کیسے پڑھے گا بلوچستان، کیسے بڑھے گا بلوچستان

صادق صبا

اگر کوئی بلوچستان میں وڑافون اور ایم ٹی این کے سمز بانٹنا شروع کر دے تو آپ اسے کیا کہینگے؟ گمان غالب است کہ آپ اسے ایک لمحے کی توقف کئے بغیر پاگل کہینگے کہ وڑافون اور ایم ٹی این کے نیٹورک نا ھونے کے باؤجود یہ ان کے سمز بانٹ رہا ہے۔اورہہیں حال آپ اس شخص کا کرینگے جو اندھوں کی بستی میں اخبار پڑھنے کی ترغیب دے۔

 مگر یہ کھیل تماشا ہر سال بلوچستان میں پڑھیگا بلوچستان تو بڑھیگا بلوچستان کے نام سے سجتا ہے۔کروڑوں اور اربوں روپے خرچ کرکے ھر شہر اور ھر قصبے میں ”واکس“ منعقد کئے جاتے ہیں تا کہ نا خواندہ بچوں اور ان کے ناخواندہ والدین میں تعلیمی شعور اجاگر کیا جائے۔

لیکن جناب وہ سب شعور یافتہ ہیں۔آپکے تعلیمی شعور سے بڑھ کر ایک مضبوط شعور کے مالک ہیں۔جو ان کو ان سکولوں سے دور، سمندر کے متلاطم لہروں سے نبرد آزما ھونے کا طاقت دیتا ہے۔ان ننھے ہاتھوں کو مزدوری کی طاقت عطا کرتا ہے۔وہ ہے ”شعور ذمہ داری“ جس کو آپ احساس ذمہ داری بھی کہہ سکتے ہیں۔اور یہ شعورکسی واک کی محتاج نہیں بلکہ یہ شعور اسکو وہ بوسیدہ روٹی عطا کرتی ہے کہ جس کو گلے سے نیچے اتارنے میں بھی زور لگانا پڑتا ہے، یہ شعور اسکو ھر سال آنے والے تہواروں میں چھوٹے بہنوں اور ماں کی پھٹی ھوئی میل ذدہ آستینیں دیتی ہیں۔یہ شعور اسکو اباجان کی شکل میں وہ مردِ غازی عطا کرتا ہے کہ جو زندگی کی ھر جنگ میں ھزاروں زخم کھا کر غازی بن کے لوٹتا ہے، جو بڑھاپے کی آرام سے درکنار ان بیماریوں سے بھی طبل جنگ بجا لاتا ہے جن کا ہاتھ پکڑ کر بڑھاپا انکو اسکے چوکھٹ پر لاتا ہے۔

تبھی تو یہ شعور آپکے واکس کے شعور سے اتنی پختہ و مضبوط ہے آپکے واکس کو دیکھ کر اسکو ایک ہنسی آتی، ایک بے بس ہنسی جس میں اس خطے میں بسے ھر ناخواندہ بچے کی ھزاروں حسرتیں اور مجبوریاں تہہ در تہہ چھپی ھوئی ھوتی ہیں۔

آپ کو پتہ ہے کیوں بلوچستان کے 70فیصد بچے سکول سے باہر ہیں؟ کیونکہ باہر رہ کر وہ اپنے مزدوری سے سخت ھوئے ہاتوں سے ایک سخت چار دیواری، ایک بیت الخلا تعمیر کر سکتا ہے جو ان کے ماؤں، بہنوں کو نا محرم وحشی نگاہوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔جو آپکے سکول میں طلباء و طالبات کو میسر نہیں۔وہ وہاں اپنے کھیتوں میں کسی باغ کے نیچے یا سمندر میں کشتی کے اندر ٹھنڈی ھوا کا خوب آنند لے سکتا ہے۔جو آپکے سکولوں سے ھزار گناہ بہتر ہے جہان ھر موسمِ گرما ھزاروں کزور و ناتواں بچے بچیاں گرمی سے غش کھا کر گرتے ہیں اور کبھی کبھی ایسے گرتے ہیں کہ دوبارہ اٹھنے کا انتظار شاید محشر میں پورا ھوجائے۔۔۔
آپکو پتہ کیوں 30فیصد وہ بچے جو پرائمری سکولوں کا رخ کرتے ہیں پھر کیوں ان میں سے 12 فیصد پرائمری کے بعد سکول کے رستوں کو بھول جاتے ہیں، کیونکہ غربت کا بھوت ان کو رستے میں ہی اچک لیتا ہے اور میڈل اور ہائی سکول کی دوری مجبوری بن جاتی ہے اور یہ مجبوری اسکول چھوڑنے پہ مجبور کرتی ہے۔یا اکثر جگہوں پر بچیوں کو ہائی سکول تک پہنچنے کیلئے لمبی لمبی مسافتیں طے کرنی پڑتی ہے۔جس میں اسے معاشرے کے ان روبا نما لڑکوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس تاک میں ھوتے ہیں کہ کب یہ محکوم جنس گھروں سے نکلے اور وہ ان کو ھزار دفعہ بے شرمی کے سمندر میں ڈبو کر سکول پہنچا دیں۔تبھی تو لڑکیوں کی شرح خواندگی 15 فیصد ہے مگر اس سب کا ذمہ دار ٹرانسپورٹ کی عدم فراھمی ہے۔

آپ کے 80 فیصد میڈل سکولوں میں سائنسی آلات دستیاب نہیں بلکہ لیب ہی سرے سے دستیاب نہیں سائنسی آلات کی فراھمی ثانوي امر ہے۔جس کی وجہ سے بلوچستان اور خاص طور پر ڈسٹرکٹ گوادر میں آپکو سائنس کے ٹیچر آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ملینگے اور معاملہ جگاڑ پہ منتہج ھوتا ہے۔اور جگاڑو پارٹی سائنس کو اردو سمجھ کر پڑھاتا ہے جس پہ سائنس کی چیخیں نکلتی ہیں۔اور یہ مردِ مجاہد اس کامیابی پہ شیخیاں بگارتا رہتا ہے۔

در اصل وہ لوگ جو ان واکس کو شعور و آگہی کا پرچار سمجھتے ہیں تو وہ نرے بیوقوف ہیں غریب کیلئے کوئی واک نہیں ھوتا بلکہ یہ واکس صرف اور صرف اس غرض پہ ھوتے ہیں تاکہ کچھ پیسے بچ جائیں جن سے کچھ ”آقاؤں “ کے بچے ٹوپ کے پرائیوٹ سکولوں میں پڑھ سکیں ۔جس کیلئے انھیں واکس کیا عجوبے بھی کرنے پڑے تو یہ کرینگے جیسے ھمارے پچھلے وزیر تعلیم نے کئے تھے کہ تین لاکھ ایسے بچوں کا انرولمنٹ کیا گیا تھا جو کم از کم زمین پہ موجود نہیں شاید مریخ پہ کوئی اور بلوچستان ھو۔جہان بھی یہی نعرے لگتے ھوں۔