کیا منظور پشتین فوج کے ایجنٹ ہیں؟

عاطف توقیر

گزشتہ روز ایک پشتون دوست نے پیغام بھیجا جو یہ واضح کرنے کے لیے کافی تھا کہ بداعتمادی کا سورج کس طرح ہماری سوچ کی جلد جھلسا رہا ہے اور بے اعتباری کس کس طرز سے ہماری سوچوں پر خراشیں ڈالتی ہیں۔

کہنے لگا، ’’عاطف بھائی، بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں منظور پشتین آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ پشتونوں کی کاز کو راستے سے ہٹا دے اور ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے تباہ ہونے والے پشتونوں کی تحریک کو بھٹکا دے۔‘‘

یہ جملہ سننے کے بعد میرے لیے یہ بات طے کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا کہ ہم کس انداز کے پروپیگنڈے کا شکار ہیں اور یہاں حقوق کے لیے سادہ اور واضح الفاظ میں بات کرنا کتنا مشکل ہے۔ جب ریاست اور ریاستی ادارے، جن کا بنیادی کام دستور کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے اپنے شہریوں کو آزادی اور حقوق مہیا کرنا ہو، وہ خود حقوق غصب کرنے پر آمادہ ہو جائیں، تو ایسے میں شہری حقوق کی کوئی تحریک کس طرح چلے گی اور کیسے کامیاب ہو پائے گی؟

اس دوست کو تو خیر میں جواب دے چکا، مگر چوں کہ اس انداز کی افواہیں یا جھوٹی خبریں ہمارے ہاں پورے یقین سے پھیلا دی جاتی ہیں اور ہمارے اندر موجود بداعتمادی اور بے اعتباری کی دراڑیں بے انتہا گہری ہیں، اس لیے ضروری تھا کہ اس مضمون کے ذریعے آپ پر ایک مرتبہ پھر کچھ چیزیں واضح کی جائیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ہمارا ہی ملک ہے، جہاں ایک ہی شخص پر امریکا، بھارت، افغانستان، اسرائیل اور پاکستان سب کے لیے جاسوسی یا کام کرنے کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں تاثر کچھ یہ ہے کہ بھارت، امریکا، افغانستان اور اسرائیل کوئی الگ الگ ممالک نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی ملک کے مختلف نام رکھ دیے گئے ہیں اور یہ سب ممالک سارا سارا دن سر جوڑ کر یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کس طرح پاکستان کو تباہ کرنا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری ذہنی حالت کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کم از کم میری سمجھ سے یہ بات بالا ہے کہ کوئی شخص جس کے مطالبات دستوری ہوں، جس کی جدوجہد قانون کے دائرے میں ہو، جس کی کاوش عوامی ہو اور جس کی بات واضح انداز سے ملک کی اصل مضبوطی اور عوام کی شہری آزادیوں کے لیے ہو، اسے کیوں کوئی دشمن ملک یہ ٹاسک دے گا؟ کیا بھارتی ادارے اس بات پر پیسہ خرچ کریں گے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی قائم ہو؟ کیا امریکا لوگوں کو ایجنٹ بنا کر پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال بہتر بنانا چاہتا ہے؟ یا اسرائیلی خفیہ ادارے پاکستان میں شہری آزادیوں کے لیے پیسہ خرچ کر رہے ہیں؟

کہا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی بات سنیں، سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ آیا وہ ملکی دستوری سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر رکھتی ہے، تو اس پر غور کریں اور اگر نہیں رکھتی تو اسے مسترد کریں۔ اگر منظور پشتین کسی دوسرے ملک کے لیے کام کر رہا ہے یا کسی خفیہ ادارے یا فوج کے پاس ثبوت ہیں، تو وہ ان ثبوتوں کو عوام کے سامنے لائے اور منظور پشتین پر پرچہ کاٹ کر اسے انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ ایک بات تاہم پورے یقین سے سمجھ لیجیے کہ اگر منظور پشتین دشمن ملک کا آلہ کار ہوتا، تو اس وقت تک اس کو عبرت کا نشان بنایا جا چکا ہوتا یا اگر اس شخص پر ایک پائی کی کرپشن کا الزام بھی ہوتا، تو آج ہر ٹی وی چینل دستاویزات لہرا لہرا کر منظور پشتین کو برہنہ کر چکا ہوتا۔

اگر منظور پشتین آئی ایس آئی کے لیے کام کر رہا ہے اور آئی ایس آئی اسے ملک میں قانون کی حکم رانی، فوجی پالیسیوں کی وجہ سے تباہ ہونے والے پشتون گھروں کی ویرانی، اپنے پیاروں کی میتوں پر دہائیاں ڈالنے والی خواتین، اپنے معذور بچوں کے زخم دکھاتے باپ یا گم شدہ رشتہ داروں کی تصویریں لہرا کر انصاف مانگنے والوں کی آواز بننے کے لیے استعمال کر رہی ہے، تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ فوجی جرنیلوں کی پالیسیوں کی وجہ سے جو ہزار ہا گھرانے تباہ ہوئے ہیں اور جو پالیسیاں اب بھی بالکل ویسے ہی انداز سے چل رہی ہیں اور بدلنے کا نام تک نہیں لیتیں، ان پالیسیوں پر بات کرنے، ان کے خلاف آواز اٹھانے اور جرنیلوں کو للکارنے کے لیے اگر پیسے خود جرنیلوں ہی نے دینا ہیں، تو پھر تو نہایت عمدہ بات ہو گئی۔ حالاں کہ صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ ان جرنیلوں کو تو مسئلہ ہی یہ ہے کہ کسی نے ان کی پالیسیوں پر سوال اٹھانے کی جرات کیسے کی؟

ہمارے ہاں ایک شکوہ ہر شخص کرتا نظر آتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی رہنما کرپٹ ہیں اور ملک کو ایک صاف ستھری قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ شکایت بھی آپ جا بہ جا سنتے ہوں گے کہ سیاست دان بدعنوان اور ’چور‘ ہیں اس لیے فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے، مگر عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ تمام ’کرپٹ اور چور‘ سیاست دان نکلے جرنیلوں کی گودوں سے ہیں اور دوسری جانب جب جب کوئی عوامی رہنما عوام کی صفوں سے بیدار ہوتا ہے اور عوام اس کی بات سنتے ہیں، فوج اور دیگر اداروں کی جانب سے ایسے صاف ستھرے شخص کو کبھی ملک دشمن، کبھی ایجنٹ اور کبھی سازشی اور غدار کہہ کر اس کا راستہ کاٹ دیا جاتا ہے۔
یعنی ہمیں ایک سیاسی لیڈر چاہیے، جو کرپٹ نہ ہو، جو ملک کے دستور کی بالادستی کا خیال رکھے، جس پر ایک پائی کی بدعوانی کا الزام نہ ہو، جو صاف ستھرا ہو، جس کا کردار مثالی ہو، جس کی توانائی قوم کے لیے صرف ہوتی ہو اور جو ’صادق اور امین‘ کی پاکیستانی تعریف پر بھی پورا اترتا ہو، لیکن اگر ایسا کوئی شخص سامنے آیا، تو ہم اسے ملک دشمن بھی سمجھیں گے۔ لگتا یوں ہی ہے کہ شاید ہم آسمان سے کسی فرشتے کے اترنے کے منتظر ہیں، جو ساری چیزیں ٹھیک کر دے لیکن عوام سے بھی نہ ہو۔

یہاں کچھ چیزیں سمجھنے کی، ایک تو یہ سمجھ لیجیے کہ کسی بھی سیاسی جدوجہد یا تحریک سے محبت یا ہم دردی یا حمایت، کسی جذباتی تعلق کی بجائے اصولی موقف کی بنا پر ہوتی ہے۔ منظور پشتین ہوں یا کوئی اور رہنما، حمایت موقف کی ہوتی ہے اور موقف وہی درست ہوتا ہے جو ملکی دستور اور قانون سے مطابقت رکھتا ہو۔ جب تک پشتون تحفظ موومنٹ اور منظور پشتین دستوری دائرے میں ہیں ان کی حمایت کیجیے، وہ فوج کے ایجنٹ ہیں یا بھارت کے، امریکا کے لیے کام کر رہے ہیں یا افغانستان میں ان کے حامی ہیں، یہ ساری باتیں پروپیگنڈا سے زیادہ کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جب آپ کو دکھائی دے کہ کوئی ایسا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جو ملکی دستور کے خلاف ہے اور اس سے قانون کی بالادستی پر حرف آ سکتا ہے، ایسے میں تمام حمایت، تمام ہم دردی اور تمام سپورٹ واپس لے لیجیے اور دستور کے ساتھ کھڑے ہو جائیے۔

نہ افراد اہم ہوتے ہیں، نہ تنظیمیں، نہ سیاسی جماعتیں اور نہ ادارے، سب سے زیادہ اہم وہ دستاویز ہے، جو اس ملک کی تمام قومیتیوں کو برابری کے ساتھ ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہے اور اس دستاویز کا نام دستورِ پاکستان ہے۔ جو اس دستور کے ساتھ کھڑا ہے، وہ را کا حمایت یافتہ ہو یا این ڈی ایس کا آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہو یا امریکا کا، وہ ملک اور قوم کا حامی ہے اور اگر کوئی شخص اس دستور کے خلاف ہے، وہ چاہے دنیا کا سب سے اچھا انسان ہو اور اس کے جسم پر آوایزں وردی پر چاہے کتنے ہی ستارے کیوں نہ ہو، مگر وہ اس ملک اور قوم کا دشمن ہے۔ پروپیگنڈا کی نگاہ سے چیزوں کو دیکھنے کی بجائے اصول اور دستور سے واقعات اور اشخاص کا تجزیہ کیجیے۔

میڈیا، عدالتیں، حکومت اور دیگر ادارے، سب کے سب آج تک ہر اس آواز کے خلاف استعمال ہوتے آئے ہیں، جس نے اس ملک میں دستور اور قانون کی بالادستی کی بات کی ہے اور جسے عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ خود سے پوچھیے کہ اگر منظور پشتین واقعی ایجنٹ ہوتا، تو کیا اس وقت تمام ادارے، حکومت، عدلیہ اور میڈیا صرف الزامات لگا رہے ہوتے؟ کیا اب تک وہ اس طرح کھلے عام مظاہرے کر پاتا؟ کیا اسے اب تک ختم نہ کر دیا جاتا؟