھنے کیلیے بہت اہم ہے چونکہ اس قابل نفرت لکیر کے دونوں اطراف دو اکثریتی مزاہب کے لوگ آباد ہیں اور مزہب کسی بھی جاگیر دار یا نیم جاگیر دار عہد میں انسان کا بنیادی جزبہ ہوتا ہے جس کیلئے جان کا نظرانا دینا بھی بہت کم خیال کیا جاتا ۔ عوام کی جڑوں میں پیوست اس جزبے کا ہمیشہ سے سپر سٹریکچر نے استعمال کیا اور یہاں دو قومی نظریے کی فلاسفی میں بھی یہی ہوا اب تک اس نظریے کو زندہ رکھنے کا کا مقصد لاگوں کی اصل جنگ (طبقاتی) سے ہٹا کر مزہبی بنا کر الجھانہ ہے تاکہ وہ اپنے اقتدار کو بڑھوتری دے سکیں ورنہ نہ تو پاکستان کے مقتدر طبقے کا یہاں کے مزہب سے کوئی دلچسپی ہے نہ انڈیا کے حکومتی طبقے کو وہاں کے مزہب سے ہمدردی۔ اور ان کو کوئی مزہب ہے تو وہ ہے ‘سرمایہ’ ۔ ویسے بھی اگر یہ مسئلہ مزہبی تھا تو اب اسے ختم ہو جانا چاہیے جو دراصل ماقبل تقسیم بھی نہیں تھا بلکہ اسے ساخت کیا گیا تھا حتی کے اس بات کا اظہار مزہبی حلقوں نے بھی کیا جن میں مولانا ابوالکلام آذاد سر فہرست ہیں

دو قومی نظریے کی کامیابی آذادی خیال کی جاتی ہے جسے پاکستان میں 14 جبکہ انڈیا میں 15 اگست کو منایا جاتا یہ بات بھی بہت مزائقہ خیز ہے کہ اگر کسی ایک جسم کی تقسیم ایک ہی وقت میں ہوتی ہے تو اس کا جشن یا ماتم ایک حصے میں ایک دن جبکہ دوسرے میں دوسرے دن کیسے منایا جا سکتا ۔بہرحال یہاں استعمال ہونے والی آذادی کی ٹرمنالوجی بزات خود کیا ، کیسی، کس سے اور کس کے لیے جیسے سوالات کو جنم دیتی ہے کیا یا برطانوی سامراج سے آذادی تھی ، یا ظلم جبر ، نا انصافی ، لا علاجی ، جہالت ، ظلمت ، یا جنسی مزہبی طبقاتی تفریقات سے آذادی تھی ۔۔۔ اگر نہیں تو پھر یہ کیسی آذادی ہے؟ اگر آج بھی کسان مزدور محنت کش کا طرز زندگی وہی ہے یا اس سے بھی گرا ہے، اگر آج بھی شودر ہونا گالی ہے اگر آج بھی اقلیت کو ناکردہ گناہ کی سزا مل رہی جو کہ ماقبل تقسیم کم تھی تو پھر اس آذادی پہ بجا سوال اٹھتا جس پہ فیض نے کہا تھا۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

واضح رہے کہ اگر کسی کا یہ خیال ہیکہ یہ استعمار سے آذادی تھی تو قطعا نہیں کیونکہ ہم آج بھی جدید نوآبادیاتی غلام ہیں۔ جی ہاں یہ آذادی سولیہ نشان ہے کیونکہ آج بھی انسانی خون سے کشید کی گئی اس لکیر کے دونوں اطراف کا عام انسان بھوک، ننگ ،جبر ،جہالت اور تعصبات کا غلام ہے تقسیم سے قبل انسان جن پاٹوں کے بیچ مکئی کے دانے کی مانند پستا تھا آج ان کی جسامت میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں۔ ما سوائے لاکھوں لوگوں کو تقسیماتی کرب عطا کرنے کے اس آذادی نے آخر ہمیں کیا دیا ؟ چلیں آپ ہی بتا دیجئے کیونکہ میرے لیے یہ آذادی تو منٹو کے بشن سنگھ کا “ٹوبہ ٹیک سنگھ” ہے۔