کیا زینب مجھ سے محفوظ ہے؟

عنایت بیگ، کراچی

کراچی کی گلیوں میں اکثر و بیشتر ڈاکو  عوام کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ روزانہ کی پریشانیوں سے بیزار عوام ان چوروں ڈکیتوں کو یا تو پٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیتے ہے یا پھر لاتوں، مکوں اور گھونسوں سے ان کی  جان لے لیتے ہیں اور ایک وقتی اطیمنان کی کیفیت حاصل ہو جاتی ہے، جیسے اب یہ سزا عبرت بنے گی اور ہماری گلیاں پر امن ہو جائیں گی۔ مگر افسوس یہی شہری اگلی شام کو انہی گلیوں پر پھر سے لٹ  رہے ہوتے ہیں کیونکہ مسئلہ ایک چور نہیں بلکہ چور تیار کرنے والا کارخانہ ہے اور جب تک یہ کارخانہ بند نہیں کیا جاتا، وقتی سزائیں  وقتی اطیمنان ہی فراہم کر سکتی ہیں کوئی دیر پا  حل نہیں۔

قصور کی بے قصور زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر اس معصوم کا بہیمانہ قتل  ایک اضافی دکھ کی کتھا ہے، نیا کچھ بھی نہیں۔ ہمارے لیے نہ تو یہ وحشت  کی داستان نئی ہے نہ ہی ہماری مشترکہ بے  حسی کا ماتم اور نہ ہی ہمارے منافقت بھرے مگر مچھ کے آنسو۔ کاش کہ ہماری خواہشات کی تعمیل کرتے ہوئے مجرموں کو سرعام پھانسی   دینے سے اگلی زینب ہماری وحشت سے محفوظ ہو پاتی۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ  سماج کو مشترکہ نفسیاتی تربیت کی ضرورت ہے جبھی ممکن ہے کہ شاید  اگلی زینب اس قدر بد قسمت ثابت نہ ہو۔ مگر مشترکہ نفسیاتی تربیت کیسے کی جائے ، اس کے لیے سماج کی اس بیماری کی سمجھ ضروری ہے۔

 ہمارا سماج ایک بیمار سماج ہے اور بیماری بھی ایسی موذی کہ اب بچنے کی امیدیں بالکل کم ہیں۔ مشترکہ مرگ کی خوفناک امیدیں اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ ہم اس  بیماری کو اپنی بیماری ماننے سے انکاری ہیں، اور ہم اندر ہی اندر اس ناسور کو مضبوط کیے جا رہے ہیں۔ جنسیت  کے معاملے میں ہم بہ حثیت مجموعی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ اس کے پیچھے  کئی  عوامل کار  فرما ہیں، جن میں  میرے  مطابق سب سے  اہم اور قابلِ ذکر انتہا پسندانہ اور بنیاد پرست سماجی تربیت  ہے۔ یہ تربیت تمام سماجی ادارے بہ شمول خاندان، مذاہب ، درس گاہیں اور ریاست  انتہائی مہارت سے کر رہی ہیں۔ ہمارے جیسے  معاشرے میں بالخصوص مذہب اور ثقافت کے نام پر بنیاد پرستی کو دہائیوں سے ایسے پروان چڑھایا گیا ہے کہ کئی نسلیں اس کی زد میں آ چکی ہیں۔

 خاندان سے شروع ہونے والے صنفی تفریق سے لے کر،  انتہاپسندانہ تعلیمی نصاب اور مردانہ حاکمیت سے بھرپور ہمارا معاشرہ ایک طرف طبقاتی تقسیم کو مزید گہرا کر دیتا ہے تو دوسری طرف سماج کے ایک بڑے حصّے کو نفسیاتی طور پر مفلوج بھی کر رہا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ نفسیاتی  طور پر مفلوج افراد مل کر ایک نفسیاتی طور پر مفلوج ہجوم بن چکے ہیں۔ ہم بیک وقت اس نظام میں ظالم بھی ہیں اور اس نظام کے مظلوم بھی۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ  نظام ہی ہمارے سماجی  رویے  تشکیل دیتا ہے اور آج کے غلیظ سماجی رویوں کے خاتمے کے لیے آج کے اس غلیظ نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ شعوری حلقوں میں جڑت کے ذریعے سے جب تک سماج میں موجود انتہا پسندانہ رویوں  کو چلینج نہیں کیا جاتا  اور ایک انسان دوست ترقی پسند سماج کی تعمیر کو یقینی نہیں بنایا جاتا، مشترکہ نفسیاتی تربیت ممکن نہیں۔ تب تک اس تلخ حقیقت کے ساتھ کہ آئے روز ایک نئی زینب اس درندگی کا شکار ضرور بنے گی، پچھلی زینب کے قاتلوں کو چوراہے پر ٹانگ کر کام چلایا جا سکتا ہے۔

 سوال پوچھا جا رہا ہے کہ زینب کے مجرم کون ہیں؟   اگر تو زینب وہ واحد بچی ہے  کہ جس سے پہلے نہ کسی حوا کی بیٹی نے یہ دکھ جھیلا ہے نہ آگے کوئی جھیلے گی تو پھر اس سوال کا جواب وہ پولیس ہی دے سکتی ہے جس نے آج تک ہمارے کسی سوال کا جواب دینا گوارا نہیں کیا، اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہر زینب اسی عذاب میں مبتلا ہے  اور رہے گی، تو پھر زینب کے مجرم آپ بھی ہیں۔  زینب کا قاتل میں بھی ہوں۔ فیس بک پر آپ کی شان دار الفاظ میں کی گئی مذمّت اپنی جگہ مگر اس وقت دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے یہ سوال پوچھیں ’’کیا زینب مجھ سے محفوظ ہے؟‘‘