عرب اسرائیل تعلقات اور فلسطین
عاطف توقیر
اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات تیزی سے بہتر ہو رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان خفیہ رابطہ کاری اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، جب کہ ممکن ہے کہ جلد ہی کویت اور سعودی عرب بھی عوامی سطح پر اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔
یہ صورت حال سب سے زیادہ فلسطینیوں کے لیئے پریشان کن ہے۔ ان کا واحد سہارا عرب حمایت تھی، جو اب مفادات کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ یعنی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی توسیع پسندی کا راستہ روکنا اب مشکل ہو گا۔ لیکن بات یہ ہے کہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کا خمیازہ بھی انہیں فلسطینیوں نے بھگتا تھا۔ اس جنگ میں اسرائیل نے مغربی اردن کا علاقہ اپنے قبضے میں کیا اور فلسطینیوں نے یاسر عرفات کی قیادت میں اس علاقے کی واپسی کے لیئے مسلح جدوجہد شروع کی، تو اسرائیل نے اردن کو جنگ کی دھمکی دی۔ نتیجتاً اردن نے فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کا منصوبہ بنایا اور ایسے میں پاکستان اردن کے ساتھ جڑے مفادات کے تناظر میں فلسطینیوں کو کچلنے کے آپریشن میں میدان میں اتر آیا۔
اس وقت کے بریگیڈیئر اور بعد میں جنرل اور گیارہ برس تک آمر رہنے والے ضیاالحق کی کمان میں پاکستانی فوج کے دستوں نے چھ ستمبر 1970 تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہاں کئی معرکے ایسے بھی تھے، جب اردن کی فوج کی کمان ضیاالحق نے کی۔ یہی وجہ تھی کہ یاسر عرفات آخری سانس تک پاکستان سے خائف رہے۔
خیر یہ بحث پرانی ہے۔ مدعا تاہم یہی ہے کہ مفادات سامنے ہوں، تو اصول پیش نہیں ہوتے۔ اس وقت عرب دنیا ایران کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات تو تعلیم اور ثقافت کے شعبوں میں اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کا آغاز بھی کر چکا ہے۔ ساتھ ہی بحرین نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ تمام پیش رفت امریکی آشیرباد کے ساتھ ہو رہی ہے۔ ابھی تین برس قبل ہی صدر ٹرمپ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر چکے ہیں۔ چند ہفتے ہوئے سعودی عرب میں مساجد میں جمعے کے خطبوں میں اسرائیل سے متعلق سخت جملوں کی جگہ قرآن کی وہ آیتیں سنانے کا آغاز کیا جا چکا ہے، جن میں بنی اسرائیل کی عظمتوں کے قصے بیان کیئے گئے ہیں۔
ایسے میں پاکستان میں بھی گزشتہ دو برس سے یہ بحث وقفے وقفے سے چھیڑی جاتی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے۔ اسرائیل سے قربت کے قصے سنائے جاتے ہیں، فوائد گنوائے جاتے ہیں۔ دو ہزار پندرہ میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے اثرات اب تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ پچھلے قریب دس سالوں سے اسرائیل اور مصر کی طرف سے غزہ کے علاقے کی فضائی، بری اور بحری ناکہ بندی جاری ہے۔ اس علاقے میں ادویات اور خوراک سمیت ہر شئے اسرائیل کے ذریعے جاتی ہے۔ عملی طور پر غزہ پٹی ایک جیل ہے۔ یہاں سے جب کوئی بے بسی اور غصے میں راکٹ اسرائیل کی جانب اچھالتا ہے، تو جواب میں لڑاکا طیارے اس علاقے کو تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں۔ 2015 میں غزہ پر اسرائیلی حملے میں غزہ پٹی کا ایک بڑا علاقہ راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا۔غزہ میں اب تک اس تازہ جنگ کے اثرات جا بہ جا نظر آتے ہیں۔
امریکا فلسطینیوں کی بہبود کے لیئے کام کرنے والے عالمی ادارے کی امداد بھی بند کر چکا ہے اور فلسطینیوں کو دیا جانے والے دیگر امدادی سرمایہ بھی۔ یعنی یہ جیل اب مزید بھوک اور مزید خوف کے اندھیرے میں دھکیلی جا چکی ہے۔ فلسطینی ایسے میں فقط یا تو آسمان کی طرف دیکھ کر دعائیں کر سکتے ہیں یا باہمی تفاوتیں ختم کر کے مربوط، پرامن اور سیاسی انداز سے اپنی ریاست کے حصول کے لیئے کوشش کرسکتے ہیں، یا وہ مسلم دنیا کے بجائے یورپ کی طرف دیکھ سکتے ہیں۔ فلسطین میں فتح اور حماس کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت جلد ہی فلسطینی علاقوں میں انتخابات کرائے جائیں گے۔ اس کے بعد فلسطینی انتظامیہ کے صدر کے انتخابات بھی ہوں گے۔
عام لوگ اتنا سمجھ لیں کہ فلسطین کا علاقہ دو حصوں میں بٹا ہوا ہے، ایک طرف غزہ پٹی ہے، جس پر سن 2006 سے حماس کا کنٹرول ہے اور دوسری طرف مغربی اردن کا علاقہ ہے، جس میں پچھلے چودہ برس سے فتح تنظیم کی حکومت ہے۔ سن 2006 میں ایک معاہدے کے تحت فلسطینیوں کے مشترکہ انتخابات ہوئے تھے اور ان میں غیرمتوقع طور پر حماس تنظیم جیت گئی تھی لیکن اس کے بعد فتح اور حماس تنظیم کے درمیان لڑائی اتنی شدت اختیار کر گئی کہ بات خانہ جنگی کے قریب جا پہنچی۔ تب سے حماس غزہ پٹی کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے، جب کہ مغربی کنارے پر فتح تنظیم کی حکومت ہے۔
پچھلی بار فقط اقتدار کی رسہ کشی نے فلسطینیوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور اس کا نتیجہ غزہ کی مکمل ناکہ بندی اور مغربی کنارے میں بے شمار نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کی صورت میں نکلا تھا۔ فلسطینی اگر متحد ہوتے اور ان کی ایک متفقہ سیاسی قیادت موجود ہوتی، تو شاید اس حد تک تباہ کن صورت حال برآمد نہ ہوتی۔ معاشی استحکام، مستحکم سیاسی صورت حال اور اصولی مؤقف کسی قوم کا وہ اثاثہ ہیں، جو شاید کسی بھی موقع پر کسی قوم کو جھکنے نہیں دیتے۔ عرب دنیا سیاسی طور پر ایک خوف کے کنارے پر موجود ہے۔ وہاں کی بادشاہتیں ہر لمحہ اس خدشے کا شکار ہیں کہ کوئی ان سے اقتدار چھین لے گا اور ایسے میں اپنے مفادات ان کی نگاہ میں انسانیت، اصولوں، نظریات یا مذہب ہر شئے سے زیادہ مقدس ہیں۔