مولانا کی سیاست، آزادی مارچ اور جمہوریت

 عابد حسین

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی نگرانی میں جمیعت علماء اسلام اور اپوزیشن جماعتوں کا حکمران جماعت کے خلاف پچھلے آٹھ روز سے دھرنا جاری ہے۔ جو کہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم استعفٰی دیں اور ملک میں دوبارہ انتخابات کراۓ جائیں کیونکہ پچھلے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے تحریک انصاف کو فتح دلائی گئی ہے اور عمران خان کو منصوبہ بندی کے تحت وزیراعظم بنایا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ موجودہ حکومت نے معیشت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، رشوت ستانی اور اقرباء پروری عروج پر ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس کسی قسم کا لائحہ عمل موجود نہیں ہے کہ آگے جاکر وہ ڈوبتی معیشت کو سہارا دے پاۓ گی۔ 31 اکتوبر کو مولانا فضل الرحمان نے جب احتجاج شروع کیا تو اس شرط پر دھرنا ختم کرنے کا کہا تھا کہ جب تک وزیراعظم مستعفٰی نہیں ہونگے وہ دھرنا ختم نہیں کرینگے۔ دو روز قبل مولانا نے اگرچہ براہ راست کسی کا نام تو نہیں لیا  لیکن اشاروں میں مقتدر قوتوں کی سیاست میں مداخلت پر بات کی اور مسنگ پرسنز کا ذکر بھی کیا کہ طاقتور ادارے سیاست میں مداخلت کے ساتھ ساتھ شہریوں پر مظالم ڈھاتی ہے لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔

فوجی ترجمان نے دبے الفاظ میں تنقید کی کہ مولانا کس ادارے کی بات کررہے ہیں۔ اگرچہ مولانا کو اسٹیبلشمنٹ کا آدمی سمجھا جارہا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سول/ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مولانا سے نہیں بنتی اور نا وہ مولانا پر اعتماد کرتی ہے۔ اس کی وجہ جمیعت علماء اسلام کی تاریخ ہے جو جمیعت علماء ہند سے جا ملتی ہے۔ جس نے پہلے پہل کچھ معاملات میں تخلیق پاکستان کی  مخالفت کی تھی اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جمعیت علماء ہند سرمایہ دارانہ نظام اور انگریزوں کی سخت مخالفت تھی۔ پاکستان میں جمیعت علماء اسلام مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود صاحب کی قیادت میں سیاست میں سرگرم رہی۔ مفتی محمود صاحب کو پاکستانی سیاست میں ایک کٹرمذہبی، دقیانوسی اور سخت گیر شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ مفتی محمود دراصل وہ شخصیت تھے جنہوں نے موجودہ عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر جنرل ایوب خان کے خلاف بلوچستان اور موجودہ خیبرپختونخواہ میں اتحاد بنایا تھا لیکن 1970 میں اسٹیبلشمنٹ نے ایسے حالات پیدا کیئے کہ اس اتحادی حکومت کو مستعفٰی ہونا پڑا اور ان کا اتحاد ٹوٹ گیا۔

اپنے والد کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی سیاست میں رواداری اور لچک پائی جاتی ہے۔  فضل الرحمان صاحب نے ضیاء آمریت کے خلاف احتجاج بھی کیا، جیل بھی گئے اور جمہوریت کی بحالی کے لیئے اپنی بھرپور کوشش کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے بعد فضل الرحمان صاحب نے بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا بھی بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ضیاء دور میں افغان جہاد کے مسئلے پر جنرل ضیاء الحق اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان اختلافات تھے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ضیاء نے جمیعت علماء اسلام میں داراڑ ڈالی اور مولانا سمیع الحق کو جدا کیا۔ انہوں نے افغان جہاد میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیئے بھرپور کردار ادا کیا۔

نائن الیون کے بعد مولانا صاحب متحدہ مجلس عمل کا حصہ رہے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیا۔ اسکی وجہ سے مولانا فضل الرحمان کے سیاسی تشخص کو نقصان پہنچا۔ اب مولانا بظاہر عمران خان کے استعفٰے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ اس بات پر بھی مصر ہیں کہ انہیں یقین دلایا جائے کہ کوئی بھی ادارہ یا ایک مخصوص ادارہ سیاست میں اپنی مداخلت بند کرے۔ جبکہ دوسری جانب ملک میں ایسے بھی کچھ حلقے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ملک میں ہنگامی حالات پیدا کرکے صدارتی طرز حکمرانی رائج کی جائے۔ اگرچہ صدارتی تجربہ یہاں پر ناکام ہوا ہے لیکن اب بھی یہ خواہش موجود ہے اور وہ قوتیں جو اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں انکے خیال میں صدارتی نظام انکی بقاء کے لیئے بھی انتہائی موزوں ہے۔  ذرائع کے مطابق ایک سعودی پلٹ سابق جرنیل کو صدارتی نظام حکمرانی رائج کروانے کے لیئے اپنا کردار ادا کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔

 مولانا فضل الرحمان بہت ہی تدبر اور حکمت عملی کے ساتھ اپنا احتجاج ریکارڈ  کروارہے ہیں۔ انہوں نے سول/ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف انتہائی سخت قدم اٹھایا ہے۔ آزادی مارچ نے مولانا کی سیاسی شخصیت اور قد کاٹھ میں اضافہ کیا ہے۔ عوام اور نوجوان نسل مولانا کو ایک نئے روپ میں دیکھ رہی ہے جو کہ حقیقت میں ایک قومی لیڈر کے طور پر ابھر کرسامنے آیا ہے۔ ایسے لیڈر کے طور پر جو جمہوریت کا فروغ، عوام اور آئین کی بالادستی  اور قانون کی حکمرانی کی بات کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کو ان کے ماضی کی وجہ سے کئی حلقوں میں تنقید کا سامنا بھی ہے لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ آزادی مارچ دراصل ان جمہوریت پسند حلقوں کی آواز ہے جو اس ملک میں حقیقی جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کے خواہشمند ہیں۔

مولانا کی سیاست ماضی میں چاہے جیسی بھی رہی ہو یا آپ ان کے بارے میں جو بھی رائے رکھیں یہ ایک الگ بات ہے کیونکہ بعض روشن خیال طبقے ان کو اس مذہب پرستی کی وجہ سے ناپسند بھی کررہے ہیں لیکن مولانا کے موجودہ سیاسی کردار، مطالبات اور جدوجہد کو دیکھا جائے تو اس وقت انہوں نے ان قوتوں کو للکارا ہے جنہوں نے اس ملک کو اسکے نظام اور آئین  کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاقتور ادارے کا ترجمان اب روزانہ کی بنیاد پر صفائی پیش کررہا ہے کہ ہم نے کھبی بھی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کی لیکن درحقیقت یہ بیان سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ مولانا کا آزادی مارچ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے یا نہیں، انکے مطالبات کو تسلیم کیا جائے گا یا نہیں، وہ بامراد واپس لوٹیں گے یا بے مراد یہ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اگر ہم مولانا کے ساتھ ایک پوائنٹ پر بھی متفق ہوتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ہم مولانا کی جمہوری جدوجہد میں انکے ساتھ کھڑے ہیں۔