شیطان اور ایمان کا وسوسہ

مہناز اختر

کیا آپ نے شیطان کو دیکھا ہے؟

یقیناً آپکا جواب ”نا“ میں ہوگا لیکن اگر میں آپ سے یہ پوچھوں کہ شیطان کیسا دکھاٸی دیتا ہوگا تو اب اکثریت کا دماغ اسکی یاداشت میں موجود ہر تصور، کہانی، روایتوں، فلموں اور خوابوں کے ریکارڈ سے معلومات اکٹھا کرکے شیطان کی ایک تصویر بنا کر پیش کردے گا کہ شیطان ایسا ہوگا۔ میرے خیال سے شیطان ہماری زندگی کا سب سے زیادہ متنوع کردار ہے، کسی بہروپیے یا ٹھگ جیسا یا پھر عمروعیار جیسا جسکی زنبیل میں محقق و مولوی سے لے کر طواٸف اور خاکروب تک ہر کسی کو رجھانے اور ورغلانے کا سامان موجود ہے۔ میرے بچپن کا شیطان ”مَمرا“ تھا لیکن میرے پاس شیطان کو بھگانے کی ”سپر پاور“ سورة الناس موجود تھی۔ کتنی اچھی بات ہے کہ یہ سورت فینٹسی میں رہنے والی بچی کی ”سپر پاور“ کی تعریف پر بالکل فٹ بیٹھتی تھی۔

مَمرا اینیمیشن سیریز ”تھنڈرکیٹس“ کا شیطانی ولن تھا۔ یہ میری زندگی کا آخری ڈرانے والا غیرانسانی شیطان تھا۔ بچپن کی پریوں اور جنوں کی کہانیوں کا شوق بلا خوف وخطر مجھے مذاہب، مٶکلات، جنات، کلٹس ، بھوت پریت ، راکشسھ ، ڈیمون اور لوسیفرپر تحقیق کی طرف لے آیا کیونکہ میرے پاس بھوت بھگانے کی سپرپاور پہلے سے ہی موجود تھی۔ اکثر شیطان، جادوٹونہ اور عملیات سے خوف کھانے والے افراد واہموں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسے ساٸنسی انداز سے سمجھا جاۓ تو ان واہموں کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے۔ نفسیات میں وہم اور وسوسوں سے چھٹکارے کے لیۓ آٹوسجیشن/خود تلقینی کی ترکیب بے حد کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں دیکھیں تو سورہ الناس بہترین خود تلقینی ہے ” کہہ دو میں انسانوں کے رب کی پناہ میں آیا، انسانوں کے بادشاہ کی، انسانوں کے معبود کی، اس شیطان کے شر سے جو وسوسہ ڈال کر چھپ جاتا ہے، جو انسانوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، وہ جنوں اور انسانوں میں سے“۔ آپ کا تعلق چاہے جس مذہب سے ہو آپ لفظ ”رب“ کو اپنے تصورِ رب سے اخذ کرکے وسوسوں سے نجات پانے کے لیے اس ”خود تلقینی“ کا سہارا لے سکتے ہیں۔

”لوسیفر“ میں میرے لیے تجسس اور خوف کا کوٸی عنصر باقی نہیں ہے اسی وجہ سے لاہور میوزیم میں ”لوسیفرکے مجسمے“ کا شور اٹھا تو میرے لیۓ یہ افراتفری مضحکہ خیز تھی۔ اسکی دو وجوہات تھیں پہلی تو یہ کہ وہ مجسمہ ”لوسیفر“ کے ایک روپ کی معمولی سی شباہت تو رکھتا تھا پر غور کرو تو سمجھ آجاتا ہے کہ یہ لوسیفر کا وہ مجسمہ نہیں جسکا ڈھنڈوراپیٹا جارہا تھا۔ پھر اس مجسمے پر یہ اعتراض تو اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ اسکی وجہ سے لوگ شیطانیت کی طرف راغب ہوکرگمراہی میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ ایک سادہ سی بات جو ہمیں سمجھ نہیں آٸی وہ یہ تھی کہ آرٹ ذریعہِ اظہار ہے اور بقول مجسمہ ساز ارباط الحسن اس مجسمے کو بناتے وقت انکے ذہن میں زینب زیادتی قتل کیس تھا۔ اسنے اس مجسمے کی شکل میں انسان نما شیطان کو دکھایا ہے تو معترضین کے سارے اعتراضات بھی یہیں ختم ہوگٸے۔ تاہم اہم بات یہ تھی کہ جن لوگوں کے ایمان کو اس مجسمے سے خطرہ تھا بجاۓ یہ کہ وہ وسوسوں اور واہموں سے پناہ مانگتے اور ارباط کی وضاحت پر کان دھرتے انہوں نے ارباط کا تعلق صہونیت، الیومیناطیت اور فری میسن سے لےجاکر جوڑ دیا۔ یو ٹیوب پر پراپگینڈا اور کم علمی پر مبنی ایسی ایسی ویڈیوز بناکر ثواب دارین کی نیت سے ڈال دیں کہ انہیں دیکھ کر ایک عام فہم انسان یہ ماننے پر مجبور ہوجاۓ گا کہ شیطان ایسا ہی ہوگا ۔

چند روز قبل مجھے ایک میسج موصول ہوا ” ٹیکسٹنگ میں LOL کا استعمال مت کیجیے کیونکہ اسکا مطلب شیطان پر ایمان لانا ہے اور جب بھی کوٸی LOL کہتا یا لکھتا ہے تو اسکا مطلب ہوتا ہے ”لوسیفر آور لارڈ“۔ میں نے ان سے کہا کہ ویسے تو آپکا پیغام تحقیقی بنیادوں پر نادرست ہے لیکن پھر بھی آپکی اطلاع کے لیۓ عرض ہے کہ میں ٹیکسٹنگ میں تاثرات کے لیۓ اسماٸلیز کا استعمال کرتی ہوں LOL کی اصطلاح کا استعمال میں نہیں کرتی. مجھے جواب آیا ”پھر بھی احتیاط کیجیے گا ہوسکتا ہے کہ بے دھیانی میں ہم یہ لفظ استعمال کرکے اپنے ایمان کو نقصان پہنچالیں“ ۔ میں نے پوچھا بے دھیانی میں کہا تو پھر ایمان کو نقصان کیسے پہنچا؟ ہمیں تو یہ بتایا گیا ہے ”انما اعمال باالنیّات“ اور جب کوٸی LOL کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو اسکا مقصد ” laughing out loud “ کہنا ہوتا ہےاور یہی اسکے معروف معنیٰ ہیں تو پھر ہمارا ایمان خراب کیسے ہوا؟ اب جو LOL کو ”لاٹس آف لو“ یا ”لوسیفر آور لارڈ“ کے معنے میں لیتا یا کہتا ہے تو وضاحت کی ضرورت اسے ہوگی ہمیں نہیں۔

موصوف بات سمجھنے کو تیار نہ تھے تو میں نے ان سے کہا کہ دیکھیں ہم لفظ ”اللہ“ کو اللہ کا ذاتی اسم مانتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں یہی معروف بھی ہے کہ یہ لفظ یا علامت ”اللہ“ مسلمانوں کے خدا کا نام ہے۔ تاہم بعض اسلام مخالف محققین کا کہنا ہے کہ مسلمان درحقیقت عربوں کی قدیم دیوی ”لات“ کی پرستش کرتے ہیں۔ انکے مطابق اللہ دراصل ”ال لة“ یعنی ”ال لات“ ہے۔ لات جنگ و امن کی دیوی اور ذوالشریٰ کی ماں ہے۔ اسکی علامت ہلال مسلمانوں کی مقدس مذہبی علامت ہے۔ دلیل کے طور پر وہ یہ کہتے ہیں کہ ”لات“ مٶنث ہے اور مسلمانوں کے خدا کا یہ واحد نام ہے جو اسم مٶنث ہے کیونکہ اسکے آخر میں ”ة“ ہے۔ اب یہ بتاٸیں کہ جب آپ لفظ ”اللہ“ کہتے ہیں تو آپکی مراد ”لات“ دیوی ہے یا پھر مسلمانوں کا وہ تصورِالہ ہوتا ہے جسے سورة الاخلاص میں یوں بیان کیا گیا ہے ”کہو کہ اللہ یکتا ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ کسی کا والد ہے نہ کسی کی اولاد، اور کوٸی اسکا مقابل ہمسر نہیں“, (جواب ندارد)۔

میں نے اوپر لکھا ہے کہ ”ممرا“ میری زندگی کا آخری شیطان تھا جس نے مجھے ڈرایا ہو کیونکہ اسکے بعد میں ایک ایسی عمر میں داخل ہونے لگی تھی جب ماٸیں بیٹیوں کو انسانی کھال میں چھپے بھیڑیوں سے ڈرانا شروع کردیتی ہیں۔ میں بچپن میں ہی جان گٸی تھی کہ سورة الناس شیطانی وسوسوں سے بچنے کی مٶثر خود تلقینی ہے لیکن اسکا اثر انسان نما شیطانوں پر نہیں ہوتا کیونکہ اسکول کے چوکیدار کی آنکھوں سے جھانکتا شیطان دور سے ہی مجھ پر خوف طاری کردیتا تھا لیکن ہر روز سورة الناس پڑھنے کے باوجود بھی مجھے وہ شیطان وہی کھڑا دکھاٸی دیتا تھا۔ یقیناً زینب کا شیطان عمران تھا اور عظمیٰ نے بھی مرنے سے پہلے شیطان کو دیکھ لیا تھا جو لاہور کے پوش علاقے میں خوبصورت حسیناٶں کی شکل میں رہتا تھا۔ غالباً ارباط نے اسی انسان نما شیطان کا خیالی مجسمہ بنایا ہوگا۔ اب ”شیطان“ اتنا اناڑی بھی نہیں ہے کہ مکروہ شکل کے ساتھ دنیا میں آکر اپنا راز فاش کردے۔ پاکستان میں شیطان اکثر مولوی، ڈاکٹر یا پولیس والا بن کر گھومتا ہے۔

صاحب ایمان ہونے کا یقین سب سے خطرناک وسوسہ ہے، اس سے پناہ مانگیں۔ یہ ایمانی وسوسہ مولویوں کے منہ سے ماں بہن کی گالی نکلوا کر بھی انکو عاشقِ رسول ہونے کے گمان میں مبتلا رکھتا ہے۔ پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت ایمان کے وسوسے میں مبتلا ہے۔ ایک ایسا نام نہاد ایمان جو آپکو تحقیق، غوروفکر اور دریافتوں سے روکتا ہے۔ اس کیفیت میں ہر وہ شخص جو کسی دوسرے دین کا ماننے والا ہو یا اس کے نظریات آپ سے مختلف ہوں آپکو شیطان کا پیروکار لگتا ہے کیونکہ آپکے دماغ میں صاحب ایمان ہونے کا خناس بھرا ہوتا ہے۔ آپکو یہ وہم ہوجاتا ہے کہ آپ ہی مسلمانوں کو ہدایت کی راہ دکھانے کو بھیجے گۓ ہیں۔ یقین مانیں اگر مشعل دنیا میں واپس آجاۓ اور میں یہ سوال اس سے پوچھوں کہ کیا تم نے شیطان کو دیکھا ہے، وہ کیسا دکھتا ہے تو اسکا جواب یہی ہوگا ”ہاں، مجھ پرجان لیوا تشدد کرنے والے عاشقان جیسا“

لیکن سوال یہ ہے کہ زینب کا شیطان عمران تھا اور مشعل کے شیطان ”ایمان والے مسلمان“ پھر عمران اور ”ایمان والے مسلمانوں“ کا خدا کون ہے ”اللہ“ یا ”لوسیفر“ ؟