پشتون تحفظ موومنٹ، کچھ خدشات

ماریہ رضوی

نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد زور پکڑنے والی پشتون تحفظ موومنٹ نے دو دن قبل پشاور میں ایک بہت بڑا جلسہ کیا۔ اگرچہ یہ تحریک کئی سالوں سے مختلف شکلوں میں موجود ہے لیکن جو پذیرائی اسے پشتون نوجوانوں میں اب ملی ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں ملی۔ اس مختصر سی تحریر میں اس تحریک کی بنیاد، مطالبات اوران مطالبات پر پیشرفت پر تفصیلی بات نہیں ہوگی لیکن اس ضمن میں کچھ خدشات آپ کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں۔

بنیادی طور پر پشتون تحفظ موومنٹ کا مرکزی مطالبہ سب پاکستانیوں کا مطالبہ ہے، اور وہ یہ کے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے. ان کے سارے مطالبات، جو میڈیا پر بیان کیے جاتے ہیں، سے کوئی بھی زی شعور پاکستانی مکمل اتفاق کریگا، لیکن مطالبوں کے علاوہ کئی نعرے بھی لگانے جا رہے ہیں جن میں “لر بر یو افغان” اور “پنجابی آرمی” قابل ذکر ہیں۔ ان جلسوں جلوسوں سے آنے والے بیانات کی مد میں یہ بھی ضرور کہوں گی کہ ریاست سے نفرت اور اداروں کی غیر منصفانہ پالیسیوں سے بغاوت کی حد تک اختلاف میں بڑا فرق ہے. پہلی چیز غداری ہے، جبکہ دوسری انسانی حقوق کی جدوجہد. مظور پشتین کی تحریک حتمی طور پر کونسا رخ لے گی، ابھی واضح نہیں، لیکن یہ ضرور واضح ہے کہ ٹکراؤ کی صورت میں پشتون نوجوان ریاست کے مقابلے میں منظور پشتین کے ساتھ کھڑے ہوں گے، پھر ملکی ایجنڈہ ہو یا غیر ملکی، وہ جس ڈگر لیجائے اس کی مرضی!

پشتون تحفظ موومنٹ کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ اس کی مرکزیت شخصی اور واحد ہے۔ ایسی تحریکیں اندر سے اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ ان کو ہائی جیکنگ کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے کیوںکہ قیادت تحریک کو اکھٹا رکھنے کے لیے نسبتاً زیادہ دباؤ میں ہوتی ہے۔ اگر خدانخواستہ منظور پشتین کو کچھ ہو جاتا ہے، یا کسی بھی وجہ سے تحریک ریاست مخالف دھڑوں میں تقسیم ہوتی ہے تو ایسی صورت میں نہ صرف پراکسیز کو کھیلنے کا موقع ملے گا، بلکہ مستقبل میں سب کو ایک پیج پر لانا بھی بہت مشکل ہو جائے گا. لال مسجد کا آپریشن ہو، اکبر بگٹی کی شہادت یا افغانستان میں طالبان کی تقسیم۔

مثالیں بیشمار ہیں.اس بحران کا مداوا صرف اور صرف پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے پاس ہے۔ آپ نے جو بھی بات چیت کرنی ہے انکے ذریعے کریں، مزاکرات اورفیصلوں کا اختیار انھیں دیں اور پھر جو بھی فیصلے ہوں انھیں من وعن تسلیم کریں۔ اس تحریک کو قومی دھارے میں لانے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں۔
.
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پشتون تحفظ موومنٹ سے اچھا موقع افغانستان کو کبھی نہیں ملا. افغانستان پہلے ہی اپنا کاندھا حاضر کیے ہوۓ ہے اور کیوں نہ کرے!! بات انکے اسٹریٹجک فائدے کی ہے. تحریک کو افغانستان میں پشتونوں کی تحریک آزادی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور ساری دنیا میں پشتون افغانستان کے پرچم پکڑ کر اس تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں. ملالا کی تائید کے بعد مغربی میڈیا بھی کافی دلچسپی سے تحریک کو کووریج دے رہا ہے۔صدر اشرف غنی، جو ایک انتہائی مصروف کل وقتی سیاستدان بھی ہیں، اتنے فارغ نہیں کہ وہ ہمسایہ ملکوں کی نسبتاً غیر معروف تحریکوں پر کئی کئی ٹویٹس کرتے پھیریں اور نہ ہی ایسا انسانی ہمدردی میں کیا جاتا ہے. انکا تحریک کو باچا خان کے ساتھ جوڑنا اتفاق نہیں تھا، انھیں ایسا تحریک کے مطلق بریف کیا گیا تھا اور حکومتی سطح پر ایسا ہونا خارجہ پالیسی کا اشارہ تھا. ان ٹویٹس کے بعد تحریک کے مطالبات پر غور ہوا اور کچھ مطالبات کو مانا بھی گیا، لیکن اس سارے سلسلے میں سیاسی نمائیندگی نہ ہونے کی وجہ سے معاہدے عوامی اعتبار سے ذومعنی نہیں ہو سکے. بہتر یہی ہے کے سیاسی مزاکرات کے زریعے اس مسلے کو اکتوبر میں ہونے والے افغان الیکشن سے پہلے حل کر کے آگے بڑھا جائے جس میں پاکستان مخالف سخت گیر قوتوں کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں. بھارت اور امریکا کی برج الخلیفہ سے اونچی اور بحر ہند سے گہری دوستی، صدر ٹرمپ کی پاکستان سے تلخی اور بھارت کا افغانستان پر گہرا اثر رسوخ صورت حال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔

را اور این ڈی ایس کا پشتون تحفظ موومنٹ سے فائدہ اٹھانا فطری ہے اسلیے ان پر لعن طان سے کچھ حاصل نہیں ہونا. پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا مسلہء یہ ہے کے وہ اس تحریک میں متضاد اور مخالف فریق ہونے کی وجہ سے مسلے کا حصہ تو ہیں لیکن حل کا حصہ نہیں. ایسے میں یہ کوشش کے وہ خود بات چیت سے تحریک کو اپنی طرف قائل کرلینگے، سوچنا حماقت ہے اورانھیں بہرحال سیاسی قیادت پر ہی انحصار کرنا ہوگا. سیاسی غیر یقینی اور حکومتی ڈھانچے کی کمزوری تو اپنی جگہ، لیکن پیچیدگی یہ ہے کہ پاکستان کی دو بڑی پارٹیوں کی پختون نوجوانوں میں کوئی خاص نمائندگی نہیں، جبکہ پی ٹی ائی کو تحریک “گل خانوں” کی پارٹی کہہ کر اسٹیبلشمنٹ کی پراکسی مانتی ہے. تحریک سیکولر ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی یا مولانا فضل رحمان کو بھی خاطر میں نہیں لاتی اور نیشنلسٹ پارٹیاں تحریک کی بڑھتی ہوئی ساکھ سے پہلے ہی خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہیں. ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگراسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی قیادت کو مکمل اختیار دے بھی دیا جائے تو وہ تحریک کا اعتماد کیسے حاصل کرینگی؟