عاطف توقیر کا وی لاگ ’’ہمارے رویے اور افغان مہاجرین کی واپسی‘‘
عاطف توقیر کا متبادل کے لیے وی لاگ
دنیا میں کہیں بھی کسی بھی ملک میں اگر کسی مسلم برادری یا گروہ کے ساتھ کسی بھی طرح کا کوئی نامساویانہ رویہ برتا جائے یا کہیں کوئی ظلم ہو، تو اس کی کسک پوری شدت سے ہمارے ہاں محسوس کی جاتی ہے۔ مگر اس کے لیے ہمارے ہاں ایک واضح شدت ہے اور وہ یہ کہ مذمت فقط تب ہو گی اگر ظالم کوئی غیرمسلم ہوا۔
فلسطینی مسلمانوں کو دکھ پوری شدت سے محسوس کیا جائے گا۔ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کشمیروں پر ڈھانے جانے والے ظلم پر بھرپور آواز اٹھائی جائے گی، کیوں کہ یہاں ظالم غیرمسلم بھارتی حکومت ہے، فرانس میں برقعے پر پابندی پر اٹھ کھڑے ہوا جائے گا، کیوں کہ یہاں ظالم غیرمسلم فرانسیسی حکومت ہے، برما میں روہنگیا کی نسل کشی پر پورا سوگ منایا جائے گا، کیوں کہ یہاں ظالم میانمار کی بدھ حکومت ہے۔
مگر یمن میں ہزار ہا نہتے انسانوں کے قتل کا ذکر تک نہیں ہو گا، کیوں کہ یہاں ظالم سعودی عرب اور ایران ہیں۔ شام میں لاکھوں معصوموں کے قتل پر مکمل خاموشی برتی جائے گی، کیوں کہ یہاں ظالم مسلمان ہیں، نائجیریا میں اسکول کی سینکڑوں بچیوں کے اغوا پر ایک لفظ نہیں بولا جائے گا، کیوں کہ یہاں ظالم شدت پسند مسلم گروپ بوکوحرام ہے۔ صومالیہ میں ہزاروں انسانوں کے قتل اور قحط کے تذکرے سے گریز کیا جائے گا، کیوں کہ یہاں ظالم الشباب ہے۔ کرد پر ایران، شام، عراق اور ترکی میں زمین تنگ کر دی جائے، ان سے زندہ رہنے کا تمام تر حق چھین لیا جائے، ترک طیارے وہاں بستیوں پر بم گرائیں، ٹینک وہاں کردوں کے گھر چھید دیں، مگر مجال ہے جو ہم ایک لفظی مذمت بھی کر دیں، کیوں کہ یہاں ظالم ترکی شام، ایران اور عراق ہیں۔ عراق میں تاہم امریکی بمباری پر ہم پوری شدت سے آواز اٹھائیں گے۔
افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والے ظلم پر خون سے رنگین پوسٹس لگائی جائیں گی، مگر طالبان اور داعش وہاں شہروں اور قصبوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں، تو اس پر چپ سادھ لی جائے گی۔ کابل میں ہونے والے بدترین حملے کے بعد امت اخبار کی ہیڈ لائن تھی، ایک حملہ آور نے سو پولیس اہلکار اڑا دیے۔ حالاں کہ وہاں مرنے والوں کی اکثریت عام شہریوں کی تھی، مگر ہمارا ان سے کیا تعلق۔
ہم روہنگیا سے محبت کریں گے، فلسطینیوں سے محبت کریں گے مگر یمنی مر جائیں، کرد مر جائیں، عراقی مر جائیں، شامی مر جائیں، افغان مر جائیں، ہمیں کوئی غرض نہیں۔
برما میں بسنے والے روہنگیا کو بنگالی تارکین وطن پکارا جاتا ہے اور میانمار کی حکومت کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ کسی طرح ان افراد کو مکمل سے نکالا جائے، اور حالیہ عسکری آپریشن میں لاکھوں افراد کی ہجرت گواہ ہے کہ میانمار نے یہ عسکری آپریشن اصل میں کیوں کیا تھا۔
اس آپریشن پر ہم اس وقت تک پورے جوش وخروش سے آواز اٹھاتے رہے، جب تک کے ہمارے دیرینہ دوست چین نے روہنگیا کے خلاف بیان دے کر میانمار کی حکومت کو شاباش نہ دی۔ اس کے بعد ان معصوموں کے حالات پر ہم نے مکمل خاموشی اختیار کر لی، وہی خاموشی جو سینکیانگ میں مسلمانوں پر بیجنگ کے مظالم پر ہمیں کبھی بولنے نہیں دیتی۔ چین اپنا یار جو ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=XfHb42qPxkE
سوویت یونین نے سن 1979 میں افغانستان میں فوجی مداخلت کی تھی اور اس وقت لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان پہنچے۔ چالیس برس گزر چکے، اب افغانوں کی پاکستان میں تیسری نسل پیدا ہو چکی ہے اور اب ہم پوری نفرت اور حقارت کے ساتھ ان افراد کو پاکستان سے نکل جانے کے لیے کھڑے ہیں۔ افغانستان میں خون ہی خون ہے، شورش ہی شورش ہے، ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں، مگر ہمیں کیا؟
کچھ عرصہ قبل میں بارسلونا گیا، تو وہاں ایک افغان نوجوان سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس کی کہانی میری روح تک کو زخمی کر رہی تھی۔ کہنے لگا میرے دادا سن 1942 میں کشمیر منتقل ہوئے تھے۔ اس وقت پاکستان بھی نہیں بنا تھا۔ پھر وہ تقسیم کے بعد ان قبائلیوں میں بھی شامل تھے، جنہوں نے بھارت کے خلاف 48 کی جنگ میں حصہ لیا اور کشمیر کا وہ حصہ آزاد کرایا، جو اب پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کہلاتا ہے۔کہنے لگا، اتنے برس گزر جانے کے بعد اب پاکستانی حکومت نے ہمیں اس علاقے سے نکال دیا، ہم وہاں کاروبار کرتے تھے، مگر ہمیں سب کچھ بیچنا پڑا اور ہمیں افغانستان واپس بھیج دیا گیا۔ افغانستان ہمارے لیے ایک اجنبی ملک تھا۔ ایک ایسا ملک جسے ہم جانتے تک نہیں تھے۔ ہم اس دوران اپنی آبائی زبان تک بھول چکے تھے۔ ہم وہاں پہنچے تو وہاں ہمیں مہاجر کہا جانے لگا۔
پاکستان میں موجود دیگر افغان مہاجرین کی کہانیاں بھی کچھ اسی طرح کی ہیں، کئی ایسے ہیں جن کی شادیاں پاکستانی شہریوں سے ہو چکیں، ان کے بچے ہیں، ان کے کاروبار ہیں، مگر اب چالیس سال کے بعد ان افراد کو جبرا ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا، کیسا انسانی فعل ہے اور ایسے میں ہمارا مذہبی جذبہ یا مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہماری ہم دردی کہاں ہیں، یہ شاید ہمیں خود بھی معلوم نہیں۔
عمومی بیان یہی ہے کہ افغان مہاجرین میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر کوئی فرد کوئی جرم کرتا ہے، تو اس کی سزا ایک پوری برداری کو کیسے دی جا سکتی ہے؟ دوسری بات دہشت گرد تو ہماری قریب ساری ہی برادریوں میں چھپے ہوئے ہیں اور وہ اس لیے کہ یہ دہشت گرد تو ہم امریکا سے ڈالر لے کر خود بناتے رہے ہیں۔
افغان مہاجرین میں اگر کوئی دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہوتا ہے، تو ظاہر ہے اس کو اس کی جرم کی بھرپور سزا ملنا چاہیے مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سزا کے طور پر ملک سے تمام افغان مہاجرین کو جانے پر مجبور کر دیا جائے؟
آپ کا فلسطینیوں، روہنگیا یا دنیا کے دیگر خطوں میں غیرمسلموں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خلاف روا رکھا جانے والا غیرمساوی سلوک پر رونا یقین قابل ستائش ہے، مگر آپ کے اپنے ہاتھوں سے ان غیرمسلموں سے بھی زیادہ بھیانک ظلم اگر جائز ہے، تو پھر سمجھیے، آپ کا کسی بھی معاملے میں رونا صرف جذباتی نعرہ ہے اس کا کسی بھی دوسرے ملک پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔