لندن میں کیا ہوا؟

انیس فاروقی

لندن میں ایم کیو ایم کے بانی و قائد الطاف حسین نے اپنی تحریک کے چونتیس سال مکمل ہونے پر یوم تاسیس کا ایک بڑا پروگرام منعقد کیا۔ دعوت نامہ موصول ہوا۔ ٹی وی کی ٹیم سے پروگرام مرتب کیا اور تین رکنی ٹیم کوریج کے لئے لندن پہنچ گئی۔ وہیں کا حال احوال پیشِ خدمت ہے۔ ایک بہت مختلف بات جو ایم کیو ایم کی تقریبات میں اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی وہ یہ نہیں کہ اس میں مہاجروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی بلکہ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس بار پاکستان کی ہر زبان و صوبہ کے مرد و خواتین جوق در جوق پہنچے تھے۔

پشتون بڑی تعداد میں صف اول میں دیکھے گئے، درجنوں پنجابی خاندان اپنے بچوں اور خواتین کے ہمراہ مانچسٹر اور گرد و نواح سے وہاں پہنچے اور بلوچ بھی موجود تھے۔ اسی طرح احمدی کمیونٹی، کرسچین اور دیگر اقلیتیوں کے افراد بھی، غرض یہ کہ لندن کے ایجوئیر روڈ پر واقع وی آئی پی بینکوئٹ ہال کو کراچی کی طرح منی پاکستان بنا دیا گیا تھا۔

یہ تمام افراد اپنی مرضی اس ہال میں آئے تھے کیوں کہ برطانیہ میں گن پوائنٹ پر اجتماع کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ شاید پہلی اور آخری کاوش بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن لوگ پھر بھی آئے۔ کیا تھی ایسی کشش جو انہیں یہاں کھینچ لائی؟ ہفتہ کی تعطیل تھی ، ڈھیروں تفریحی مقامات اور تقریبات ہو رہی ہوں گی، وہاں بھی جا سکتے تھے ، شدید سردی بھی تھی، برف باری بھی تھی، کھانا تو ہر جگہ مل جاتا۔ رنگا رنگ موسیقی سے بھی لطف اندوز ہو سکتے تھے۔ لیکن کیا کریں انہیں تو بس خشک تقاریر سننے کی ایسی پڑی تھی کہ ریسپشن پر ٹوٹے پڑے تھے۔

وہاں موجود سیکورٹی اسٹاف بھی حیرت سے یہ سب دیکھ کر پریشان تھا کہ یہ قوم جنات کہاں سے نمودار ہو کر آئے جا رہی ہے۔ اسی قطار میں جیو نیوز اور اے آروائی کے دوست بھی بے چینی سے اندر داخلے کے منتظر دکھائی دیے۔ ہماری آنکھیں تو بس منتظر تھیں کہ کب برادر عاطف توقیر گیٹ تک پہنچیں تو انہیں اندر لے آئیں اور یہ کام بھی کرکے ہی دم لیا۔ جتنے بھی جرنلسٹ دوست آئے تھے وہ بھی حیرت زدہ تھے کہ یہ ہجوم کہاں جا کر ختم ہو گا؟

ایم کیو ایم کے ذمہ داران کرتا پاجامہ اور واسکوٹ میں ملبوس پورے ہال میں روایتی خوش اخلاقی سے میزبانی کی فرائض انجام دیتے دکھائی دیے۔ محفل جمتے جمتے جم گئی اور پھر اچانک ایک دروازے پر ہلچل سی مچی، کمیرہ مینوں نے پوزیشن سنبحالی، سیکورٹی الرٹ ہوگئی اور حاضرین کی نظریں دروازے پر جم گئیں کہ شاید الطاف حسین آرہے ہیں۔ اسی دوران اسٹیج کے عقبی دروازے پر بھی یہی ہلچل ہوئی اور وہاں سے الطاف حسین روایتی کرتا پاجامہ اور کریم کلر کی شال اوڑھے سیکورٹی اور کارکنان کے جمگھٹ میں ہال میں داخل ہو گئے۔ پھر جو نعرہ بازی ہوئی۔ الامان الحفیظ۔ ہال میں موجود دنیا بھر سے آئے ہوئے بہت سے لوگوں نے تو اپنے رہنما کو پندرہ بیس سال بعد دیکھا تھا۔ جذبات کا ایسا طوفان جس کی منظر کشی لفظوں میں شاید ممکن نہ ہو پائے۔

ہم صحافی لوگ اور ہم جیسے قلم کار احباب اس طرح کی سیاسی سرگرمیوں اور دیگر انسانی حقوق کے حوالے سے ہونے والی کانفرنسز میں شرکت کرتے رہتے ہیں، اس لیے ہمارے لیے یہ ایک نارمل سی بات تھی۔ خاص کر اورسیز رہ کر مساویانہ کوریج ایک عادت سی بن گئی ہے اور کسی پاکستانی ہائی کورٹ کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر لگائی جانے والی اظہارِ رائے کی قدغنوں کا اطلاق ہمارے فکرو خیال پر نہیں ہوتا، اس لیے جہاں من چاہے پہنچ جاتے ہیں۔ قلم کا سفر کسی قدغن اور پابندیوں کا اسیر نہیں ہوتا۔ لیکن لوگ بہر حال باتیں کرتے ہیں، ان کا کیا ہے کرنے دیں۔ ہم کام کرتے ہیں کرتے رہیں گے۔ کسی بلوچ، پشتون، سرائیکی، سندھی، پنجابی، سنی، شیعہ ، عیسائی ، احمدی یا مہاجر وں پر جب بھی کبھی ریاستی جبر دیکھیں گے۔ تو لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ جسٹ لیو اَز الون‘‘ اور ’’ہمیں ہمارا کام کرنے دو‘‘۔

خیر انتہائی کامیاب تقریب رہی۔ نہ جانے الطاف بھائی نے رابطہ کمیٹی، ورکرز، رضاکاروں اور ہمدردوں میں پڑھ کر پھونکا تھا کہ ایک نیا ولولہ ہر جانب دکھائی دیا۔ ہاں البتہ یہ نہیں لکھ سکتا کہ اس کا اصل سہرا کس کے سر ہے۔ کیونکہ سہرے کا ذکر کرنے پر پی ٹی آئی والے دوست ناراض ہو جاتے ہیں کہ یہ صاحب ہر بار اپنے کالم میں کہیں نہ کہیں سے عمران کا ذکر لے ہی آتے ہیں۔
اب آتے ہیں ایک ایسے چمتکار کی جانب جو پوری دنیا نے تو ٹی وی پر دیکھا لیکن ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ وہ تھا الطاف حسین کی چاق و چوبند، فٹ فاٹ صحت، بھاگ دوڑ، عوام میں گھل مل جانا اور آسمان کو چھوتا ہوا انرجی لیول۔ شاید یہ ہی وہ روح تھی جو کارکنان و ذمہ داران میں بھی دوڑ رہی تھی۔ ایم کیو ایم کے فنی ماہرین نے الطاف حسین کی تقریر کو تمام تر رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے دنیا کے ہر بر اعظم تک پہنچا دیا۔

آخری خبریں آنے تک ایک کروڑ سے زائد افراد یہ تاریخی پالیسی ساز خطاب دیکھ اور سن چکے ہیں جس میں ہائی کورٹ کے وہ جج صاحب بھی شامل ہیں جنہوں یہ پابندی عائد کی تھی جبکہ بابا رحمتے تو ٹیکنالوجی سے عاری ابھی تک اچھے اور برے آلوؤں پر از خود نوٹس لینے میں مصروفِ کار ہیں۔ انہیں فرصت ہی نہیں کہ وہ اس غیر قانونی اور غیر آئینی فیصلے پر غور فرمائیں جو اپنی میعاد بھی پوری کر چکا ہے۔ لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ ٹیم ایم کیو ایم نے بھی ٹھان لیا ہے کہ کریز سے باہر آکر جارحانہ کھیل کھیلنا ہے۔ لندن سے چھکوں کی برسات شروع ہوئی۔ پھر اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے کسی بھی سیاسی رہنما کا پہلا خطاب۔ سی این این پر انٹرویو۔ اور ہماری اطلاعات کے مطابق آنے والے دنوں میں مزید چھکے لگنے کے سو فیصد آثار نمایاں ہیں۔

تیئس مارچ کو آبپارہ سے ایک نئے ترانے کا اجراء ہوا۔ لندن میں مظلوموں کا ساتھی ہے الطاف حسین چلتا رہا۔ اب صحافی برادری کو بھی اپنا ایک ترانہ بنانا ہو گا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ آخر میں بس یہ ہی میری آبزرویشن ہے کہ لندن یومِ تاسیس میں جذبات، ۔کراوڈ، قائد، کارکنان سبھی بے قابو تھے۔ لیکن حالات اب بھی قابو میں ہیں۔ اگر کوئی ہوش کے ناخن لے اور تمام اکائیوں کو مذاکرات کی ٹیبل پر جمع کرکے شکوہ شکایات، گلہ دور کرے۔ کچھ لو۔ کچھ دو کی بنیاد پر پاکستان مل کر چلائیں۔ ورنہ کہیں بہت دیر نہ ہو جائے اور یہ بے قابو جذبات حالات کو بے قابو نہ کر دیں۔ وما علینا الالبلاغ