ذوالفقار علی بھٹو اور پی پی پی

حمزہ سلیم

پچاس سال قبل تیس نومبر کے دن لاہور کے ماڈل ٹاون کے علاقے میں واقع ایک گھر میں کچھ انقلابی انسان جمع ہوئے ،ان انسانوں نے مل بیٹھ کر ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی ،اس پارٹی کا نام پاکستان پیپلز پارٹی رکھا گیا ۔ان تمام لوگوں کو اس بات کا بلکل علم نہ تھا کہ آگے کا سفر کیسے ہوگا ،یہ پارٹی کیسے آگے بڑھے گی۔جی ہے یہ گھر معروف لبرل اور روشن خیال دانشور ڈاکٹر مبشر حسن کا تھا ۔اس گھر میں وہ انسان بھی موجود تھا جسے جنرل ایوب خان نے وزارت خارجہ کے عہدے سے فارغ کردیا تھا ،یعنی زوالفقار علی بھٹو بھی موجود تھے ۔بھٹو کے ساتھ جے رحیم ،محمود علی قصوری،ملک معراج خالد ،مختار رانا ،حنیف رامے ،معراج محمدخان ،میر رسول بخش ،غلام مصطفی کھر اور شیخ رشید وغیرہ بھی موجود تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کے بننے کے بیس سال بعد تیس نومبر کے دن ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں پیدا ہوئی ۔یہ پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی تھی جس نے لیفٹ یعنی بائیں بازو کی انقلابی سوچ کا برملا اظہار کیا تھا ۔ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں جس پارٹی کی بنیاد رکھی گئی ،شروع میں اس کے منشور میں چار اہم نعرے چپکائے گئے ۔وہ نعرے یہ تھے کہ اسلام ہمارا دین ہے ،جمہوریت ہماری سیاست ہے ،سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔اب معلوم نہیں زرادری صاحب ،بلاول بھٹو زرداری ،بختاور یا آصفہ کو یہ نعرے یاد بھی ہیں یا نہیں ۔امید ہے انہیں سب کچھ یاد ہوگا ۔یہ وہ چار خیال تھے جو زوالفقار علی بھٹو ،حنیف رامے اور جے اے رحیم نے مل بیٹھ کر ترتیب دیئے تھے ۔اس کے بعد ہوا یہ کہ آمر ایوب خان کے خلاف تحریک چلی ،ایوب کو اقتدار سے فارغ کردیا گیا اور پھر یحیحی خان اقتدار پر براجمان ہو گئے ۔یحیحی خان نے اقتدار سنبھالتے ہی عام انتخابات کا اعلان کردیا ۔ایوب اقتدار سے تو ہٹ گیا تھا لیکن ابھی اس کی شان و شوکت برقرار تھی ۔پیپلز پارٹی ابھی ماڈل ٹاون کے گھر سے نکلی تھی ،اسے امیدوار ہی نہیں مل رہے تھے کہ کس کو ٹکٹ دیا جائے ۔کوئی اس پارٹی کی ٹکٹ لینے کے لئے تیار بھی نہ تھا ۔اس لئے متوسط اور غریب افراد میں اس پارٹی کی ٹکٹیں تقسیم کی گئی ۔

الیکشن ہوئے اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی جیت گئی ۔مشرقی پاکستان کی کہانی یہاں پر چھوڑ دیتے ہیں ،اب بنگلہ دیش بن چکا ،اس کا کیا ذکر کریں ،مشرقی پاکستان کا ذکر کردیا تو پیپلز پارٹی کہیں پیچھے رہ جائے گی ،مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننے کے سفر کی کہانی پھر کبھی ۔20 دسمبر وہ دن تھا جب جیتنے کے بعد زوالفقار علی بھٹو نے پہلی انقلابی تقریر کی تھی ،پاکستان ٹوٹ چکا تھا ،ہر طرف مایوسی تھی ،سماج بکھرا ہوا تھا ،سیاست دان اور فوجی سب کو گالیاں پڑ رہی تھی ،اس موقع پر بھٹو نے انقلابی تقریر کی اور پہلی مرتبہ نئے پاکستان کا نعرہ بلندکیا ،قوم کو امید دی کہ وہ نیا پاکستان بنائیں گے ،انہوں نے کہا یہ قوم ایک عظیم قوم بنے گی ،بلا بلا بلا ۔۔بھٹو نے اپنے انقلابی خیالات اور جوش ولولے کی بنیاد پر بکھری قوم کا حوصلہ بلند کیا ۔بطور لیڈر بھٹو نے قوم کو امید دی ،نیا ترقی پسند اور روشن خیال نظریہ دیا ،قوم کو ایک نیا ویژن دیا ،پروگریسو خیالات سے مزین کیا ۔بھٹو نے بطور وزیر اعظم ساڑھے چار سال تک انقلابی اقدامات اٹھائے ۔اس زمانے میں ہر شہری کے پاس پاسپورٹ نہیں ہوا کرتا تھا ،صرف امیر لوگوں کے پاس پاسپورٹ کی سہولت میسر تھی ،عام انسان پاسپورٹ جیسی ڈاکومنٹ سے محروم تھا ،بھٹو نے پاکستان کے عام شہری کے ہاتھ میں پاسپورٹ تھمایا اور اسے مڈل ایسٹ کا راستہ دیکھایا ۔روٹی کپڑا اور مکان پیپلز پارٹی کے منشور کا مرکزی حصہ تھا ،روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پورے پاکستان میں گونج رہے تھے ۔پاکستان کو پہلی مرتبہ ایجوکیشنل ،انڈسٹریل اور ہیلتھ پالیسی سے نواز گیا ،اس سے پہلے اس بارے میں کبھی پالیسیاں ترتیب نہیں دی گئی تھی ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس زمانے میں بھی پارٹی کا کوئی اسٹیکچر نہیں تھا ،بھٹو ہی پیپلزپارٹی تھی اور پیپلزپارٹی کانام ہی بھٹو تھا۔

اس کے علاوہ پاکستان کو آئین سے نوازا گیا ۔وہی آئین آج بھی پاکستان میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ۔پہلی مرتبہ اسٹیل ملز لگائی گئی ،یہ ایک انقلابی فیصلہ تھا،پاکستان جیسے ملک میں اسٹیل ملز کا تعمیر ہونا معجزے سے کم بات نہ تھی۔

پاکستان کو ایٹمی پروگرام دیا ،جس پر آج بھی مثبت یا منفی انداز میں بات ہورہی ہے ۔بھٹو نے ابھی بہت انقلابی کام کرنے تھے ،وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے ،لیکن انقلابی لیڈر کے خلاف سازش ہوئی اور اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا ۔بھٹو پھانسی چڑھ گیا ۔بھٹو کے پھانسی چڑھنے کے بعد دنیا کو پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ پیپلز پارٹی تو عوامی پارٹی ہے ،جس کی جڑیں عوام میں ہیں ،عوام نے بھٹو اور پیپلز پارٹی کی خاطر پھانسیاں برداشت کی ،کوڑے کھائے ،ظلم اور جبر برداشت کیا ۔بھٹو کے بعد اس کی بیٹی بے نظیر بھٹو سیاست کے میدان میں آئیں ۔بے نظیر بھٹو نے بڑے پیمانے پر تحریک چلائی ،جیلیں برداشت کی ،ظلم سہا اور پھر انیس اٹھاسی میں وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون تھی جو وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوئی ۔بے نظیر نے آخری تقریر لیاقت باغ میں کی ،جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان خطرے میں ہے ،آپ کو اور مجھ کو ملک بچانا ہوگا ،یہ ایک انقلابی تقریر تھی ،لیکن اس تقریر کے ختم ہوتے ہی وہ اسٹیج سے اتری اور پھر فائرنگ یا بم دھماکے کی نذر ہو گئی ۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی لیفٹ کی انقلابی پارٹی تھی،،بے نظیر کی پارٹی بھی انقلابی پارٹی تھی ،لیکن بے نظیر کے مرنے کے بعد یہ پارٹی انقلابی پارٹی سے مجاوری پارٹی بن چکی ہے ۔جہاں اب بھٹو اور بے نظیر کی قبروں پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں ،نعرے بلند کئے جاتے ہیں ،زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ،زندہ ہے بے نظیر زندہ ہے ،بھٹو یا بے نظیر اپنے فلسفیانہ خیالات کی وجہ سے شاید بہت عرصہ زندہ رہیں ،لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی زرداری کی آمد کے بعد وفات پاچکی ہے۔بھٹو سیاست کو ڈرائینگ روم سے سڑک پر لایا تھا اور زرداری نے سیاست کو سڑک سے لاکر دوبارہ ڈرائینگ روم میں بٹھا دیا ہے ،اس لئے پیپلز پارٹی کا قتل ہو گیا ہے ۔اس قتل کی کہانی پھر کبھی ،فی الحال اتنا ہی۔