احمد نورانی کے انکشافات پر مجرمانہ خاموشی

عابدحسین

قارئین صحافی کا کام عوام تک معلومات پہنچانا ہوتا ہے۔ جبکہ فیصلہ عوام کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ صحیح اور غلط کے درمیان لکیر کھینچے اور صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط قرار دیں۔ دوستوں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ملک کے بڑے مالی کرپشن کے متعلق ایک رپورٹ چند دنوں سے سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی میڈیا اس حوالے سے بلکل خاموش ہے۔ تو آئیے! ناظرین پہلے دیکھتے ہیں کہ اس رپورٹ میں کیا ہے.

مذکورہ تحقیقاتی رپورٹ پاکستان کے مایہ ناز تحقیقاتی صحافی احمد نورانی صاحب نے فیکٹ فوکس نامی ایک آن لائن جریدے کے ویب سائٹ پر شائع کیا ہے۔ احمد نورانی صاحب کے بارے میں بتاتا چلوں کہ نورانی صاحب ایک اعلیٰ پایہ کے مایہ ناز صحافی ہیں۔ نورانی صاحب بطور صحافی کئی ملکی و غیر ملکی اداروں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ نورانی صاحب پاکستان میں پہلے ڈان نیوز اور بعد میں دی نیوز انٹرنیشنل کے ساتھ وابستہ تھے۔ سنہ ٢٠١٧ کی بات ہے کہ جب نورانی صاحب کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی تھیں۔ پھر ایک دن ان پر چھریوں سے حملہ کیا گیا جس میں وہ بری طرح زخمی ہوگئے۔ نورانی صاحب کا جرم یہ تھا کہ وہ انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ ہیں اور اس وقت بھی وہ سول ملٹری اور بیوروکریٹس کی کرپشن پر کئی حوالوں سے مختلف اسٹوریز پر کام کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک کا طاقتور طبقہ ان کی جان کے درپے ہوگیا۔ جب نورانی صاحب پر جان لیوا حملہ کیا گیا تو نورانی صاحب نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مملکت خداد میں سچ لکھنے، بولنے اور کہنے پر قدغن ہے۔ یہاں سچ غداری ہے، ملک دشمنی ہے، گستاخی ہے اور اس کی سزا موت ہے۔ احمد نورانی گزشتہ تین برس سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ جہاں وہ فیکٹ فوکس نامی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں۔

اب آتے ہیں کرپشن کہانی پر، کرپشن کہانی کیا ہے؟ کرپشن کہانی پاکستان کے ایک ریٹائرڈ جرنیل عاصم سلیم باجوہ کے بزنس ایمپائر کی ہے۔ جس کو نورانی صاحب نے فیکٹ فوکس پر شائع کیا ہے۔ رپورٹ  کچھ اس طرح باجوہ خاندان کے بزنس ایمپائر کے بارے میں بتاتی ہے کہ باجوہ فیملی کی بزنس ایمپائر عاصم باجوہ کی فوجی عہدوں پر ترقی کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے۔ عاصم باجوہ کے کمانڈر سدرن کمانڈ بننے کے بعد ان کے بیٹوں نے کمال ترقی کی۔ پہلے  امریکہ اور پھر پاکستان میں باجوہ خاندان کی کاروباری سلطنت کا پھیلاؤ اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی  فوج میں اہم عہدوں پر ترقی، دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلیں۔ جنرل (ر) عاصم باجوہ آج کل چین کے تعاون سے چلنے والے بہت بڑےانفراسٹرکچر کے منصوبے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک)  کے چئیرمین اور وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی ہیں۔ عاصم باجوہ کے بھائی  نے امریکہ کی معروف فوڈ چین پاپا جونز کے پہلے ریسٹورنٹ سنہ ٢٠٠٢ میں قائم کیئے۔ اسی سال جنرل (ر) عاصم باجوہ  کی جنرل پرویز مشرف کے اسٹاف آفیسر کے طور پر تعیناتی ہوئی۔ ندیم باجوہ، جنہوں نے اپنے کاروباری سفر کا آغاز پاپا جونزپیزا ریسٹورنٹ میں بطور ڈیلیوری ڈرائیور کیا تھا۔ اب ان کے بھائیوں اور عاصم باجوہ کی اہلیہ اور بچوں کی چار ممالک میں نناوے کمپنیاں اور ایک سو تیتیس فعال فرینچائز ریسٹورنٹس، جن کی موجودہ مالی حیثیت تقریباً چالیس ملین ڈالر (چھ سو ستتر کروڑ پاکستانی روپے) ہیں۔

ایسے وقت میں جب عاصم باجوہ اور ان کا ڈیپارٹمنٹ لوگوں کو معاشی بھنور میں پھنسے پاکستان میں کاروبار کرنے کی  ترغیب دے رہا تھا، ان کی بیوی اور بھائیوں نے باون اعشاریہ دو ملین ڈالر (آٹھ سو چھتر کروڑ) سے زائد کی سرمایہ کاری سے دو انٹرنیشنل فوڈ چینز کے تین ممالک میں ایک سو چوہتر فرینچائز ریسٹورنٹ قائم کیئے۔ امریکہ میں چودہ اعشاریہ پانچ ملین ڈالر (دو سو تتالیس کروڑ) کی کمرشل اور رہائشی جائیدادیں بنائیں۔ یوں ایک ہزار ایک سو انیس کروڑ کی سرمایہ کاری پاکستان سے باہر کی گئی۔ اس وقت ایک سو تیتیس فرینچائزز فعال ہیں۔ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ  کی اہلیہ اور ان کے بیٹوں نے  پاکستان اور امریکہ میں ان  کاروباروں میں شمولیت اختیار کی۔ اہلیہ کی امریکہ کینیڈا اور متحدہ عرب امارات میں چلنے والے کاروباروں اور ان بزنسز پراپرٹیز میں برابر کی ملکیت ہے لیکن عاصم سلیم باجوہ  نے وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی بننے کے بعد جمع کروائی گئی اپنے اثاثہ جات کی فہرست میں اپنی بیوی کے پاکستان سے باہر بزنس کیپیٹل کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ متعلقہ کالم  میں باقائدہ” نہیں ہے“ لکھا۔ باجوہ خاندان چھ بھائیوں اور تین بہنوں پر مشتمل ہے۔ ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر کے خوشحال مگر مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔ ان کے والد محمد سلیم باجوہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے اور انھوں نے (١٩٥٠) کے اوائل میں سرکاری نوکری شروع کی اور پھر دس سال بعد صادق آباد میں قائم  ملت ہسپتال نامی ایک نجی ہسپتال میں شمولیت اختیار کر لی۔ انہیں پچیس نومبر ١٩٧٦ کو کراچی ایکسپریس پر سفر کے دوران نامعلوم افراد نے قتل کر دیاتھا۔ وفات کے وقت سلیم باجوہ کے اثاثہ جات میں زرعی زمین، صادق آباد شہر میں کچھ دکانیں، ایک دواساز کمپنی میں شیئرز اور ایک گھر تھا۔ سلیم باجوہ کے بڑے دو بیٹے تنویر اور طالوت والد کی طرح ڈاکٹر بن گئے اور پنجاب کے مختلف شہروں میں پریکٹس شروع کی۔ تیسرے بیٹے عاصم باجوہ نے ١٩٨٤ میں فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ دو بھائی ندیم اور فیصل پنجاب یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرکے ١٩٩٠ کی دہائی کے اوائل میں امریکہ  چلے گئے۔ سب سے چھوٹا بھائی عبدالمالک بھی ٢٠٠٢ میں امریکہ چلا گیا۔

مختلف ممالک کے کاروبار کا نظام چلانے کے لیئے بننے والی پیرنٹ کمپنی ٢٠٠٧ میں جب اس وقت کے ملٹری ڈکٹییٹر جنرل(ر) پرویز مشرف نے عاصم باجوہ کو برگیڈئیر کے عہدہ پر ترقی دی تو  باجوہ فیملی کے تمام کاروباروں کو باجکو گلوبل مینیجمنٹ ایل ایل سی نامی ایک کمپنی کے زیرِ سایہ لایا گیا اور اس کمپنی کو   ریاست اوہایو میں رجسٹر کروایا گیا۔ جبکہ ٢٠٠٨ میں لاہور میں اس کمپنی کا مددگار دفتر قائم کیا گیا۔ باجکو گلوبل مینیجمنٹ ایل ایل سی  کی رجسٹریشن دستاویزات، جو کہ  امریکی ریاست اوہایو کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، سے یہ بات سامنے آتی  ہے کہ جنرل (ر) عاصم باجوہ کی اہلیہ فرخ زیبا  باجکو گروپ کے تمام کاروباروں میں  اپنے شوہر کے پانچ بھائیوں کے ساتھ برابر کی حصہ دار اور مالک ہیں۔ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے بیٹوں نے  باجکو گروپ میں ٢٠١٥ میں شمولیت اختیار کی اور پاکستان اور امریکہ میں باجکو گروپ کےعلاوہ مزید نئی کمپنیوں کی بنیاد اس وقت رکھی  جب جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ ڈائیریکٹر جنرل آئی ایس پی آر اور پھر کمانڈر سدرن کمانڈ بلوچستان تھے۔ &فرخ زیبا ایک خاتون خانہ ہیں اور ظاہری طور پر انہیں کوئی کاروباری تجربہ نہیں ہے۔ عاصم باجوہ نے وزیراعظم کا معاون خصوصی بننے کے بعد ٢٢ جون کو اپنے اثاثہ جات کی ڈیکلیریشن پر حلفیہ دستخط کی جس میں انہوں نے اپنی بیوی کے نام پر صرف ایک اثاثہ اکتیس لاکھ روپے کی انوسٹمنٹ ظاہر کیا۔ جس کالم میں عاصم باجوہ سے ان کی یا ان کی اہلیہ کی بیرونِ ملک جائیداد کے بارے میں پوچھا گیا، عاصم باجوہ نے جواب   ”نہیں ہے“ دیا۔ ایک دوسرے کالم میں جہاں عاصم باجوہ سے واضح انداز میں ان کے یا ان کی اہلیہ کے پاکستان سے باہر کاروباری سرمایہ کے بارے میں پوچھا گیا، اس کا جواب بھی عاصم نے حلفیہ طور پر ”نہیں ہے“ دیا۔ اثاثہ جات کی اس ڈیکلیریشن کے آغاز میں اپنے اور اپنی بیوی اثاثہ جات بتانے کا کہا گیا تھا۔ اس ڈیکلیریشن کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر عاصم باجوہ سے تصدیق چاہی گئی تو انہوں نے ان الفاظ میں تصدیق کی، ”میں لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ ولد محمد سلیم باجوہ حلفیہ اقرار اور تصدیق کرتا ہوں کہ میرے علم اور مکمل یقین کے مطابق اوپر دی گئی میری، میری بیوی کی اثاثہ جات کی فہرست نہ صرف مکمل اور درست ہے بلکہ میں نے کوئی چیز نہیں چھپائی“۔ تاہم فیکٹ فوکس نے امریکی حکومت کی جو سرکاری  دستاویزات حاصل کیں ان کے مطابق عاصم باجوہ کی اہلیہ فرخ زیبا پاکستان سے باہر (امریکہ میں) تیرہ کمرشل جائیدادیں جن میں دو شاپنگ سینٹرز بھی شامل ہیں، کی مشترکہ مالک ہیں اور امریکہ، کینیڈا اور متحدہ عرب امارات میں بیاسی کمپنیوں (پاکستان سے باہر بزنس کیپیٹل) جن کے سرمایہ کی موجودہ کل مالیت تقریباً چالیس ملین ڈالر (چھ سو ستر کروڑ) ہے، کی عاصم باجوہ کے بھائیوں کے ساتھ برابر کی مالک ہیں۔

جب فیکٹ فوکس نے عاصم باجوہ سے ان کی بیوی کے نام یا ان کی بیوی کی مشترکہ ملکیتی کمپنیوں کے امریکہ میں بینک اکاؤنٹس اور ان میں موجود رقم کے حوالے سے متعلق سوال کیا اور پوچھا کہ انہوں اپنے اثاثہ جات کی ڈیکلیریشن میں اپنی بیوی کے حوالے سے واضح طور یہ کیوں لکھا کہ ان کا پاکستان سے باہر کوئی کاروباری سرمایہ نہیں ہے تو جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ نے جواب سننے سے گریز کیا۔ فیکٹ فوکس کی تحقیقات کے دوران سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے تیزی سے تبدیل ہوتے ویب سائیٹس ادارے جو کہ پاکستان میں کاروباری کمپنیوں کے نظام کو ریگولیٹ کرتا ہے  نے اپنی آفیشل ویب سائٹس سے  جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ   کے بیٹوں  کی ملکیتی کمپنیوں کا ڈیٹا غائب کرنا شروع کر دیا۔ فیکٹ فوکس کے پاس سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے اس کاروباری ڈیٹا  میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مکمل شواہد موجود ہیں۔ جب سوشل میڈیا پر باجوہ برادرز کے کاروباروں پر سوال اٹھائے گئے اور فیکٹ فوکس کی طرف سے باجکو گروپ کے صدر عبدالمالک باجوہ کو ان کے اور ان کے بھائیوں کے اور جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ  کو ان کی بیوی کے کاروباروں اور ان پر کی جانے والی انوسٹمنٹ کے بندوبست کی تفصیلات کے حوالے سے سوال  پوچھے گئے تو جواب نہیں دیا گیا مگر باجکو گروپ کی ویب سائیٹ منظرِ عام سے غائب کر دی گئی اور پھر مکمل طور پر  نئی تفصیلات کے ساتھ بحال کی گئی۔

باجکو گروپ کی ویب سائٹ پردی جانے والی  کاروباری تفصیلات میں پاپا جونز پیزا ریسٹورنٹ کی امریکہ اور کینیڈا میں صرف  (اٹھاون) شاخوں کی تفصیلات  دی گئی  تھیں۔ جبکہ رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں سرمایہ کاری کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اپ ڈیٹ ہونے کے بعد مذکورہ ویب سائٹ پر پہلی بار رئیل اسٹیٹ میں کی گئی سرمایہ کاری کو  جزوی طور پر منظرِ عام پر لانا شروع کر دیا۔ اپ ڈیٹ ہونے کے بعد ویب سائیٹ پر باجکو گروپ کی پاکستان میں سرمایہ کاری کا بھی پچیس اگست تک کوئی ذکر نہیں۔ جبکہ پاکستان میں باجکو گروپ کی سرمایہ کاری   ٹیلی کام  اور مزدوروں اور ہیومن ریسورسز کی فراہمی کے شعبہ پر مشتمل ہے۔ فیکٹ فوکس کی تحقیقات کا آغاز ہونے کے بعد باجکو گروپ کی ویب سائیٹ کس طرح تبدیل ہوئی۔

فیکٹ فوکس نے متحدہ عرب امارات کی حکومت سے جو سرکاری دستاویزات حاصل کیں وہ اس امر کی تصدیق کرتی ہیں کہ عاصم سلیم باجوہ کا ایک بیٹا باجکو گروپ کمپنیز سے منسلک ہے۔ مزید برآں جنرل (ر) عاصم باجوہ کی بیوی، فرح زیبا باجکو گلوبل مینیجمنٹ کمپنی جس کے زیرِسایہ باجکو گروپ کمپنیز اپنا کاروبار کرتی ہیں، میں عاصم سلیم باجوہ کے پانچ بھائیوں کے ساتھ برابر کی شراکت دار ہیں اور امریکہ، کینیڈا اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں میں (چوراسی) کمپنیوں کی  ملکیت رکھتی ہیں۔ دستاویزی ثبوت باجکو گروپ کے صدر عبدالمالک باجوہ کے ٹوئیٹر ہینڈل پہ دیئے گئے دونوں دعوؤں کی مکمل تردید کرتے ہیں۔ جب جنرل (ر)  عاصم سلیم باجوہ  کے خاندانی کاروبار کے  متعلق سوالات پوچھے گئے تو یکدم سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز کیا گیا۔ جس کے تحت سوالات پوچھنے والوں کا  تعلق انڈین انٹیلی جینس ایجنسی را سے  جوڑا گیا اور  جنرل (ر) عاصم باجوہ کے خاندان کے کاروبار پر سوال اٹھانے کو سی پیک پر حملہ اور ہندوستان کی سازش قرار دیا گیا۔ رہائشی جائیدادوں کے علاوہ، باجوہ خاندان کے ملکیتی کاروباروں نے پچھلے چھ سالوں میں تیرہ کمرشل پراپرٹیز بھی خریدیں۔ پچھلے چند سالوں میں باجکو گروپ نے وینچر فنڈنگ اور انٹرنشنل انوسٹمنٹ کمپنیز بھی قائم کیں۔ ”باجکو“ نام کے علاوہ، باجکو گروپ کے زیرِ اثر ہی جالکو، ایس بی گلوبل انویسٹمنٹس، بی آر وی ہولڈنگ اور بی آر وی کے نام سے مختلف کمپنیاں انویسٹمنٹس اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں قائم کی گئیں۔ بیوی، بیٹوں اور پاکستان میں بھائیوں کی مزید سرمایہ کاری: جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے تین بیٹے محمد، یوشع اور عازب مائننگ، شعبہِ تعمیرات، مارکیٹنگ، مشروبات، رئیل اسٹیٹ، فیشن اور کاسمیٹکس بنانے والی مختلف کمپنیوں کے بلا شرکتِ غیرے مالک ہیں۔ یہ کمپنیاں پاکستان میں کاروبار کرتی ہیں اور تین کمپنیاں امریکہ میں کاروبار کرتی ہیں۔ جوکہ رئیل اسٹیٹ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ عاصم باجوہ کے بیٹوں کے یہ کاروبار عاصم باجوہ کی بیوی اور ان کے بھائیوں کے مشترکہ کاروبار باجکو گروپ کے علاوہ ہیں۔ بیٹوں نے  یہ تمام کاروبار تب قائم کیئے جب عاصم باجوہ یا تو ڈی جی آئی ایس پی آر تھے یا کمانڈر سدرن کمانڈ تھے۔

جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ فرخ زیبا پاکستان میں موجود باجکو گروپ کے کاروبار باجکو ٹیلی کام اور فاسٹ ٹیلی کام میں برابر کی حصہ دار ہیں۔ یہ خاندان محنت اور افرادی  قوت کی فراہمی کے شعبہ سے بھی منسلک ہے۔ اس شعبہ میں ان کی کمپنی کا نام  سِلک لائن انٹرپرائزز  ہے۔ جس کے مالک عاصم سلیم باجوہ کے بھائی ڈاکٹر تنویر، ڈاکٹر طالوت  اور ڈاکٹر طالوت کے بیٹے ہیں۔ مزدور اور افرادی قوت فراہم کرنے والی یہ کمپنی عاصم باجوہ کے پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر بھائیوں نے اس وقت قائم کی  جب عاصم باجوہ بلوچستان میں کمانڈر سدرن کمانڈ تھے۔ ڈاکٹر طالوت کے بیٹے عمار سلیم باجوہ، رائے عامہ  جانچنے کے لیئے سروے کروانے والی کمپنی ٹرانسنڈنٹ کے بھی مالک ہیں۔ اس حوالے سے کہ کیا یہ کمپنی ٹرانسنڈنٹ تب بنی جب وہ ڈی جی آئی ایس پی آر تھے، عاصم باجوہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ باجکو گروپ سے ہٹ کر جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے تین بیٹے پاکستان میں مندرجہ ذیل کمپنیوں کے مالک ہیں۔ کریپٹون جو کہ مائننگ کے شعبہ سے منسلک ہے، ہمالیہ واٹرز (ہمالیہ واٹرز) مشروبات کی کمپنی ہے، موچی کارڈوینرز اور ایملز ایلیورفیشن اور کاسمیٹکس بنانے اور ریٹیل کی کمپنیاں ہیں۔ ایڈوانسڈ مارکیٹنگ نامی کمپنی مارکیٹنگ سے منسلک ہے۔ سائن بلڈرز اینڈ اسٹیٹس اور سائن بلڈرز ایل ایل پی ایل ایل پی ایل ایل پی رئیل اسٹیٹ کی کمپنیاں ہیں۔ سائن بلڈرز اینڈ اسٹیٹس کروڑوں مالیت کے فارم ہاؤسز ڈویلپ کرتی ہیں۔ یہ تمام کمپنیاں ٢٠١٥ کے بعد قائم کی گئیں۔ جب جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ  ڈی جی ٓائی ایس پی آر تھے اور پھر کمانڈر سدرن کمانڈ۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ معدنی وسائل سے مالا مال  بلوچستان کے حوالے سے کمانڈر سدرن کمانڈ کا عہدہ  نہایت اہم ہے۔ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے دو بڑے بیٹوں یوشع سلیم باجوہ اور محمد سلیم باجوہ  نے  امریکہ میں بھی کمپنیز قائم کیں ہیں۔ جن میں سے ایک ہائپر ڈرائیو سولوشنز کے نام سے ہے۔ جو کہ ٢٠١٥ میں  قائم کی گئی، جب عاصم سلیم باجوہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے عہدے پر تھے۔ اس کے علاوہ سائن مینیجمنٹ گروپ نام کی کمپنی ٢٠١٨ میں قائم کی گئی، جب عاصم سلیم باجوہ کمانڈر سدرن کمانڈ تھے اور سائن نیچرا نام کی کمپنی ٢٠٢٠ میں قائم کی گئی۔

جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے بیٹے محمد کا نام اپنے چچا عبدالمالک باجوہ کے نام کے ساتھ  باجکو گروپ کی متحدہ عرب امارات میں سات رجسٹرڈ شدہ کمپنیوں میں سے تین کی رجسٹریشن دستاویزات پر موجود ہے۔ یہ کمپنیاں ٢٠١٥ اور  ٢٠١٦ میں قائم کی گئیں۔ جب عاصم سلیم باجوہ  ڈی جی آئی ایس پی آر کے عہدے پر فائز تھے اور ایک کمپنی ٢٠١٩  میں قائم کی گئی جب  عاصم سلیم باجوہ کورکمانڈر سدرن کمانڈ تھے۔ عاصم باجوہ کے بیٹے یوشع باجوہ کا نام ٢٠١٨ سے  باجکو گروپ کی  امریکہ میں قائم  پانچ مختلف کمپنیز کے سالانہ گوشواروں میں بطور آتھورائزڈ  ایجنٹ کے منظرِ عام پر آنا شروع ہوا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس سے پہلے ان کاغذات میں بطور آتھورائزڈ ایجنٹ ندیم باجوہ کا نام آتا تھا۔ تاہم باجکو گروپ سے منسلک کسی کمپنی کی دستاویزات میں یوشع کا نام بطور ممبر یا مینیجنگ ممبر نہیں آتا۔ امریکی ریاست اوہائیو کی سرکاری دستاویزات دکھاتی ہیں کہ یوشع باجوہ نے جون اور اگست ٢٠١٨ میں امریکہ کے شہروں کینفیلڈ اور ینگزٹاؤن میں دو گھر اس وقت خریدے جب جنرل (ر) عاصم باجوہ کمانڈر سدرن کمانڈ تھے۔ بیٹے یوشع سلیم باجوہ کا کینفیلڈ، اوہایو، امریکہ میں گھر اور یوشع باجوہ جو کہ امریکہ اور پاکستان میں باجوہ خاندان کی کمپنیز اور جائیددادوں میں سب سے زیادہ حصہ دار ہیں نے خود کو کبھی بھی پاکستان میں بطور  ٹیکس دہندہ  ایف بی آر کے ساتھ رجسٹر نہیں کروایا۔

عاصم باجوہ کی والدہ فضیلت مآب  کئی دہائیوں سے شیریکس لیبارٹریز نامی فارماسیوٹیکل کمپنی میں شیئرز رکھتی ہیں۔ جن کی موجودہ تعداد پانچ ہزار شئیرز ہے جو کہ کمپنی کے کل شیئرز کا پانچ فیصد ہیں۔ ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق یہ شئیرز کبھی بھی ان کے نام سے ڈیکلیئر نہیں کیئے گئے۔ باجوہ فیملی کے مختلف افراد کے ماضی میں شیریکس کمپنی میں معمولی شیئرز رہے جو وہ ٹرانسفر کرتے یا بیچتے رہے تھے۔ اس وقت تنویر سلیم باجوہ کے بھی ایک ہزار شیئرز ہیں۔ فیکٹ فوکس نے شیریکس کمپنی کو کمپنیز کی ڈیٹابیس میں شامل نہیں کیا کیونکہ عاصم باجوہ کی فیملی اس کی مالک نہیں اور مختلف فیملی ممبرز کے ہمیشہ معمولی شیئرز رہے ہیں۔ جنرل (ر) عاصم باجوہ کی فوج میں مختلف اہم عہدوں پر تعیناتیوں کے دوران ان کے خاندان نے جو مختلف کمپنیاں بنائیں، ان کے ذریعے مختلف انوسٹمنٹس کیں، جائیدادیں خریدیں، ان کی عددی تفصیل کچھ یوں ہے:

1984 – 2001

عاصم باجوہ: فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لیفٹیننٹ کرنل بنے-

2002 — 2008

عاصم باجوہ، ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ انکے اسٹاف آفیسر اور پھر کمانڈر ٹرپل ون بریگیڈ بنے۔ باجوہ خاندان:  تقریبا (سولہ) ملین ڈالرز کی لاگت سے  ترپن  پیزا فرینچائزز قائم کی گیں۔ امریکہ میں بیس، پاکستان میں دو اور کینیڈا میں چار کمپنیاں رجسٹر کروائی گئیں۔

2009 — 2011

عاصم باجوہ: مشرف کے کام کرنے کے بعد بطور برگیڈئیر ایک کور کمانڈر کے اسٹاف آفیسر اور پھر میجر جنرنل کے عہدے پر ترقی کے بعد جی او سی ڈیرہ اسماعیل ڈسٹرکٹ کمانڈر تعینات رہے۔ باجوہ خاندان: سات اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کی لاگت سے پچیس فرینچائزز قائم کیں۔ اس کے علاوہ امریکہ میں صرف پانچ کمپنیاں قائم کی گیں جبکہ ایک رہائشی جائیداد خریدی گئیں۔

2012 — 2016

عاصم باجوہ، ڈائیریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے عہدے پر تعینات ہوتے ہیں۔ باجوہ خاندان: بائیس اعشاریہ پانچ ملین ڈالرز کی مالیت کی پچھتر فرینچائزز قائم ہوتی ہیں۔ امریکہ میں چونتیس، پاکستان میں تین اور متحدہ عرب امارات میں چھ کمپنیاں قائم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ  امریکہ میں تین اعشاریہ ایک چھ ملین ڈالر کی لاگت سے سات کمرشل اور دو رہائشی جائیدادیں خریدی گئیں۔ عاصم باجوہ کے بیٹوں نے باجکو گروپ ے علاوہ امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں کمپنیاں قائم کرنا اس عرصے میں شروع کیا۔

2017 — 2020

عاصم باجوہ، پہلے آئی جی آرمز اور پھر کمانڈر سدرن کمانڈ تعینات ہوئے۔ باجوہ خاندان: چھ اعشاریہ تین  ملین ڈالر کی اکیس فرینچائزز قائم ہوئیں، اس وقت قائم ہونے والی فرنچائزز میں سے کچھ چند ماہ پہلے بند ہوئیں۔ امریکہ میں سترہ،  پاکستان میں سات، متحدہ عرب امارات میں ایک  نئی کمپنی کا قیام  ہوا۔ سات اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کی لاگت سے امریکہ میں چھ کمرشل اور دو رہائشی جائیدادیں خریدی گئیں۔ اس عرصے میں عاصم باجوہ کے بیٹوں نے پاکستان میں کمپنیاں قائم کرنے اور امریکہ میں  جائیدادیں خریدنا شروع کیا۔ ان چھ کمرشل جائیدادوں میں سے ایک پر کمرشل سینٹر تعمیر ہونے کے بعد اس عرصے میں قائم کی گئی۔ کمرشل اور رہائشی جائیدادوں کی کل قیمت گیارہ اعشاریہ دو ملین ڈالرز ہو گئی۔ اسی عرصے میں عاصم باجوہ کے بڑے بیٹے نے امریکہ اور پاکستان میں کمپنیاں بنانے اور جائیدادیں خریدنی شروع کیں۔ اس دوران امریکہ میں خریدی گئی دونوں رہائشی جائیدادیں عاصم باجوہ کے بیٹے یوشع سلیم باجوہ نے خریدیں۔

عاصم باجوہ کے ستمبر ٢٠١٩ سے فوج سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد سے  باجکو گروپ  نے کسی قسم کی کوئی نئی کمپنی نہیں بنائی۔ البتہ ان کے بیٹوں نے امریکہ میں ایک ، اور پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کی دو کمپنیاں بنائیں۔ باجکو گروپ نے پہلی دو فرینچائزز ٢٠٠٢ میں قائم کیں، ٢٠٠٣ میں مزید دس فرنچائزز قائم کرنے کا معاہدہ کیا گیا مگر ٢٠٠٤ میں تین فرنچائزز خریدی گئیں۔  ان ابتدائی پانچ فرنچائزز کے لیئے ایک اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ ٢٠٠٦ اور ٢٠٠٧   میں باجکو گروپ نے بیس فرینچائزز قائم کیں اور پھر ٢٠٠٨ میں مزید  اٹھائیس فرینچائزز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ باجوہ خاندان کی امریکہ، پاکستان، متحدہ عرب امارات اور کینیڈا میں نناوے کمپنیز کی ملکیت آفیشل ریکارڈ سے ثابت ہے جن کے تمام ثبوت موجود اور محفوظ ہیں۔ باجکو گروپ نے  پچھلے اٹھارہ سالوں میں مجموعی طور پر ایک سو چوہتر فرینچائزز قائم کیں جن میں سے اس وقت ایک سو تینتیس آپریشنل ہیں۔

فیکٹ فوکس کے اندازے کے مطابق ان فرینچائزز کو قائم  کرنے کے لئیے باون اعشاریہ دو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری درکار تھی۔ اس وقت آپریشنل فرینچائزز کی کل مالیت انتالیس اعشاریہ نو ملین ڈالر ہے۔ یہ تو صرف جرنیل کے خاندانی بزنس کی کہانی ہے۔ خدا جانے ملک میں اور ملک کے باہر حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے اور کتنے کاروبار ہوں گے، کتنی جائیدادیں ہوں گی لیکن سب پردے کے پیچھے ہیں۔ باجوہ فیملی کے بزنس ایمپائیرز سے پردہ اٹھانے والے احمد نورانی صاحب امریکہ میں رہائش پذیر ہے ورنہ تو ملک میں رہ کر وہ کبھی بھی یہ گستاخی نہ کرپاتے۔ زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ ملک میں میڈیا کی برائے نام آزادی پر ترس آتا ہے کہ  کئی دن گزرنے کے باوجود ملک کے کسی میڈیا ہاوس/گروپ، اخبار، ٹی وی چینل نے اس اسکینڈل اور خبر پر بات کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ کسی بھی معروف ٹی وی چینل اخبار نے خبر چلانے کی جرات نہیں کی۔ کسی دلیر حق پرست اینکر نے اس پر پروگرام کرنے کی جسارت ہی نہیں کی اور کرے بھی تو کیسے کرے، سب کو اپنی جان پیاری ہے۔ تمام میڈیا مالکان کو بزنس بھی چلانا ہوتا ہے۔ اتنے بڑے اسکینڈل کے سامنے آنے کے باوجود کسی ادارے نے تحقیقات کرانے یا ملزم کو نوٹس بھیجنا ضروری نہیں سمجھا۔ پاکستانی مقننہ نے بھی اس مسئلے پر چپ سادھ لی ہے۔کسی پارلیمنٹیرین نے اس سکینڈل پر بات کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اعلی عدالتیں جو اکثر قومی مفاد کے معاملوں پر سوموٹو لیتے دیکھی گئی ہیں، انہوں نے بھی چپ رہنے میں ہی بہتری سمجھی ہے۔ مالیاتی بے ضابطگیوں کی جانچ پڑتال کرنے اور احتساب کرنے والے ادارے قومی احتساب بیورو میں بھی جرات نہیں کہ جرنیل کو اپنے صفائی پیش کرنے کا کہے۔ ان تمام باتوں سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ مملکت خداد مکمل طور پر جرنیلی نظام کے زیر اثر ہے۔ سیاسی حکومت برائے نام ہے۔ وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کی حیثیت ملازموں سے زیادہ کی نہیں ہے۔ ملک کے تقریباً تمام اداروں پر بے روزگار جرنیلوں کا قبضہ ہے۔

اگر عدالت کچھ کہتی ہے تو عدالت کو غیرآئینی اور جج کو غدار اور کرپٹ ثابت کرکے گھر بھیج دیا جاتا ہے، صحافیوں کو اٹھایا جاتا ہے، میڈیا ہاوسز پر پابندی لگا دی جاتی ہے، آواز اٹھانے والوں کو ہمیشہ کے لیئے موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ مقدس گائے سے سوال کرنا اور ان کے احتساب کی بات کرنا کلمہ کفر قرار دے دیا گیا ہے۔ مشرف غداری کیس میں عدالت اور جج کا جو حشر کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ احتساب احتساب کی بات کرنے والی حکمران جماعت کو مشرف کیس میں اور اب بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس سے پہلے جنرل کیانی کی کرپشن کہانی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، لوگوں نے بہت شور مچایا کہ کس طرح جرنل صاحب نے آسٹریلیا میں جزیرے خریدے لیکن کسی نے بھی جرات نہیں دکھائی کہ اس سے پوچھنے کی جرات کرسکے۔ اس کے علاوہ میجر جنرل آصف غفور جو ڈی جی آئی ایس پی آر رہے ہیں اور مشرف کے فرنٹ مین کا کردار بھی ادا کیا جب عدالت نے مشرف کو سزائے موت سنائی۔ آصف غفور کی برطانیہ میں کئی ملین پاونڈز کی جائیداد ہے، جہاں پر ان کے بچے رہتے ہیں۔ بیٹا اور بیٹی برطانیہ کے سب سے مہنگے ترین تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم ہیں جن کی سالانہ فیس چوبیس لاکھ پاؤنڈز کے لگ بھگ بنتی ہے لیکن کسی نے بھی ان سے پوچھنے کی جرات نہیں کی۔ حوالے تو بہت زیادہ ہیں، ملکی تاریخ جرنیلی کرپشن سے بھری پڑی ہے۔ ان کے راتوں رات امیر ہونے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں لیکن ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اگر اس ملک کی معاشی تباہی اور کرپشن کی ذمہ داری کسی پر آتی ہے تو وہ یہی مقتدر حلقہ ہے۔

بدقسمتی سے مملکت خداداد میں یہ روش ہے کہ یہاں پر صرف سیاستدان کو ہی کرپٹ تصور کیا جاتا ہے۔ تمام بیماریوں کی جڑ سیاستدانوں کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ باجوہ خاندان کے بزنس ایمپائرز کی رپورٹ حوالے سے یہ کہوں گا کہ دودھ کا دودھ پانی کا ہونا چاہیے۔ حس طرح نورانی صاحب نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا کہ میں نے معلومات اکھٹی کی ہیں, ایک سوال پوچھا ہے! جنرل صاحب اس کا جواب دے کر مجھے غلط ثابت کریں اگر میں غلط اور وہ حق پر ہیں۔ لیکن اب ایک مخصوص گروپ اور سیاسی جماعت کے کارندے اور کچھ حکومتی نمائندے اور چند صحافی حضرات اس رپورٹ کو بھارت کی سازش، سی پیک منصوبے کو ناکام کرنے اور مبشر زیدی، گل بخاری، احمد نورانی اور میجر گورو آریا کا پراپیگنڈہ قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک مشہور نیوز چینل اور اس سے وابستہ کچھ صحافیوں نے تو حد کردی۔ بریکنگ نیوز چلاچلا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ جنرل عاصم باجوہ کو بدنام کیا جارہا ہے۔ سی پیک کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان پر تو افسوس کے علاوہ اور کچھ کیا ہی نہیں جاسکتا۔

آخر میں بس یہ کہوں گا کہ ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لاء ہے۔ تمام ادارے، محکمے، حکومت اور پارلیمنٹ بے بس اور زیر دست ہیں۔ میڈیا پر قدغن ہے، ملک میں مارشل لاء کا دور دورہ ہے لیکن سیانے کہتے ہیں کہ دنیا امید پہ قائم ہے۔ تو کشش ہوتی رہے گی۔ حق کا ساتھ دینے والے آواز اٹھاتے رہیں گے۔سوال کرتے رہیں گے اور ایک دن یہ محنت بھرپور رنگ لائے گی، سب کا احتساب ہوگا۔ آخر میں مرحومہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کا قول دہراؤں گا  کہ ”اگر آپ کو جرنیلوں کے کرپشن کے بارے میں پتا چلا تو آپ سیاستدانوں کو آپ فرشتے سمجھنے لگیں گے