وینا ملک اسلامی پدرشاہی اور ملائیت کا بے نقاب چہرہ ہے

مہناز اختر

میں نے گزشتہ مضمون کا اختتام اس جملے سے کیا تھا کہ مسلمانوں کی پدر شاہی کو چیلنج کرنا خواتین کے لیۓ آسان نہیں ہے۔ مسلم پدرشاہی اور ملائیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ان دو رخوں کے مزید کئی چہرے ہیں جن میں سے ایک مؤثر بلکہ مہلک چہرہ وینا ملک کا ہے۔ جب سے وینا ملک کے ابّوجی “مولانا طارق جمیل”  نے انہیں سر نہ ڈھکنے کی چھوٹ دی ہے تب سے وینا ملک پاکستان میں “نفاذ اسلام” اور روایت پسندی کے فروغ کی کوششوں میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے وینا ملک نے وسیم بادامی کو دئیے گۓ انٹرویو میں بتایا کہ  “اّبو جی نے مجھ سے کہا کہ سر ڈھانکنے کا وعدہ تو تم نے مجھ سے کیا تھا پھر دنیا تم سے سوال کیوں کرتی ہے”، وینا نے وسیم بادامی کو مسکراتے ہوۓ یہ بھی بتایا کہ وہ حجاب کی دل سے عزت کرتی ہیں لیکن فی الوقت سر ڈھانکنا انکے لیۓ تھوڑا مشکل ہے۔ وسیم بادامی نے مسکراتے ہوۓ پوچھا کہ کیا آپ کو “بگ باس” میں کام کرنے یا  بھارت میں اس بدنامِ زمانہ نیوڈ فوٹو شوٹ  کروانے پر آج کوئی پچھتاوا ہے تو وینا ملک نے کہا کہ آپکو معلوم ہے کہ میں ایک فوجی کی بیٹی ہوں اس لیۓ مجھے اس فوٹو شوٹ کی سازش کے جال میں پھنسایا گیا تھا اور میری تصویروں میں ردوبدل کرکے انہیں نیوڈ فوٹوشوٹ کی طرح شائع کیا گیا تھا لیکن مجھے اپنے فیصلوں پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔

عوام کی اکثریت FHM India کے ساتھ وینا ملک کے اس فوٹو شوٹ کے بارے میں جانتی ہے جس کے بارے میں وینا کا کہنا ہے کہ انہیں اسکے حوالے سے کمپنی نے دھوکہ دیا تھا جبکہ کمپنی کا کہنا تھا کہ وینا کو اس بات کا پہلے سے علم تھا۔ خیر اس اسکینڈل کا ذکر پاکستانی میڈیا میں اکثر ہوتا رہتا ہے اور خود وینا بھی اس کا ذکرکرتی رہتی ہیں۔ مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کے انہی دنوں وینا ملک نے فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے “مرد” آرٹسٹ ویزا کیوینن کے ساتھ  “ARTEVO” کے عنوان سے ایک اور نیوڈ فوٹوشوٹ کیا تھا۔ “آرتیوو” آرٹ کی نئی جہت ہے جسے ویزا کیوینن نے ہی متعارف کروایا تھا۔ اس آرٹ میں باڈی پینٹنگ اور نسوانیت کے  امتزاج کو فوٹوگرافی کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ وینا ملک  جان بوجھ کر اس شوٹ کے بارے میں بات نہیں کرتیں کیونکہ یہ شوٹ انہوں نے خوشی خوشی کروایا تھا اور تیاری سے لے کر شوٹ تک کی ویڈیو میں وہ بہت خوش بھی نظر آرہی ہیں اور بلاشبہ ویزا کیوینین نے بہت  خوبصورتی سے انکی تصویر کشی کی ہے۔ خیر “میراجسم میری مرضی” کے مصداق وینا ملک  نے اپنے حقِ خودارادیت کو استعمال کرتے ہوۓ اپنی زندگی کے فیصلے خود کیۓ اور ان سے سبق سیکھا۔

گزشتہ دنوں وینا ملک نے عورت مارچ کی بھرپور مخالفت کی اور خواتین کے مطالبات اور پلے کارڈز کو اغیار کا ایجنڈا قرار دیا۔ وینا ملک  “ابّوجی” کی بغل میں بیٹھ کر خواتین کی آزادی کی جدوجہد کو مزید مشکل بنا رہیں ہیں۔ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خاتون کارکن الھزلول  کو دوران حراست جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اب ان پر باقاعدہ مقدمہ چلانے کا آغاز کیا جارہا ہے۔ الھزلول کا جرم یہ ہے کہ اس نے مردانہ سرپرستی کی قانونی شرط کے خلاف احتجاج کیا اور خواتین کی آزادی کی بات کی۔ دوسری جانب ایرانی عدالت نے انسانی حقوق کی وکیل اور حقوق نسواں کی بھرپورآواز نسرین ستودہ کو38 سال قید اور 148کوڑے مارے جانے کی سزا سنادی ہے۔ نسرین ستودہ کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے خواتین پر جبری حجاب کے قانون کی مخالفت کی تھی اور اسکے خلاف احتجاج کیا تھا۔ ایسے موقع پر 17 مارچ کو وینا ملک نے ٹوئیٹ کرکے سوال کیا کہ ” سوال یہ ہے۔۔۔!!! ایک اسلامی ملک میں اس نے حجاب کی مخالفت کیوں کی، مسلمان خواتین حجاب سے محبت کرتی ہیں۔ انہیں اس معاملے میں اپنی ریاستی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہوۓ اپنے ملک کی لڑکیوں کی حفاظت کرنی چاہیے تھی۔ حجاب تحفظ ہے”۔

ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں آزادی کا مطالبہ کرنے والی خواتین کے بارے میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ جنسی بے راہ روی اور سڑکوں پر بے لباس پھرنے کی آزادی چاہتی ہیں۔  وینا ملک نے شوبز میں انتہائی بولڈ پراجیکٹس کیۓ، بگ باس شو میں اپنی شخصیت کا بے باک رخ دکھایا، دو مختلف نیوڈ فوٹو شوٹس کیۓ، اسد خٹک سے شادی سے پہلے  اشمیت پٹیل، پرشانتھ پرتاب سنگھ اور شیخ عمر فرخ ظہور کی آفیشل گرل فرینڈ بھی رہیں اور آجکل اسد خٹک  کو طلاق دے کر “خوش و خرم” طلاق یافتہ کے طور پر ابوجی کی مہربانی سے اپنی زندگی مزے سے گزار رہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح پاکستان کا مولوی بچوں سے زیادتی، زنا بالرضا والجبر، لواطت اور قتل غارت گری کے بعد بھی اپنے لیۓ توبہ اور جنت کے دروازے کھلے رکھتا ہے جبکہ ایک عام لڑکی کی چھوٹی چھوٹی خواہشات جیسے نیل پالش لگانا، بھنووں اور بالوں کی تراش خراش، خوشبوں لگانے اور سر نہ ڈھکنے پر اسے ملعونہ قرار دے کر اس پر جہنم واجب کروادیتا ہے۔ پاکستانی خاتون ریاست سے نہ تو نیوڈ فیشن شوٹ کی اجازت مانگ رہی ہے اور نہ ہی رمضان ٹرانسمیشن کا موقع بلکہ یہ خواتین توبس ایک ایسے معاشرے کا مطالبہ کررہی ہیں جو صنفی امتیاز اور جبر سے پاک ہو۔ جہاں انہیں گھر سے باہر نکلنے پر تحفظ کا احساس ملے، تعلیم، روزگار اور کاروبار کا حق ملے، وہ اپنی شادی کا فیصلہ خود کریں، انہیں شادی کے نام پر جبری جنسی غلامی میں نہ دیا جاۓ، شوہر رفیقِ حیات رہے مالک نہ بنایا جاۓ، کم عمری کی شادی پر پابندی لگائی جاۓ اور وہ پردہ کرنا چاہتی ہیں یا نہیں اسکا فیصلہ انہیں خود کرنے دیا جاۓ۔

پاکستانی پدر شاہی ملائیت کے قدموں میں بیٹھی وینا ملک جیسی خواتین اپنے لیۓ تو آسانیاں خرید لیتی ہیں لیکن معاشرے سے کبھی یہ سوال نہیں کرتیں کہ اتنے سال گزر جانے کے باوجود بھی جرگے کے حکم پر “بے لباس” گھمائی جانے والی اجتماعی زیادتی کا شکار مختاراں مائی اور طالبان کے ہاتھوں گولی کھا کر بچ جانے والی ملالہ کو ہمارے معاشرے میں انصاف اور وہ قبولیت کیوں نہیں ملتی جیسی انہیں مل رہی ہے۔ وینا ملک اور پدرشاہی ملائیت کا بنیادی معاہدہ بس اتنا ہے کہ وہ ان سے سوال نہیں پوچھیں گی کیونکہ سوال پوچھنا ہمارے معاشرے میں ایسا  “گناہِ کبیرہ” ہے جسکی کوئی معافی نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آزادی کا مطالبہ کرنے والی خواتین سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ “ننگی” گھومنا چاہتی ہیں لیکن اگر کوئی خاتون وینا ملک کی طرح بے لباس ہوجاۓ تو یہی ملائیت اسکے قدموں میں بیٹھ کر اس پر دین کو آسان کردیتی ہے۔ سوال فقط یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ پاکستانی خاتون کو دو انتہاؤں کی طرف کیوں دھکیلنا چاہتا ہے جہاں وہ یا تو “وینا ملک” بن جائے یا پھر “رہف القنون” کی طرح مسلمانوں کی جبری پدرشاہی پر لعنت بھیج کر فرار ہوجائے۔