جادوگر باز کب آئیں گے؟
محمد احسن قریشی
فرانس کے شہر پیرس میں ایک بھرے مجمعے کو ایک جادوگر نے اس وقت حیرانی میں مبتلا کر دیا، جب اس نے ایک شخص کو لکڑی کے ڈبے میں ڈال کر بند کر دیا اور جب ڈبے کو دوبارہ کھولا تو وہ شخص اس میں موجود نہیں تھا، کہیں غائب ہو چکا تھا اس کرتب کو دیکھ کر مجمعے کے شرکاء خوب حیران ہوئے البتہ مجمعے میں موجود ایک نوجوان جو جادوگر کے پاس ہی کھڑا تھا کچھ خاص حیران معلوم نہ ہوتا تھا۔ جادوگر نے اس سے پوچھا کیا تمہیں یہ کرتب دیکھ کر حیرانی نہیں ہوئی؟ جس پر نوجوان نےمسکراتے ہوۓ بتایا کے اس کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے، جہاں ایسے کرتب ریاستی اداروں کی جانب سے تقریباً ہر روز ہی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
جس میں ریاستی اداروں کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار کسی بھی شہری کو کبھی دن کی روشنی میں اور کبھی رات کے اندھیرے میں، کبھی آفس سے تو کبھی گھر سے، کبھی اہل خانہ اور کبھی بھرے مجمعے کے سامنے سے اپنی گاڑی میں بیٹھا کر غائب ہو جاتے ہیں، جس کے بعد اس شہری کو تلاش کرنا نہ ممکن ہو جاتا ہے۔
جادوگری کا ایسا ہی واقعہ 28 اکتوبر کی رات کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں پیش آیا، جس میں ریاستی ادارے کے اہلکاروں نے تین گھروں میں داخل ہو کر آٹھ سالہ آفتاب،تیرہ سالہ الفت،سترہ سالہ فرہاد اور عابد اور بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن(B H R O ) کے انفارمیشن سیکرٹری نواز عطا سمیت سجاد، عارف اور روات کو ان کے اہل خانہ کے سامنے گاڑی میں بیٹھا کر خود گاڑی سمیت غائب ہو گئے۔
جادوگری کے اس واقعے کے بعد سے ان افراد کے اہل خانہ ان افراد کو تلاش کرتے ہوئے، تھانوں سے ہوتے ہوئے اب کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ جب کہ اس جادوگری کے نتیجے میں غائب ہونے والے افراد کی رپورٹ درج کرنے سے پولیس انکاری ہے اور ریاستی ادارے کی اس جادوگری کو عوام تک پہنچانے سے صحافتی ادارے معذرات خواہ ہیں۔
واللہ عالم کب جادوگروں کی جادوگری کا شوق اپنے اختتام کو پہنچے گا اور کراچی پریس کلب کے باہر بیٹھے افراد نہ جانے کب تک اپنے پیاروں کی راہ تکتے رہیں گے۔