غداری کے جھوٹے الزامات اور گلگت بلتستان کی محرومیاں

شیرنادرشاہی، گلگت بلتستان

پاکستان جیسے ملک میں پرامن طریقے سے عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں پر غداری کے الزامات کوئی نئی بات نہیں۔ سسٹم میں رہ کر سسٹم ٹھیک کرنے کی جدوجہد سے لے علیحدگی کے نعرے لگانے والوں تک سب کے سب غدار ٹھہرے ہیں، اور تو اور ، اپنے بھائی کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر پاکستان کی آزادی کے لیے قربانیاں دینے والی مادر ملت فاطمہ جناح کو پاکستان بننے کے فوراً بعد فوجی آمر کے مقابلے میں محض الیکشن ہروانے کے لیے نہ صرف غدار کہا گیا بلکہ راء کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا گیا۔ 1971 سے پہلے مشرقی پاکستان کے عوامی لیڈر مجیب الرحمان کی پارٹی نے عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور حکومت کی باری آنے پر وزیر اعظم کی کرسی پر بخوشی بٹھانے کے بجائے غداری کا الزام لگایا گیا اور نتیجتاً ملک کو دولخت ہونا پڑا۔ کتنا اچھا ہوتا اگر ملک کو دولخت کرنے کے بعد ایسے الزامات سے توبہ کر لیتے لیکن بدقسمتی سے یہ سلسلہ جاری رہا۔ ملک کے چوتھے صوبے بلوچستان کے وسائل لوٹنے کے بعد وہاں کے عوام کو بنیادی حقوق دینے کے بجائے انہیں اندھیرے میں رکھا گیا اور حقوق مانگنے والے نواب اکبر بگٹی (جو اس ملک کے صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے تھے)پر غداری کے الزامات لگا کر مذاکرات کے نام پر دھماکے سے اڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں علیحدگی پسند تحریکیں چلنے لگی۔

سندھ ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے اندر ملک کو سدھارنے، جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والے اور بنیادی و انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے ہزاروں لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور ان لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اٹھنے والے منظور پشتین جیسے نوجوان اور پشتون تحفظ موومنٹ جیسے پرامن تحریکوں پر بھی ملک دشمن اور غدار ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے اور ان کے جائز مطالبات حل کرنے کے بجائے ان کی آواز دبانے کی کوششیں جاری ہیں۔

حالیہ دنوں ملک کے ایک بڑے ٹی وی چینل پر بیٹھے ایک دفاعی تجزیہ کار لیفٹنٹ(ر) امجد شعیب اور ٹی و اینکر محمد ملک نے اپنے سابقہ روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک انتہائی حساس خطہ پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے عوام پر کھلم کھلا الزام لگاتےہوئے یہ کہا کہ گلگت بلتستان کے نوجوان تحریک طالبان سے زیادہ خطرناک ہے جو سی پیک کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور حالیہ دیامر کے سکولوں کو جلانے اور پولیس پر فائرنگ کرنے کے واقعات ان سازشوں کا حصہ ہے انہوں نے مزید یہ الزام بھی لگایا کہ بلتستان کے وہ نوجوان جو گلف اور مڈل ایسٹ کے مختلف ممالک میں کام کرتے ہیں وہ باقاعدہ انڈیا جا کر راء سے ٹریننگ لے کر آتے ہیں اور حالات خراب کرتے ہیں، امجد شعیب کے ان احمقانہ الزامات کو آگے بڑھاتے ہوئے ٹی اینکر محمد ملک نے کہا کہ آغا خان پر بھی الزام ہے کہ وہ گلگت بلتستان کو آغاخانی ریاست بنانا چاہتاہے۔

پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے عوام پر پاکستان کے کسی زمہ دار کی طرف سے لگائے جانے والے یہ الزامات اس لیے نئی نہیں کیونکہ اس سے پہلے خطے میں ٹیکس کے خلاف ابھرنے والی تحریک پر بھی یہ الزامات لگ چکے ہیں اور گلگت بلتستان کے قوم پرست جو ستر سالہ محرومیوں کے خلاف پرامن جدوجہد کررہے ہیں ان پر بھی مقامی حکومت اور پاکستان کے زمہ دار لوگوں کی طرف سے غداری اور را کے لیے کام کرنے کے الزمات لگ چکے ہیں اور درجنوں سے زائد پرامن سیاسی ورکرز انسداد دہشتگردی سمیت غداری کے جھوٹے مقدمات میں برسوں سے جیلوں میں پابندِ سلاسل ہیں اور نیشنل ایکشن پلان، انسدادِ دہشتگردی کاایکٹ شیڈول فور گلگت بلتستان کے ہر اس فرد پر عائد ہے جس کا کسی دہشتگرد تنظیم سے ہر گز کوئی تعلق نہیں بلکہ حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کرتے ہیں اس کے بجائے حقیقی دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں کے لوگ ایکشن پلان اور شیڈول فور سے آزاد ہیں جس کی واضح مثال گزشتہ روز کارگاہ نالے میں پولیس فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے دہشتگر کمانڈر خلیل ہے جس کا نامنہ شیڈول فور میں شامل تھا اور نہ ہی نیشنل ایکشن پلان میں۔

امجد شعیب کے الزامات عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ خطہ گلگت بلتستان کے پرامن عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کیونکہ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ میں گلگت بلتستان کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ خطہ متنازعہ ہے اور اس کا حل ریاست جموں کشمیر کے تمام حصوں کے ساتھ مستقبل میں رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا اس رائے شماری میں جموں کشمیر سمیت گلگت بلتستان کے عوام پاکستان یا انڈیا میں سے کسی ایک کو ووٹ دے سکتے ہیں حالانکہ حق پاکستان نے خود عالمی سطح پرتسلیم کیا ہے اس کے باوجود بھی انڈیا کو ووٹ دینے والا کوئی نظر نہیں آئے گا البتہ متنازعہ ہونے کی وجہ سے مستقبل میں خطے کی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیمیں موجود ہیں۔ اپنے اصول پر قائم رہنے کے بجائے اہم اور زمہ دار شخصیات کی طرف سے گلگت بلتستان کے عوام پر دہشتگردی اور غداری کے الزامات گلگت بلتستان کو مستقبل قریب میں بلوچستان بنانے کی سازش ہے ۔

پاکستان کے زمہ دار اداروں اور حکومت کو چاہئے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کی ستر سالہ محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں، سی پیک اور دیامر ڈیم جیسے اہم میگا پروجیکٹس میں گلگت بلتستان کو فریق اول تسلیم کرکے ان کو ان میں حصہ دیا جائے، سٹیٹ سبجیکٹ رول جو سوائے گلگت بلتستان کے ،ریاست جموں کشمیر کے تمام حصوں میں نافذالعمل ہے، کو گلگت بلتستان میں بھی بحال کیا جائے، یہ خطہ متنازعہ ہے اور عالمی قوانین کے مطابق اس کے عوام کو بھی وہ تمام حقوق دیئے جائیں جو متنازعہ خطے کے عوام کا حق ہے، خطے کے اندر دو ملین عوام کی آبادی کو صرف ایک یونیورسٹی کے نام پر بہلایا گیا ہے اور پورے خطے میں ایک بھی ٹیکنکل اور انجنئرنگ کالج موجود نہیں، نوجوانوں اور طلبہ و طالبات کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا حل تلاش کیا جائے۔

ان کے علاوہ اور بھی ان گنت مسائل ہیں جو حل طلب ہیں ان کو حل کرنے کے بجائے خطے کے نوجوانوں کو انڈیا یا موساد کا ایجنٹ قرار دے کر ان کو جیلوں میں ڈالا جاتا رہا، شیڈول فور میں ان جکڑ کر ان کے مستقبل سے کھیلا گیا اور ایسے پری پلان الزامات لگا کر وزیرستان کی طرح دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے نام پر خطے کو فوجی چھاونیوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو یقیناً یہاں کے لوگ اپنے زخموں پر مرہم لگانے کے لیے کسی نہ کسی کی طرف ضرور دیکھیں گے جس کے بعد امجد شعیب جیسے نام نہاد دفاعی تجزیہ کاروں کو نہ سنا جائے گا اور نہ ہی ایسے الزامات پر احتجاج کرنے کی گنجائش بچے گی۔

فراق نے کیا خوب کہا ہے،

وہ ظالم کی حمایت کرکے بھی سرکار ٹھہرے ہیں

عدالت کا تقاضا کر کے ہم بے کار ٹھہرے ہیں

انہیں تمغے ملے جو اپنی ماں کو ماں نہیں کہتے

ہم اپنی ماں کو ماں کہتے ہوئے غدار ٹھہرے ہیں