والدہ کہنے لگیں، تم پاکستان مت آنا

عاطف توقیر

والدہ بولیں، ’’کیا ضرورت تھی، تمہیں اس قوم کے لیے بولنے کی؟ تم نے اپنی زندگی کیوں خطرے میں ڈال لی لوگوں کے لیے؟ تمہارا بوڑھا اور بیمار باپ، تمہیں گلے نہیں لگا سکتا۔ اس ملک کے لیے تین جنگیں لڑنے والا سپاہی اب اتنا کم زور ہے کہ وہ تم تک سفر کر کے پہنچ نہیں سکتا۔ تمہارے بیٹے کے لیے بہت دعائیں کرتا ہے، مگر آج تک مائل کو چوم نہیں سکا۔‘‘

میں نے کہا، ’’اماں آگہی عذاب ہے اور ذمہ داری اس سے بھی بڑا عذاب۔‘‘

دھمکی کی سب سے بدترین قسم وہ ہوتی ہے، جب آپ کا کوئی انتہائی اپنا آپ سے کہتا ہے کہ آپ کی زندگی خطرے میں ہے۔

ہم اب جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، نہ کسی شہری کو تحفظ دینے والی کوئی حکومت ہے نہ کوئی قانون۔ ایک جنگل نما معاشرہ ہے، جس میں جسے طاقت حاصل ہے، وہی انسان شکار کر رہا ہے۔ جسے حفاظت کا ذمہ داری دی گئی ہے، وہی ہمارے پیارے ہم سے چھین رہا ہے۔ جسے تحفظ کی بندوق تھمائی گئی ہے، وہی اس بندوق کو ہماری کن پٹی پر رکھ چکا ہے۔

اس ملک میں بولنے یا حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد یا ملک میں دستور کی بالادستی کا خواب دیکھنے والے، اس ملک کی جغرافیائی حدود میں بسنے والی تمام قوموں کی سرفرازی اور ترقی کا خواب دیکھنے والے، اس ملک میں انسانی اقدار کی سربلندی کا سوچنے والے کتنا بڑا جرم کر رہے ہیں؟

میں نے کہا، ’’اماں، آپ یہ بتائیے، کیا میرے پاس کوئی بندوق ہے؟ کیا میں کسی دہشت گردی کے واقعے میں ملوث ہوں۔ کیا میں کسی قتل کے جرم کا مرتکب ہوں؟ کیا میں کسی قانون کی پامالی میں شامل ہوں؟ کیا میرے ماتھے پر کسی چوری یا کسی ڈکیتی کا الزام کنداں ہے؟ یا کیا میرے خلاف کسی تھانے کسی کچہری ہیں کوئی مقدمہ درج ہے؟‘‘

بولیں، ’’نہیں ایسا نہیں۔مگر۔۔۔‘‘

میں نے کہا، ’’جی اماں مگر۔ یہی مگر ان تمام مسائل کی جڑ ہے۔ جب کوئی شخص کسی بھی جرم میں ملوث نہ ہو۔ اس کے خلاف کوئی بھی مقدمہ درج نہ ہو اور اس کی واحد خطا اپنے ملک پر بسنے والی قومیتوں کے حقوق کی بات کرنا ہو۔ ملک میں پھیلی تعصب کی دراڑوں کو ختم کر کے پنجابیوں، پشتونوں، سندھیوں، مہاجروں، بلوچوں، سرائیکیوں، گلگت بلتستانیوں، کشمیریوں اور ہر دوسری قومیت کے درمیان پل بننا ہو۔ ملک میں موجود چھوٹی چھوٹی اقلیتوں کی بہتر اور قابل تکریم زندگی کے لیے اپنے الفاظ نچھاور کرنا ہو۔ اور اسے جرم سمجھا جائے۔ جس دستور پر یہ ریاست قائم ہے، اسی دستور کی بالادستی کے لیے آواز اٹھائی جائے۔ ملک کے تمام اداروں کو ان کے دستوری دائرے میں کام کرنے کے لیے بات کی جائے، ملک میں پھیلی نفرتوں پر محبتوں کی پھوار پھینکی جائے اور زندگی خطرے میں ہو، تو سمجھ لیجیے کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہے۔‘‘

میں نے کہا، ’’اماں آپ کا بیٹا شاعر ہے، لکھاری ہے۔ یہ قلم آپ نے مجھے نہیں دیا۔ یہ قلم میں نے خود بھی نہیں اٹھایا۔ یہ قلم تو مجھے دے کر بھیجا گیا تھا۔ آپ کو یاد نہیں جب میں بہت چھوٹا تھا، تو تب بھی انگلی سے کچی زمین پر لکیریں کھینچا کرتا تھا۔ آپ کو یاد نہیں، بہت چھوٹی عمر میں اپنی توتلی زبان سے جھوم جھوم کر نظمیں پڑھا کرتا تھا۔ آپ کو یاد نہیں، جب چند ہی برس کی عمر میں میں ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے شعر بنا بنا کر آپ کو سنایا کرتا تھا؟ میں نے یہ سب کسی سے نہیں سیکھا تھا۔ مجھے فطرت نے لفظ دے کر بھیجا تھا۔ پھر فطرت نے مجھ سے یہ حساب بھی تو لینا ہے؟‘‘

میں بس بولتا چلا گیا، ’’اماں یقین کیجیے، پنجاب سے بے حد نفرت بڑھ چکی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے۔ سندھی ہوں کہ مہاجر ہوں کہ پشتون ہوں کہ بلوچ یا دیگر، سبھی سمجھتے ہیں کہ پنجاب بہرہ ہے، پنجاب گونگا ہے، پنجاب ظالم ہے۔ پنجاب کی کوکھ سے فیض پیدا نہ ہو، جالب اور عاصمہ جہانگیر پیدا نہ ہوں اور پوری قوت سے دیگر اقوام کو یہ نہ بتائیں کہ یہ دھرتی بانجھ نہیں ہے۔ اس دھرتی پر دوسروں کے دکھ سمجھنے والے موجود ہیں۔ ان کے زخموں پر پٹی رکھنے والے بھی مرے نہیں۔ اگر یہ افراد نہ ہوں، تو یہ ملک خانہ جنگی میں چلا جائے۔ ہماری پوری دھرتی باردو کی بو سے نہا جائے اور ہماری زمین پر ہمارا اور ہماری نسلوں کا خون بہتا نظر آئے۔‘‘
اماں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ اپنے لرزتے ہاتھ موبائل کی سکرین پر یوں پھیر رہی تھیں، جیسے مجھے چھو رہی ہوں۔

’’اماں، یہ لڑائی ہمیں لڑنا ہو گی۔ اس ملک پر بسنے والے تمام انسانوں کی لڑائی۔ اس دھرتی پر امن کی لڑائی۔ اس پر موجود انسانوں کے مستقبل کی لڑائی۔ مجھے بہت خوشی ہو گی، جب میں کسی پشتون علاقے میں جاؤں تو میرے پٹھان بھائی، مجھے بانہوں میں بھر لیں اور اپنی میزبانیاں مجھ پر محبتوں کے ساتھ نچھاور کرنے لگیں، جیسے ہمارا خون کا رشتہ ہے۔ جب میں بلوچوں کی کسی بیٹھ میں داخل ہوں، تو ان کے بازو محبتوں اور اپنائیت سے کھل جائیں۔ کسی سندھی گھر میں داخل ہوں، تو پیار سے کوئی آپ جیسی ماں میرے ماتھے پر بوسہ دے کر کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ کسی مہاجر گھر کے پاس سے گزروں، تو لوگ شک سے نہیں بلکہ عقیدت سے گھر کی کھڑکی کھول کر چائے ساتھ پی لینے کا کہے۔ یہ وہ پاکستان ہے، جو میرا خواب ہے۔ اس مٹی پر ہماری صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کی ساری اقوام آپس میں ایک گہرا تعلق رکھتی ہیں اور ہمارے بیچ کے رشتے صدیوں پرانے ہیں۔ یہ رشتے سیاست اور اقتدار کی حوس کی نذر کیسے ہونے دیے جا سکتے ہیں؟ اور میں کوئی طاقت ور تو نہیں؟ میرے پاس اقتدار اور اختیار تو نہیں۔ فقط قلم ہے اور وہ قلم شاید کچھ نہ کر سکے، مگر اپنی تاریخ تو لکھ سکتا ہے۔ وہ تاریخ جو ہماری کل کی نسل کو یہ باور کروا دے گی کہ ہمارے بیچ تقسیم اور نفرت کے درپردہ کس کے مفادات تھے اور کیسے مفادات تھے۔‘‘

اماں نے اپنی آنکھیں بند کی، گال سے کرتے آنسو جیسے موبائل کی اسکرین پر گرے، اور منظر دھندلا گیا، اس دھندلے منظر کے پیچھے سے آواز آئی، ’’مت جھکنا، مت بکنا، ہماری لڑائی اب آخری سانس تک لڑنا اور اصل پاکستان کو زندہ باد کر دینا۔‘‘