کاغذ کی کشتی نیلم کا پانی (حصہ اول)

شیزا نذیر

مستنصر حیسن تارڈ صاحب کے سفر ناموں نے جہاں گری کے شوق پر جلتی پر تیل کا کام کیا تو ۲۰۱۷ میں میں نے ناران کاغان سے سفر کرنے کا آغاز کیا۔ یوں تو کئی بار مری کا سفر کیا لیکن اب کچھ آگے بڑھنے کی ٹھانی۔ مری سے مری کے آج کل کے حالات یاد آ گئے کہ مری کے مقامی لوگوں نے سیاحوں کے ساتھ بہت بدتمیزی کی جس کی میں خود بھی گواہ ہوں اور آئندہ کم از کم دس سال کے لئے مری نہیں جانا چاہتی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ہماری عوام کسی زیادتی پر متحد ہوئی ہے اور سیاحوں نے مری کا رخ بند کر دیا یعنی کہ مری کا بائکاٹ۔

آج سے پہلے جب بھی کشمیر کا ذکر ہوا تو ذہن میں ہڑتالوں، گولیوں اور تشدد کی آوازیں ہی آتی تھیں۔ فلم چنائی ایکسپریس کا گانا ’’کشمیر تُو‘‘ سُن کر کشمیر جانے کو دِل کیا اور ہمراہی ٹورز کے ساتھ کشمیر جانا ہوا۔

وادی کشمیر (آزاد کشمیر) قدرت کی خوبصورت اور فطری حسن سے مالا مال وادیوں میں سے ایک ہے جس کی فصاوں میں گولیوں کی آوازیں نہیں محبت کے نغمے بھرے ہیں۔ نیلم ویلی کشمیر کی حسین ترین وادیوں میں سے ہے۔ یہ 144 کلومیٹر طویل وادی ہے۔ اس میں لہراتا بل کھاتا اور شور مچاتا دریائے نیلم سڑک کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے اور اس وادی کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔ کمشیر کا لینڈ سکیپ بہت خوبصورت اور منفرد ہے۔ بلند و بالا پہاڑ اور نیچے گہرائی میں بل کھاتا دریائے نیلم۔
دھانی آبشار مظفرآباد سے 33 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ نیلم ویلی کی طرف سفر کرتے ہوئے دھانی آبشار کے علاوہ کٹن آبشار بھی ہے۔
کشمیر واٹر فالز اور دریاوٴں کی سر زمین ہے۔ کیل نیلم ویلی کا ایک گاوں یے، جہاں اپریل میں بھی برف باری ہو جاتی ہے۔ اس گاوں میں مارخور بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مارخور بکری کی طرح کا جانور ہے۔

نیلم ویلی کے چند مشہور مقامات میں شاردہ یونیورسٹی/ ٹیمپل، کیل ، ارنگ کیل ، اپر نیلم ویلیج ، کیرن، کٹن، کٹن واٹر فال، دھانی واٹر فال، نیلم جہیل ہائیڈرو پاور پلانٹ، کیل سری واٹر فال، مچھل واٹر فال، چٹا کھٹا جھیل، ہنس راج جھیل، نووری ٹاپ، تاؤ بٹ اور سب سے مشہور اور انتہائی خوبصورت جھیل رتی گلی جھیل شامل ہیں۔ سردیوں میں وادی نیلم برف کی چادر سے ڈھک جاتی ہے، موسم گرما میں جانوروں کے بڑے بڑے ریورڑ اس وادی کے حسن میں اضافہ کرنے کا باعث بنتے ہیں.

فطرت سے محبت کرنے والے لوگ اس وادی کو دیکھے بغیر ادھورے ہیں۔ ان دنوں نیلم ویلی میں طویل جھاڑا اختتام پذیر ہوا ہے اور موسم بہار کی آمد آمد ہے۔

ہمراہی تھکے مانندے کشمیر کی طرف گامزن تھے۔ راستے میں ہم نے کشمیر آبشار دیکھی۔ ہم جس طرف تھے، کشمیر آبشار دیکھنے کے لئے ہمیں دریائے نیلم پر بنی لفٹ پر بیٹھ کر پار کر کے جانا تھا۔ میرے ماموں بہت تھک گئے تھے اس لئے میں ان کے ساتھ ہی رہی۔ ہمراہی جب واپس آئے تو اکرم نے مجھے تسلی دی کہ جو آبشار سوات میں میں دیکھ چکی ہوں ان کی نسبت تو یہ آبشار بہت چھوٹی تھی اس لئے اگر میں نے نہں دیکھی تو کوئی بات نہیں۔

دھانی آبشار پر پہنچتے ہیں میں نے ماموں کا ہاتھ پکڑا اور سب سے پہلے آبشار کے پاس جا پہنچی۔ جیسے ہی آپ گرمی اور سفر سے تھکے ہارے کسی آبشار کے پاس پہنچتے ہیں، آبشار پر گرتے پانی کی پھوہار سے فریش ہو جاتے ہیں۔ کوئی دس منٹ کے بعد گروپ کے دوسرے لوگ بھی ویاں آ پہنچے۔ زندگی میں پہلی بار آبشار دیکھنے والوں کے لئے دھانی آبشار قدرت کے خوبصورت ترین منظروں میں سے ہے۔ دھانی آبشار کا پانی دیوار جیسی عمودی چٹان سے بہہ رہا تھا۔ آبشار کی چوڑائی کوئی بیس فٹ اورلمبائی چالیس فٹ تک ہو گی۔

ہم کشمیر میں داخل ہوئے تو فوجی چیک پوسٹوں پر چیکنگ کا سلسلہ شروع ہو گا۔ ہم سب نے اپنے اپنے قومی شناختی کارڈز اکرم کو دئیے اور وہ ہر چیک پوسٹ پر انٹری کرواتا جا رہا تھا۔ بہت تھک چکے تھے۔ ہم نے لاہور سے نو بجے نکلنا تھا لیکن ایک گروپ گیارہ بجے پہنچا اور دوسرا بارہ بجے۔ یہ انتظار بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ پتا نہیں ہم بحیثیت قوم کب وقت کی پابندی سیکھیں گے۔
جب ہم کشمیر (آزاد) میں داخل ہوئے تو دریائے نیلم کی ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف انڈیا تھا۔ بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان دریائے نیلم کا نظارہ خوبصورت ہونے کے ساتھ خوفناک بھی تھا۔ اِس بار ہمارے ساتھ جو لوگ سفر کر رہے تھے وہ پہلی بار کسی پہاڑی علاقے میں آئے تھے اِس لئے معمول سے زیادہ ڈرے سہمے بیٹھے تھے۔

دریائے نیلم کے پار وادی میں ہمیں سری نگری جانے والی روڈ کے بارے میں بتایا گیا تو ہم تھوڑی دیر کے لئے وہاں رُک گئے۔ سری نگر روڈ جلیانوالا (انڈیا) گاوں سے ہو کر گزرتی ہے اور یہاں سے ہماری موبائل سیم بند ہو گئیں کیونکہ کشمیر میں اُن کا مقامی نیٹ ورک چلتا ہے۔

ہمارے اور انڈیا کے درمیان وسیع دریائے نیلم تھا۔ بلند و بالا پہاڑوں میں بل کھاتی سڑک پر جاتے ہوئے ہم نے پرلی طرف انڈین کشمیر کا نظارہ کیا۔ سری نگر جانے والی سڑک ویران تھی بلکہ یوں کہوں کہ انڈین کشمیر پر بڑی خاموشی چھائی تھی۔ کوئی چہل پہل نہیں تھی۔ انڈین کشمیری اپنے گھروں میں مصحور تھے۔ ہم انڈین چیک پوسٹوں پر انڈین جھنڈا بڑے غور سے دیکھ ہے تھے جیسے کہ پہلی بار دیکھا ہو۔

دوسرے دِن شاردہ جاتے ہوئے میں نے مقامی ڈرائیور سے پوچھا کہ انڈیا کی طرف اتنی خاموشی کیوں ہے تو اُنہوں نے بتایا کہ انڈین کشمیری آزادی سے نہیں گھومتے پھرتے۔ اگر اُنہوں نے کہیں جانا ہو تو رنگتے ہوئے جاتے ہیں کہ کسی کو پتا نہ چل جائے کیونکہ انڈین فوجی بہت پوچھ گیچھ کرتے ہیں۔ انڈین کشمیری مسلمان ہیں لیکن فوجی عملا ہندو ہیں، کشمیری مسلمانوں کو فوج میں نہیں رکھا جاتا۔ ڈرائیور کے مطابق آزاد کشمیری آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں اور یہ بات ہم نے بھی نوٹ کی کہ آزاد کشمیر کی طرف خوب چہل پہل تھی۔

اگر آپ انڈین کشمیر کی طرف جانا چاہتے ہیں تو آپ کو ویزہ لگاوانا پڑے گا اور پھر چاہئے تو پُل پار کر کے پیدل انڈیا جا پہنچیں۔

ڈرائیور نے بتایا کہ جمعرات کو پاکستانی اور انڈین فوجیوں کی موجودگی میں دونوں علاقوں کے لوگوں کی ملاقات ہوتی ہے اِس ملاقات کے دوران لوگ چیزوں کو تبادلہ بھی کرتے ہیں، (سیب، اخروٹ، گندم وغیرہ)۔ دونوں طرف کے لوگوں میں رشتے داریاں بھی ہیں۔ بیس پچیس سال پہلے تو شادیاں بھی ہوا کرتی تھیں۔ اب بھی ہوتی ہیں لیکن اب دونوں علاقوں میں (خصوصاً انڈیا) سخت پابندیوں کی وجہ سے رجحان کم ہو گیا ہے۔ ڈرائیور نے بتایا کہ انڈین کشمیری پاکستان آنا چاہتے ہیں لیکن اب بہت مشکل ہو گیا ہے۔

کیل جاتے ہوئے ڈرائیور نے بتایا کہ آج جس سڑک سے ہم گزر رہے ہیں کئی سال پہلے یہاں سے گزرنا موت تھا۔ اگر دوسری طرف انڈین فوجیوں کو معلوم ہو جاتا تو وہ فائرنگ شروع کر دیتے ۔ ہمارے ڈرائیور نے بھی بیسیوں بار ایسا پُر خطر سفر کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ اُس زمانے میں ہم میں سے ایک شخص سفید لباس پہنے بیس پچیس فٹ آگے چلتا اور باقی کا قافلہ اُس کی راہنمائی میں پیچھے ہوتا تھا۔ ایسا اِس لئے کہ سفید کپڑوں کی وجہ سے رات کو بھی قافلے کو وہ شخص نظر آ جاتا تھا اور اُس کی راہنمائی میں باقی کے لوگ آگے بڑھتے تھے۔ دوسری وجہ یہ کہ اگر انڈین فوجیوں کو پتا چل جاتا تو سفید کپڑوں والے شخص پر فائرنگ کرتے اور اِس طرح باقی کے لوگ خبردار ہو جاتے تھے۔ ایسے میں لیڈر یعنی کہ سفید کپڑے والے شخص کی زندگی سب سے زیادہ خطرے میں ہوتی تھی اور بہت دفعہ ایسا بھی ہوا کہ لیڈر کو ہی گولی لگ گئی۔ ایسا ہوتا ہے لیڈر، جو اپنے لوگوں کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈالے۔ کاش پاکستان کو بھی ایسے لیڈر ملیں۔

واپسی پر ایک بار پھر سری نگر جانے والی روڈ پر نظر پڑی تو سوچنے لگی اِس روڈ پر پاکستان ہجرت کر کے آنے والے کتنے ہی کشمیروں نے جان دی ہو گی، کسی کا سہاگ لٹ گیا تو کوئی یتیم ہوا ہو گا، کسی ماں کی گود خالی ہوئی تو کسی بہن کا بھائی اِس فانی دنیا سے کوچ کر گیا ہو گا۔

آزاد کشمیر کے لوگ خوش ہیں لیکن انڈین کشمیری حق خود اردایت چاہتے ہیں۔ ڈرائیور کے مطابق وہ انڈیا سے آزادی حاصل کر کے پاکستان کے ساتھ شامل نہیں ہونا چاہتے بلکہ اپنی الگ ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ چند چیک پوسٹوں پر چیکنگ سے ہم کافی پریشان ہوئے تو سوچتی ہوں کہ جن لوگوں کی زندگی کا معمول چیکنگ ہی بن گیا ہے اُن پر کیا گزرتی ہو گی اِس لئے ہم پاکستانیوں کو انڈین کشمیریوں کی خواہش کا اخترام کرنا چاہئے کہ اُن کی الگ ریاست ہو جیسا کہ وہ چاہتے ہیں۔ (جاری ہے)