مائل توقیر کے نام پہلا خط

عاطف توقیر

مائل تم آج ایک سال کے ہو گئے ہو۔ تمہیں اس عرصے میں کچھ بھی یاد نہیں ہو گا، نہ وہ پہلی چیخ، نہ وہ رونا، نہ میرا تمہاری ناف سے لٹکتی نالی قینچی سے کاٹنے اور تمہاری ننھے سے بدن سے جڑی اس نالی سے لہو کی چند بوندیں جو اچانک میری آنکھوں میں سیلاب لے آئیں تھیں، نہ ہی تمہارے ماں کے وجود سے باہر آتے ہیں، اپنے تالاب زندگی کی مہک والے پانی سمیت میرے ننگے جسم پر لوٹنا۔ تمہارے وجود میں اتنی سکت تک نہیں تھی کہ تم اپنا سر خود سے اٹھا سکتے۔

میں جب گھر پہنچ کر نہایا تھا، تو میں نے اپنے سینے پر بہت دیر ہاتھ رکھا تھا۔ بار بار لگتا تھا تم اب بھی وہیں چپکے ہوئے ہو اور کہیں گر نہ جاؤ، بہہ نہ جاؤ۔ مائل میں بہت عجیب سا آدمی تھا، بلکہ بہت خود غرض تھا، شاید بزدل بھی۔ خودغرض لوگ بہت بزدل ہوتے ہیں یار۔ جو صرف اپنا سوچتا ہے نا، وہ کبھی مضبوط نہیں ہوتا۔ اس کے اندر خوف کی بہت سی بلائیں آ بستی ہیں۔ اسے خوف ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ کھو نہ دے، جو وہ پا چکا ہے۔ تم جب پہلی بار مسکرائے تھے تو تم صرف تین دن کے تھے۔ تمہاری مسکراہٹ کا دورانیہ کوانٹم مکینکس کے کسی غیریقینیت کے قانون جیسا تھا، جو ہو کر نہ ہو اور نہ ہو کر ہو۔ اس ایک لمحے سے بھی کم وقت کی مسکراہٹ میں نے کیمرے میں بھی محفوظ کر لی تھی مگر اس سے زیادہ میرے ذہن کے پردے پر ہے۔ تمہیں معلوم بھی نہیں ہو گا کہ تمہاری مسکراہٹ کتنی قیمتی تھی۔ مجھے یہی معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ مجھے اس پر ہنسنا ہے کہ رونا ہے۔

تم پیدا ہوئے تو کچھ بیمار تھے، تمہیں دوسرے ہسپتال میں منتقل کیا گیا تھا، تمہاری ماں ایک دوسرے ہسپتال میں تھی۔ تمہیں معلوم ہے، میں تمہاری ماں کی چھاتیوں سے تمہارے لیے دودھ کی چند بوندوں کو ٹیکے میں بھر کر اس ہسپتال سے تم تک دن میں کتنی بار دوڑ لگایا کرتا تھا اور جب میں وہ دودھ تمہاری زبان پر گھول دیتا تب میری اپنی بھوک اور پیاس بھی مٹ جایا کرتی تھی۔

تم تو چند دنوں میں بھلے چنگے ہو گئے تھے مگر اس ایک ہفتے میں میں فقط اتنا ہی سویا تھا، جب آرام کرسی میں تمہیں میرے سینے پر رکھ دیا جاتا تھا۔

مائل تمہیں معلوم ہے، تم ایک جادوگر ہو۔ ایک ایسا ساحر جسے صرف ایک مسکراہٹ سے دل فتح کرنا آتے ہیں، تم نے میرا دل پوری طرح فتح کر لیا ہے۔ میرے اندر کی ساری خودغرضی تم نے چھین لی ہے، مجھے حد سے زیادہ بہادر بنا دیا ہے۔تم میرے ہاتھوں سے بھی چھوٹے تھے مگر تمہاری چھون اتنی عظیم تھی کہ مجھے باپ ہونا آ گیا تھا۔

تم نہیں تھے، تو میں شام کو کسی پارک، کسی کیفے، کسی کافی ہاؤس میں بیٹھ جاتا، کتاب پڑھتا، دوستوں سے ملا کرتا، اسنوکر کھیلتا، گھر جاتا تو بھی کبھی کوئی کتاب گھیر لیتی، کبھی کوئی نظم تھام لیتی۔ تمہاری ماں کو مجھ سے بہت شکایت رہتی تھی ٹک کر بیٹھتا ہی نہیں۔ مگر تم نے مجھے صرف باپ ہونا نہیں سکھایا، تم نے مجھے یہ بھی سکھایا کہ اچھا بیٹا کیا ہوتا ہے کیوں کہ تمہاری پیدائش نے مجھے یہ بھی بتا دیا کہ ماں کیا ہوتی ہے اور باپ کسے کہتے ہیں اور تم نے مجھے ایک اچھا شوہر بھی بنا دیا، جس نے ایک خاتون کی درست معنوں میں عزت اور تکریم کرنا سیکھی۔ اب تمہاری ماں کو مجھ سے شکایت ہی نہیں ہوتی، میں تمہیں چھوڑ کر کہیں جاتا ہی نہیں، جاؤں بھی تو تمہیں سوچتا رہتا ہوں۔
تمہیں پتا ہے مجھے ویڈیو کالز سے نفرت ہوا کرتی تھی، اپنے گھر بھی کال کرتا تھا تو صرف آواز سے بات کرتا تھا اور تصویر خود بنایا کرتا تھا۔ تم نے شاید میری یہ صلاحیت بھی چھین لی، اب تم کو دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ میں گھر سے باہر نکلا ہوں تو تم میرے پیچھے بڑے نہ ہو گئے ہو، کچھ بولنے نہ لگے ہو۔
تمہاری زندگی کے اس پہلے سال میں بہت سے لمحے ہیں جو میں نے قید کر لیے ہیں اور ان سے بھی زیادہ لمحے ہیں جنہوں نے مجھے قید کر لیا ہے۔

آج تم ٹھیک ایک سال کے ہو گئے ہو مگر اس ایک سال میں ایسی ایک رات بھی نہیں تھی، جب میں نے رات میں اٹھ کر تمہارا ماتھا نہیں چوما۔ تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اور تمہاری ماں نے باری لگا رکھی تھی کہ ایک رات وہ تمہاری دیکھ بھال کرے گی اور ایک رات میں، اور میں اپنی باری کا انتظار کرتا تھا اور جس روز باری نہ ہوتی، اس روز بھی چپک سے تمہیں چھو لیتا تھا۔

اب تم چھوٹے چھوٹے سے قدم اٹھانے لگے ہو، اپنے دونوں ہاتھوں میں میرے ہاتھ پکڑ کر چلنے لگے ہو، ہنسنے لگے ہو، عجیب عجیب سی آوازوں کی صورت سہی بولنے لگے ہو، دیکھنے لگے ہو، مخاطب ہونے اور کرنے لگے ہو، صبح مجھے اٹھنے میں دیر ہو جائے تو تم چہرے پر تھپکی دے کر اٹھا بھی دیتے ہو۔

مگر اس ایک سال میں جو سب سے بڑی تبدیلی تم نے مجھ میں کی ہے، وہ یہ ہے کہ اب مجھے صرف ایک ڈر رہتا ہے، اور اس ایک ڈر نے باقی سارے خوف ختم کر دیے ہیں۔ مجھے لگتا ہے تم کسی روز اچانک مجھ سے پوچھ لو گے کہ بابا تم مجھے کیسی دنیا دے کر جا رہے ہو؟ تم مجھے سے پوچھ لو گے بابا تم تو شاعر تھے، لفظ تو تمہارے دوست تھے، پھر جب لوگ تمہارے آس پاس رو رہے تھے، تو تمہارے لفظوں کی آنکھوں میں آنسو کیوں نہیں تھے، لوگوں کی چیخیں تمہاری تحریروں میں کیوں نظر نہ آئیں۔ تمہارے سوالوں کے اسی خوف نے مجھے بہت ذمہ دار بنا دیا ہے۔ یقین کرو جب تم مجھ سے پوچھو گے، تو میں تمہیں سر اٹھا کر اور تمہاری آنکھوں میں دیکھ کر تمہیں پوری سچائی سے جواب دے پاؤں گا۔ میں تمہیں کبھی شرمندہ نہیں کروں گا۔ تم نہ ہوتے تو شاید میں لوگوں کے درد بھی کبھی نہ سمجھ سکتا۔

مائل تمہیں تمہاری پہلی سال گرہ مبارک ہو۔