کشمور واقعہ، بچے اور بھیڑیے

 عاطف توقیر

کہتے ہیں کہ جب سائبیریا میں بہت شدید سردی پڑتی ہے تو وہاں موجود تمام جانور ہجرت کرجاتے ہیں اور صرف وہی چند ایک جانور باقی بچتے ہیں، جو یا تو ہجرت کی صعوبت برداشت کرنے لائق نہیں ہوتے یا ہجرت کرنہیں سکتے یا سائبیریا کی سردی کے علاوہ انہیں کچھ بھی راس نہیں ہوتا۔ اس تباہ کن سردی کے آغاز کے ساتھ ہی وہاں فقط بھیڑیے ہوتے ہیں جو ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا سارا دن ایک ہی کام ہوتا ہے کہ یہ برف میں چپہ چپہ چھانتے پھرتے ہیں کہ کوئی شکار مل جائے۔ کچھ نہیں ملتا تو رات کو دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور شدید بھوک اور سارے دن کی تھکن کے باوجود یہ ایک دوسرے پر نگاہیں گاڑے ہشاش بشاش ہو کر گھنٹوں  آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہتے ہیں، کہ کہیں کوئی کم زوری ظاہر نہ ہو۔ ایسے میں کسی ایک کہ آنکھ بھی جھپکے تو سارے اس پر پل پڑتے ہیں اور اسے پھاڑ کھاتے ہیں۔

انسانوں کے معاشرے میں بھی اگر قانون نہ ہوتا، اقدار نہ ہوتیں، ضوابط نہ ہوتے اور اخلاقیات نہ ہوتیں، تو شاید ہم بھی اسی طرح کے دائرے بنا کر بیٹھا کرتے۔ بلکہ بیٹھا کیا کرتے، وہ تمام علاقے جہاں اقدار، ضوابط، قوانین اور اخلاقیات نہیں، وہاں آج بھی انسانی شکل میں موجود بھیڑیے دائرہ بنائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم سب کو اپنی تمام تر تھکاوٹ، جھلسا دینے والی مشقت، اپنے کندھوں پر موجود بوجھ اور جانے کس کس تکلیف کے باوجود آنکھ جھپکنے تک کی آزادی نہیں۔ کہ ہم میں سے کسی کی معمولی سی کم زوری نظر آ جائے، تو یہ کھلے عام پھرنے والے بھیڑیے ہمیں پھاڑ کھاتے ہیں۔ کشمور میں چھوٹی سی بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی حالت دیکھیے کہ اس کے اندرونی اعضاء جسم سے باہر لٹک رہے تھے۔ یہ اعضاء بچی کی نہیں، اس معاشرے کے ہیں۔ یہ حیرت زدہ آنکھیں ماں کی نہیں، انسانیت کی ہیں۔ یہ بچی کی خوف میں اپنے ہی اندر گرتی آواز اس بچی کی نہیں، ہمارے ضمیر کی ہے۔

کشمور میں نوکری کے لالچ میں ایک ماں اور بچی کو کراچی سے کشمور لایا گیا اور تین روز تک ان دونوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اب ایسے میں مصنوعی اخلاقیاتی اور جرائم پر معاشرے کی تقدیس کی گرد ڈال کر جنسی جرائم کو جواز دینے والے ممکن ہے کہ ماں ہی کو دوش دے دیں کہ وہ ملازمت کے لالچ میں یہاں آئی ہی کیوں۔ مگر غربت اور افلاس کا جہاں یہ عالم ہو کہ لوگ روٹی روٹی کو ترسنے لگیں، تو ملازمت کی امید لالچ نہیں بقا کی کوشش کہلاتی ہے۔ مجھے یہ بات عموماً سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے ہاں اس انداز کے بھیانک جرائم ہوتے ہیں اس لیئے ہم نے جواز گھڑ رکھے ہیں، یا ہم نے جواز گھڑ رکھے ہیں اس لیئے یہ بھیانک جرائم ہوتے ہیں؟

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں آپ کو جو اضافہ دکھائی دے رہا ہے، یہ اصل میں اضافہ نہیں بلکہ موبائل فونز اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اب یہ گندگی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا مسئلہ جہالت نہیں، ہمارا مسئلہ شعوو و آگہی کی کمی نہیں، ہمارا مسئلہ اخلاقی اقدار سے دوری نہیں، ہمارا مسئلہ انسانیت سے چشم پوشی نہیں، ہمارا بنیادی مسئلہ منافقت اور منافقت پر اطمینان ہے۔ پھر یہ جرائم فقط جنسی بھی نہیں۔ یہ معاشرہ خواتین کے جسم سے نفرت کرنے کا معاشرہ ہے۔ ان کی نگاہ میں خواتین گوشت کے لوتھڑے سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں بچی پیدا ہوتی ہے، تو اس کے کان میں ڈالنا شروع کر دیتے ہیں کہ تم ایک چیز ہو۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں لڑکیوں کو ماں، بہن، بیٹی، بیوی یا کسی اور کردار میں قبول کیا جاتا ہے۔ لڑکی یا خاتون ہونا کافی نہیں ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں خواتین کی عصمت کے نعرے بھی سب سے زیادہ لگتے ہیں اور یاروں کی محفلوں میں پھبتیوں کا مرکز بھی خواتین ہوتی ہیں۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں خواتین کے جسم پر کپڑے پھینک پھینک کر اس کے تقدس کی قسمیں بھی کھائی جاتی ہیں اور سڑک پر چلتی خواتین کے کپڑے نگاہوں سے نوچ نوچ کے جسم کو گندی نظروں سے چھوا بھی جاتا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں ریپ کا قصور ریپ ہونے والی خاتون پر رکھا جاتا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں ریپ کرنے والے کو سڑک پر ٹانگنے کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں اور ریپ ہونے والی کو گالی بھی دی جاتی ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں کوئی خاتون صرف اس کے لیئے محترم ہے، جس کی وہ کچھ لگتی ہے، دوسرے کے لیئے وہ صرف مال ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں ریپ کے خاتمے کی بحث ریپ کی وجوہات، معاشرے میں بڑھتی جنسی گھٹن، سماج میں خواتین کر کردار، ماحول کو خواتین کے لیئے محفوظ بنانے کے اقدامات اور ان کی زیادہ آزادی کو یقینی بنانے پر سنجیدگی دکھانے کی بجائے حل یہ ڈھونڈتا ہے کہ خواتین کو گھروں ہی میں بند کر دیا جائے۔

مگر مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ یہاں خواتین ہی نہیں، لڑکیاں ہی نہیں بلکہ لڑکے بھی غیرمحفوظ ہیں۔ یہاں کبھی مدرسے کا کوئی مولوی کسی ویڈیو میں نظر آتا  ہے جہاں لوگ اسے مار پیٹ رہے ہوتے ہیں اور وہ بتا رہا ہوتا ہے کہ قصور اس کا نہیں شیطان حاوی ہو گیا تھا۔  کبھی کوئی استاد کسی لڑکے کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتا نظر آتا ہے۔ کبھی کسی کھیت سے کسی لڑکی کی جنسی زیادتی کے بعد مار کر پھینک دی گئی لاش ملتی ہے۔ یہ معاشرہ ہر روز ایک ویڈیو، ایک تصویر، ایک سوشل میڈیا کیمپین ایک شور کا معاشرہ ہے۔ جنسی گھٹن کی حالت دیکھیے کہ اس وقت اس وی لاگ کو دیکھنے والا کوئی ایک بھی فرد، مرد کیا اور خاتون کیا، یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے زندگی میں کسی نہ کسی طرز کے جنسی حملے یا ہراسانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس سے آپ اس معاملے کی شدت کا اندازہ لگائیں اور پھر اس سنگیں معاملے سے متعلق اب تک کیئے گئے اقدامات کو غور سے دیکھیں، تو آپ کو تمام تر حالات نظر آ جائیں گے۔

1 COMMENT

Comments are closed.