ہماری فنکاریاں

وقاص احمد

آپ مسجد سے نماز پڑھ کر باہر نکل رہے ہوں۔ اچانک پیچھے سے کوئی غیر مانوس لیکن میٹھی آواز میں آپ کو پکارے “بھائی جان زرا بات سنیے گا”. آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں، دو تین اجنبی باریش حضرات، صاف ستھرے اجلے سے لوگ مسکراتے ہوئے آپ کی طرف بڑھیں اور انتہائی خوش اخلاقی سے آپ کو سلام کہیں، مصافحہ کریں اور اپنا اپنا نام بتائیں۔ آپ کا نام پوچھیں، آپ اپنا نام بتائیں تو ایسے جھوم جھوم کر آپ کے نام کی تعریفوں کے پل باندھیں کہ آپ اس لمحے پر رشک کرنے لگیں جب آپ کی اماں یا ابا جی نے آپ کا نام رکھا تھا۔ اب وہ اشخاص آپ کے دل میں گھر کر چکے ہیں۔ وہ آپ سے آپ کے نوکری کاروبار گھر بار، بال بچوں کا احوال پوچھتے پوچھتے آپ سے عبادات کے مسائل پر گفتگو کرنے لگیں اور پھر اچانک بولیں کہ کبھی آپ نے سہہ روزہ تبلیغی دورے کے بارے میں غور کیا ہے؟ اور آپ “نا جائے ماندن نا پائے رفتن” کے مصداق ششدر کھڑے سوچ رہے ہیں کہ یار یہ کون لوگ ہیں؟ یہ کدھر کا موضوع کدھر نکل گیا۔

آپ ایک بازار سے گزر رہے ہوں۔ ایک جگہ دو چار لوگ کسی بندے کے پاس کھڑے ہوں۔ آپ بھی اشتیاق کے مارے پاس کھڑے ہوجائیں۔ وہ بندہ ملکی حالات، لوگوں کی پریشانیوں اور دیگر گھریلو مسائل پر گفتگو کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ آپ کو مختلف درود و وظائف کے ذریعے ان پریشانیوں کے حل بھی بتا رہا ہے۔ لوگ اس کے علم اور روحانیت سے شغف پر واہ واہ کر رہے ہیں۔ اولیاء اور پیران کرام کا تذکرہ، کشف المحجوب سے اقتباسات اور اسم اعظم کا انکشاف اس مجمع میں ہو رہا ہے اور آپ تمام لوگوں سمیت سر دھن رہے ہوں کہ واہ واہ کیا کمال بندہ ہے۔ اچانک وہ بندہ کہے “اسلام میں حکم ہے کہ اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کوئی بات کہہ رہا ہو تو مسلمان پر فرض ہے کہ اس کی بات غور سے سنے”۔

آپ بنا سوچے سمجھے اثبات میں سر ہلاتے ہیں اور اگلے ہی لمحے وہ بندہ اپنی پٹاری سے اکسیر کامل پھکی جس میں کینسر سمیت ہر مرض کا علاج موجود ہے یا پھر سانڈے کا تیل جسے روایتی طور  پر ناگفتہ بہ امراض کا شافی علاج مانا جاتا ہے، نکال کر بیچنا شروع کر دے گا اور آپ حیران پریشان کھڑے سوچ رہے ہوں گے کہ ابھی دو منٹ پہلے یہاں کو روحانی سماں بندھا تھا اس کا کیا ہوا۔ درود و وظائف کا ہاضمی پھکی سے کیا تعلق؟ روحانیت میں سانڈے کے تیل کا ذکر کہاں سے آگیا؟ کیا وہ سب صرف یہ پھکی اور تیل بیچنے کے لیے تھا؟

یا آپ سوشل میڈیا کی حالیہ مثال لے لیں۔ بیسیوں پڑھے لکھے، روشن خیال، معتدل اور حقوق نسواں کے حامیوں نے جب اچانک اپنی صفوں میں کچھ عجیب سے پوسٹر اٹھائے مرد و خواتین کو دیکھا تو وہ بھی حیرانی پریشانی میں دفاعی پوزیشن پر چلے گئے۔ کچھ نے خاموشی اختیار کی، کچھ ان پوسٹرز کے خلاف بولنے لگے اور کچھ نے مناسب سمجھا کہ اس بدذوق قسم کی نعرہ بازی کو خواتین کی تعلیم روزگار اور دیگر مسائل پر لکھے پوسٹرز کے نیچے چھپایا جائے۔ ہر دو صورت میں فائدہ اس قدامت پسند طبقے کو ہوا جن کو خواتین کے جائز قانونی، شرعی اور انسانی حقوق بھی تکلیف دیتے ہیں۔ انہیں ایک ایسا بہانہ مل گیا کہ دیکھیں جی “ہم تو پہلے دن سے ہی کہتے تھے کہ تعلیم اور روزگار کے مواقع کی آڑ میں اس قوم کو مادر پدر آزاد بنانے کی سازش ہو رہی ہے”۔ متوازن لوگ ابھی تک اس مخمصے میں ہیں کہ یہ بات مساوی مواقع کے حق سے شروع ہوکر بستر گرم کرنے تک کیسے پہنچ گئی؟

یہ تمہید جو میں نے اوپر باندھی ہے اس کا مقصد آپ کو اپنے ساتھ بیتے ایک ایسے ہی قصے کی طرف لانا اور اس کا تجزیہ کرنا تھا۔ ہم تین دوست دفتر میں بیٹھے تھے۔ اچانک کہیں سے بات حال ہی میں ہوئی پاک بھارت گرما گرمی پر پہنچ گئی۔ ایک دوست نے بھارتی فوجیوں کے خلاف چلنے والا کوئی ٹرول شئیر کیا، میں نے آسٹریلیا میں انڈین ٹیم کا اپنی فوجی کیپس پہن کر گراؤنڈ میں اترنے کا واقعہ مزے لیکر سنایا، دوسرے دوست نے پاک فضائیہ کے معرکے کا فخریہ ذکر کیا، میں نے بھی پاک نیوی کی پروفیشنل تیاری کو دل کھول کر سراہا جس نے ایک بھارتی آبدوز کو اپنی سرحدی حدود میں “رنگے ہاتھوں” پکڑا اور واپس دھکیلا۔ پھر کچھ دیر ہم سب ایسے ہی خود ساختہ دفاعی تجزیہ نگار بنے ایسی ہی پرجوش گفتگو کر کر خوش ہوتے رہے۔ بہ الفاظ دیگرے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم تینوں دوست اس موضوع پر “ایک پیج” پر تھے۔ گفتگو دھشتگردی کے خلاف ہمارے ملک کی قربانیوں پر آن پہنچی۔ مجھ سمیت میرے دوستوں نے ان نامعلوم سپاہیوں کا نوحہ پڑھا جنہوں نے وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ میں نے اضافی طور پر سول فورسز اور سولینز کی قربانیوں کا ذکر کیا جس کو میرے دوستوں کی طرف سے کوئی پزیرائی نہیں ملی۔ میں نے فضائی جنگ میں بچنے کے کم ترین امکانات اور سمندری جنگ کی ہولناکیوں اور نیوی کی اعصاب شکن نوکری پر کچھ روشنی ڈالی لیکن پھر سنی ان سنی کر دی گئی۔

میں اب کچھ الجھن سی محسوس کرنے لگا کہ اس شش جہت جنگ کے بیسیوں فریقین کو چھوڑ کر میرے ان دو دوستوں کی تان صرف ایک ہی ادارے کی قربانیوں تک ہی کیوں محدود ہے۔ کیا باقی اداروں یا عام سولینز سے ان کو کوئی مسئلہ ہے؟ کہ اچانک ان میں سے ایک دوست نے عقدہ کھول دیا کہ درود و وظائف کی آڑ میں یہ دونوں حضرات گفتگو اصل میں اکسیر کامل پھکی اور سانڈے کا تیل بیچنے کی طرف ہی لے جا رہے تھے۔ فرمایا “انہوں نے بہت کوشش کی کہ اتنی قربانیاں دینے والی فوج پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگا کر یا ان کے کاروباروں کو متنازعہ بنا کر عوام میں فوج کے خلاف نفرت پیدا کی جائے لیکن وہ اس میں ناکام رہے”۔

یقین مانیے مجھے ایسا لگا کہ جیسے خواتین کی تعلیم و صحت کے مسائل پر گفتگو ہوتے ہوتے اچانک کسی نے مجھے کہا ہو “لو بیٹھ گئی ٹھیک طریقے سے”۔

اب چونکہ میں کوئی بازار سے گزرتا راہگیر تو تھا نہیں کہ چپ کرکے گزر جاتا۔ ادھر ہی دھر لیا دونوں کو کہ بھائی صاحب مجھے اس بدقسمت پاکستانی سے ملوائیں جو ان شہداء کے خون کو اپنی عزت اپنا مان اپنا فخر نہیں سمجھتا۔ مجھے اس بندے سے ملنا ہے جو فوج کے سپاہیوں کی قربانیوں کا احساس نہیں رکھتا یا اسے توقیر نہیں دیتا۔ مگر میرے یار، ان قربانیوں کے پیچھے چند فوجی جرنیلوں کی اس گندی سیاست کو تو نا چھپاؤ جو انہوں نے اس ملک میں برپا رکھی اور اس ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا۔ کیا تم لوگ انکاری ہو کہ فوج کی کچھ کالی بھیڑیں غیر آئینی حرکات کی مرتکب ہیں۔ کیا تم انکاری ہو کہ اس ملک کا آئین چار ڈکٹیٹرز نے کئی دفعہ توڑا ہے اور ملک پر قبضہ کیا ہے۔ کیا تم انکاری ہو کہ ہمارے ملک کے سولینز سے لیکر فوجی جوان تک اپنے خون سے ان پالیسیوں کی قیمت چکا رہے ہیں جو ہم نے آج سے 30-40 سال پہلے اپنائیں اور آج تک ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ کیا تم انکاری ہو کہ ہمارے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق ان طویل جنگوں نے کیا ہے جو پہلے ہم نے جہاد کے نام پر اور پھر دھشتگردی کے نام پر لڑیں؟ کیا تم انکاری ہو اس بات سے کہ اس کوتاہ نظر فوجی قیادت کے تمام فیصلے اس ملک کی عوام سے پوچھے بنا کیے گئے لیکن ان فیصلوں کے سب سے بڑے متاثرین وہی عوام ہیں۔ خدا کا نام ہے۔ خدا کا نام ہے۔

مجھے میرے شہید کی عزت کرنے دو۔ مجھے اس پر فخر کرنے دو۔ مجھے اس قابل چھوڑ دو کہ ان جوانوں کی قربانیوں پر سینہ چوڑا کرکے کہہ سکوں کہ ہاں یہ میرے بھائی تھے، میرے بچے تھے، میرے ہم وطن تھے جو اس ملک کی حفاظت میں اپنی جانوں پر کھیل گئے۔ خدارا شہید کے کفن کو مت بیچو۔ یہ کفن چوری کی ہی ایک قسم ہے جب تم کسی عزیز بھٹی کے نشان حیدر کے پیچھے کسی ایوب خان کو چھپاتے ہو۔ جب تم کسی میجر طفیل شہید کے پیچھے کسی یحییٰ خان کی حرامکاریاں چھپاتے ہو۔ جب تم کسی میجر شبیر شریف کے پیچھے ضیاء الحق کا ابتر زمانہ چھپاتے ہو۔ جب تم کسی حوالدار لالک جان اور کیپٹن شیر خان کے نشان حیدر کے پیچھے کسی خود سر جنرل پرویز مشرف کے ناکام کارگل ایڈونچر کو چھپاتے ہو۔ یا پھر دھشتگردی کے خلاف جنگ میں ہوئے شہیدوں کے لہو سے ڈکٹیٹر مشرف کے سیاہ ترین دور کی کالک دھونے کی کوشش کرتے ہو۔ خدا کا نام ہے۔۔۔یہ قوم پہلے ہی بہت تقسیم ہے۔ جن چند باتوں پر یہ مکمل متفق ہیں ان میں سے ایک اس ارض پاک پر قربان ہونے والے شہدا ہیں۔ اپنے مذموم مقاصد کے لیے ان شہدا کی لاشوں کو بیچنا چھوڑ دو۔ مت کرو قومی مجرموں کا دفاع ان شہیدوں کے پاک لہو سے۔ اگر سمجھو تو یہ ان شہدا کی توہین ہے کہ ان کی قربانی کو کسی ایک چھپے یا ظاہر آمر کی من مانیوں اور ریشہ دوانیوں کے دفاع کے لیے پیش کیا جائے۔ کم از کم اس قوم کے شہداء کو غیر متنازع رہنے دو۔