کیا بڑھتی ہوئی آبادی واقعی ایک سنگین مسئلہ ہے؟

عابد حسین

بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی آبادی اس وقت تقریباً سات ارب نفوس سے تجاوز کرچکی ہے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے جس کیلئے منصوبہ سازی بہت ضروری ہےـ۔آبادی کے لحاظ سے براعظم ایشیاء سب سے آگے ہے اور تمام ممالک میں چین دنیا کی سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہےـاور اسی طرح آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہےـ۔

حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی بیس اور اکیس کروڑ کے درمیان ھےـ 1998 اور حالیہ مردم شماری کے نتائج کا موازنہ کیا جائے تو ملکی آبادی میں 57% تک کا اضافہ ہوا ہےـ
پاکستان میں یومیہ پیدائش کی شرح 14910 افراد اور شرح اموات 3928 افراد یومیہ ہےـ۔

2005 میں آنے والے زلزلے سے ہونے والا جانی نقصان تقریباً لاکھوں اموات کا سانحہ تھا جبکہ اُس وقت کی بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح کے مطابق یہ ہونیوالی کمی صرف چنددن میں پوری ہوگئی۔ـ

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو انکی بنیادی سہولیات دینے کے قابل ہیں یا کوئی اقدام کر رہے ہیں۔ان کی خوراک ـ رہن سہن ـ صحت اور تعلیم و تربیت کے بارے میں بھی فکر مند ہیں یا نہیں ۔

اس کیلئے ہمیں اپنے ہمسائیہ ملک چین ہی سے سیکھنا چاہیئےـ انیسویں صدی کے نصف تک چین میں یہ سوچ عروج پر تھی کہ آبادی میں برکت ہےـ۔

مگر ستر کی دہائی میں انہوں نے اپنے ماضی کے غلط خیالات کو ترک کرتے ہوئے نئی سوچ کو بڑھایا کہ ہماری ساری محنت اس وقت تک بےکار ہے جب تک ہم آبادی کو کنٹرول نہیں کرسکتےـ۔

پھر ایک بچہ پیدا کرنے کا قانون نافذ کیا اور خاص حالات میں دو بچوں کی اجات دی جاتی۔تعلیمی نصاب میں آبادی کی منصوبہ بندی،عورت کی صحت،بچوں کی تربیت،بنیادی ضروریات کی فراہمی اور ذمہ داری کے حوالے سے لٹریچر شامل کیا گیاـ۔

میڈیا کے ذریعے بہتر اور مؤثر بیانئیے جاری ہوئےـ
منصوبہ بندی کے فقط ادارے نہ بنے بلکہ ان کی کارکردگی کو علاقائی سطح پہ سال با سال باقاعدہ چیک کیا جانے لگاـ۔ان قدامات کو اپنا کر چین نے آبادی پر قابو پالیا اور اس وقت بڑھتی ہوئی شرح آبادی کے لحاظ سے چین دنیا کے آٹھویں جبکہ پاکستان، نائیجیریا کے بعد دوسرے نمبر پہ ہے۔ قانون تو ہم بھی بنا سکتے ہیں ـ اہمیت دلانے کیلئے میڈیا بھی ہےـ۔

تعلیمی ادارے اور بہبود آبادی کے ادارے بھی موجود ہیں لیکن ہمارے اقدامات بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں ـ کوئی قانون سازی نہیں ہے اور میڈیا تو ایسے شخص کو فخریہ طور پہ دکھاتا ہے کہ جس کے پینتیس بچے ہوں اور وہ سو بچے پورے کرنے کے عزم کا اظہار کر چکا ہو اگر چین میں ایسا کوئی شخص ہوتا تو اسے پھانسی دی جاتی اور تعلیمی اداروں میں اس حوالے سے اہمیت دلانے کیلئے کوئی مواد موجود نہیں ہےـ۔

بہبودِ آبادی کا ادارہ فقط نام اور تختی کی حد تک موجود ہے جس سے تسلی بخش نتائج نہیں مل رہےـ اور عوام ابھی تک اس بارے میں طوطا ،ط، سے ہوتا ہے یا، ت، سے ـ اس کے جائز اور حرام ہونے کی بحثوں میں الجھے ہیں ۔