یمن میں انسانی ہلاکتوں پر ہماری خاموشی ٹوٹ گئی

عاطف توقیر

آپ نے اکثر کشمیر، فلسطین، برما اور دنیا کے دیگر مقامات پر ’مسلمانوں‘ کے خلاف ظلم کی داستانوں پر نوحے پڑھتے اور آنسو بہاتے لوگ اپنے آس پاس دیکھے ہوں گے۔ یہ افراد پورا زور لگا کر ظالموں کو تباہ و برباد کرنے اور ان کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے حتیٰ کے انہیں نیست و نابود تک کر دینے کی دعائیں کرتے ملتے ہیں۔

مگر کچھ امور پر ان احباب کی جانب سے کبھی کوئی تعزیتی جملہ یا ہم دردی کے دو بول سننے کو نہیں ملیں گے اور کوئی توجہ دلا بھی دے، تو مذمت ایسی ڈھیلی ڈھالی اور اگر مگر میں لپٹی ہو گی کہ آپ کو ظالم مظلوم اور مظلوم ظالم لگنے لگے گا۔

چینی صوبے سینکیانگ میں ایغور نسل مسلمانوں کے ساتھ ایک طرح سے نسل کشی جیسا ماحول ہے۔ ان کی زبان، ان کی ثقافت اور شناخت تک ختم کی جا رہی ہے۔ وہاں رمضان کے ماہ میں ان ایغوروں کو زبردستی پکڑ کر ان کے منہ میں کھانا ڈال دیا جاتا ہے، ان افراد کو نماز تک ادا کرنے کی سہولت نہیں حتیٰ کہ ان کی کوئی مسجد دکھائی دے، تو اسے بھی منہدم کر دیا جاتا ہے۔ مگر ان ایغوروں کی اس تباہ حالی پر آپ نے اب تک کتنی پوسٹس دیکھیں؟ آپ نے کتنی بار اسی انداز سے اس ظلم کو ظلم کہا جیسا فلسطینیوں یاکشمیروں کے زخموں کا احساس کیا؟

نائجیریا میں بوکوحرام نے ہزار ہا انسانوں کو قتل کیا، اسکولوں کی بچیوں کو اغوا کیا، آپ میں سے کتنوں نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان انسانیت سوز مظالم پر آواز اٹھائی؟

صومالیہ میں الشباب کے ہاتھوں پورے کا پورا ملک تباہ ہو گیا۔ کئی علاقے اس دہشت گرد تنظیم کی وجہ سے قحط زدہ ہو گئے، مگر آپ نے ان صومالی باشندوں کے دکھ پر کتنا ماتم ہوتے دیکھا؟

روہنگیا کی بربادی پر آواز اٹھانے والوں نے سات لاکھ سے زائد افراد کے بے گھر ہونے، سینکڑوں کے مارے جانے اور ان کی بستیوں کی بستیاں جلا کر راکھ کر دینے والے میانمار کو جے ایف تھنڈر طیارے بیچے جانے کی ڈیل پر کتنی آواز اٹھائی؟

ایسا ہی کچھ معاملہ یمن کا بھی ہے۔ آپ میں سے کتنے افراد نے اب تک یمن میں ایک طرف ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں اور دوسری جانب سعودی قیادت میں عرب اتحاد کی لڑائی میں مرنے والا ہزاروں افراد کے دکھوں پر آنسو بہائے؟ ایران اور سعودی عرب کی خطے میں بالادستی کی بھینٹ چڑھنے والے ہزاروں انسانوں اور مفادات کی جنگ میں بھوک، افلاس، قحط اور بیماریوں کا شکار ہو جانے والے لاکھوں بچوں کے دکھ آپ میں سے کتنوں کی آنکھوں کو اشک بار کر پائے؟

یمن میں جنگی جرائم سے متعلق بین الاقوامی تحقیقات جاری ہیں، جس میں عالمی مشن کے مطابق حوثی باغیوں اور عرب اتحاد دونوں مختلف طرز کے مبینہ جنگی جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ تاہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے اعتراضات پر گزشتہ روز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں اس مشن کے یمن میں تفتیشی دورانیے میں اضافے سے متعلق قرارداد پیش کی گئی۔ اس 47 رکنی عالمی کونسل میں سے 21 ارکان نے یمن میں جنگی جرائم کی تفتیش جاری رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا جب کہ آٹھ ممالک نے مخالفت میں۔ پاکستان ان آٹھ ممالک میں سے ایک تھا، جو یمن میں جنگی جرائم کی تحقیقات نہیں چاہتے۔ اسی طرح برونڈی میں ایک آمرانہ حکومت کے ہاتھوں وہاں ہزارہا انسانوں کو قبائلی جنگ میں قتل اور استحصال سے متعلق تفتیشی قرارداد میں بھی پاکستان نے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کے خاتمے کے لیے اپنا ووٹ دینے کی بجائے، ووٹ کا حق محفوظ رکھا اور رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

مگر پاکستان میں کسی میڈیا ہاؤس کسی ٹی وی چینل نے اس موضوع پر بات تک نہ کی۔ ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ ہم تاریخ کے کس طرف کھڑے ہیں؟ انسانیت کی جانب یا انسانیت سوزی کی جانب؟

اقوام متحدہ سے ایک طرف ہماری شکایت یہ رہتی ہے کہ وہ مختلف جنگی تنازعات کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے سے کنی کتراتی ہے، مگر ساتھ ہی جب یہ عالمی ادارہ کوئی راست اقدام کرنے لگے، تو مختلف اقوام اپنے اپنے مفادات کو انسانی وقار اور انسانی جانوں پر فوقیت دے کر پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔

کیا اس معاملے میں موقف اصولی نہیں ہونا چاہیے کہ ظالم کو دشمن ہو یا کوئی اپنا حتیٰ کو خود ہم ہی کسی ظلم میں شامل کیوں نہ ہوں، ہمیں اس کا جواب دینا چاہیے؟ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اگر ظالم کو ظالم کہنے سے قبل آپ کو ظالم سے تعلق یا رشتہ داری کا سوچنا پڑتا ہے، تو آپ کو مسئلہ ظلم نہیں، بلکہ تعلق ہے۔
کشمیر میں بھارتی فوج اور سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں انسانیت کی تذلیل پر آپ بھارت پر تنقید اس کے ظلم پر کرتے ہیں یا اس کے دشمن ہونے کی بنا پر؟

اگر آپ کا مسئلہ انسانی وقار، زندگی، بچے، زخم، دکھ، پریشانی اور انسانیت ہوتے، تو پھر آپ کی نگاہ میں ظالم کو ظالم کہنے سے قبل کچھ سوچنے کی بجائے ان معصوموں کی تکالیف ہونا چاہئیں تھیں۔ فلسطین، کشمیر یا دیگر علاقوں میں ظلم پر آنسو مگر رشتہ دار یا تعلق دار ظالموں کے ہاتھوں ویسے ہی بلکہ کچھ حوالوں سے ان سے زیادہ بہیمانہ قتل عام پر خاموشی ہمارے ضمیر اور انسانیت سے متعلق ہمارے رویوں کا بڑی آسانی سے پتا دے رہی ہیں۔

یہ معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں، خود ہماری اپنی سرزمین پر لہو کے ایسے ایسے چھینٹے ہمیں دکھائی دیتے ہیں کہ انسانیت ماتم کرنے لگے، مگر مجال ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں ہونے والے ظلم پر کسی مظلوم کے کاندھے پر پیار سے ہاتھ ہی رکھ دیں یا ظلم کے خلاف فقط ایک مذمتی جملہ بول دیں۔ انسانیت اور انسانیت دشمنی کے درمیان فرق فقط یہی ہے کہ انسانیت دوست افراد انسانوں پر ہونے والے ظلم کی مذمت اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے تمام تر مفادات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور انسانیت دشمن مفادات کے لیے انسانوں پر ہونے والے ظلم اور مظلوم کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

اس لیے اگر آپ کو فلسطینیوں کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں اور وزیرستان سے کوئی آواز نہیں آ رہی، اگر آپ کشمیریوں کے دکھوں پر تو دکھ منا رہے ہیں، مگر بلوچ یا مہاجر یا کسی اور علاقے میں آپ کو راوی چین ہی چین لکھتا نظر آ رہا ہے، تو سمجھ لیجیے، آپ کا مسئلہ ظلم نہیں مفادات ہیں۔