توہین مذہب کا جھوٹا الزام، ایک غریب کے نو سال کھا گیا

عاطف توقیر

ایک مسلمان ہونے کے ناطے یہ ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ اسلام عدل و انصاف کا مذہب ہے۔ اگر کہیں ناانصافی ہو رہی ہے، تو یقیناﹰ وہ ہماری فہم و ادارک کی بنا پر ہماری کسی نادرست تشریح کی بنا پر تو ہو سکتی ہے، مگر یہ ممکن نہیں کہ اسلام اس ناانصافی کی وجہ ہو۔ کم از کم ہمارا ایمان یہی ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے کسی قانون میں سقم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا اور مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔

بہالپور کا رہائشی محمد منشا لیکن ایک ناانصافی کا شکار ہو گیا اور بدقسمتی سے وہ ناانصافی اس قانون سے جڑی تھی، جسے ہمارے ہاں لوگ ’اسلامی‘ اور ’مذہبی‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا ممکن کیسے ہوا؟

نو برس تک قید میں رہنے کے بعد بلآخر توہین قرآن کے مقدمے میں پھنس جانے والے محمد منشا نامی اس شخص کو سپریم کورٹ کے ایک دو رکنی بینچ نے بے گناہ قرار دیتے ہوئے باعزت بری کرنے کا حق دیا۔ اس مقدمے کی چند خاص باتیں تھیں، ایک تو یہ کہ محمد منشا اتنا غریب تھا کہ اس کے پاس وکیل تک کرنے کے پیسے نہیں تھے اور اس کے دفاع کا مقدمہ لڑنے کے لیے وکیل بھی سپریم کورٹ کو مقرر کرنا پڑا۔

دوسری بات اس مقدمے کا واحد گواہ مقامی مسجد کا ایک ایسا مولوی تھا، جو سننے اور بولنے کی حسیات میں اپاہج ہونے کی حد تک مسائل کا شکار تھا۔

یعنی ایک شخص کو ٹھیک سے سن اور بول تک نہیں سکتا، اس کی شکایت پر یہ مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔

اس مقدمے کی تیسری بات ہماری بدقسمتی اور ہمارے عدالتی نظام میں موجود بے انتہا گہری خامیوں سے عبارت ہے اور وہ یہ کہ اتنی خراب گواہی اور اتنی خستہ حال شکایت پر بھی اس شخص کو مقامی عدالت کے ساتھ ساتھ ہائی کورٹ تک سے سزا کس طرح ہو گئی۔

اس مقدمے کی چوتھی بات، جو شاید بدقسمتی سب سے زیادہ افسوس ناک اور دکھ انگیز ہے اور جو شاید اس بے گناہ شخص کی مقامی اور پھر ہائی کورٹ تک سے سزا کا باعث بھی بن گئی، وہ تھی خوف۔ محمد منشا کے وکیلِ صفائی نے مقدمہ جیت جانے کے بعد بھی اپنا نام تک ظاہر کرنے سے معذرت کر لی۔ انہیں خوف تھا کہ محمد منشا کا مقدمہ لڑنے کی بنا پر انہیں بھی غیرمعمولی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یعنی کسی شخص کو انصاف دلوانے والے کو انصاف دلوا دینے کے بعد مذہبِ انصاف کے پیروکاروں سے خطرات لاحق ہیں؟

شاید یہی خوف تھا، جس نے مذہب عدل کے مقابلے میں ناانصافی کو مقامی عدالت سے بھی اور پھر ہائی کورٹ سے بھی اس شخص کو سزا دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

اس مقدمے کی کم زور حالت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ وکیل استغاثہ جسے محمد منشا کی سزا کو بحال رکھنے کے لیے عدالت میں کیس لڑنا تھا، اس کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں شواہد اتنے کم زور اور گواہی اتنی خامیوں سے بھرپور ہے کہ محمد منشا کو رہا ہونا ہی تھی۔

پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت سے متعلق قانون پر اب تک میں نے ملک کے جتنے بھی دانش وروں سے بات کی، جتنے بھی علامہ اور اسلامی اسکالرز سے گفت گو ہوئی، جتنے بھی مذہبی رہنماؤں سے مکالمت کا موقع ملا، حیرت انگیز طور پر سبھی کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ ملک میں موجود اس قانون کا کم از کم پروسیجرل حصہ ضرور تبدیل کیا جانا چاہیے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی پرچہ کون کاٹے گا، تفتیش کس طرح ہو گی، پرچہ کاٹنے سے قبل کن باتوں کا خیال رکھا جائے گا یا اس سلسلے میں گواہی یا مقدمے کا معیار کیا رکھا جائے گا یا جھوٹا الزام عائد کرنے والے کو سزا کیا دی جائے گی؟

اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ تمام تر مکاتب فکر کے مطابق اس قانون کے پروسیجرل حصے یا عمل درآمد کے حصے میں سقم کے باوجود کوئی شخص اس میں تبدیلی کی بات نہیں کرتا۔ کم از کم اب تک کسی ملا، کسی مولوی، کسی مذہبی عالم نے اتنی ہمت نہیں کی کہ کھل کر عوام کو بتائے کہ قانون کے اصولی حصے پر گفت گو کو ایک طرف رکھیے مگر پروسیجرل معاملات اسلام نے نہیں ہم نے خود طے کیے ہیں اور ان میں بڑی خامیاں موجود ہیں۔

پیمبر اقدس کا تو عدل کی بابت یہاں تک کہنا تھا کہ اگر انصاف کی بابت شک کا احتمال پیدا ہو جائے، تو ایسی صورت میں کسی بے گناہ کو نادرست سزا دینے کی بجائے کسی گناہ گار کو چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔

کچھ احباب اس قانون میں موجود سقم کی بابت یہ دلیل دیتے ہیں کہ دیگر قوانین میں بھی تو سقم ہیں، مثال کے طور پر پاکستان میں تین سو دو یعنی سزائے موت کا مقدمہ بھی تو کسی بے گناہ کو پھانسی دے سکتا ہے، یا کسی کو غلط الزام میں چوری کی سزا بھی تو ہو سکتی ہے اور یہ دلیل دیتے ہوئے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ہمارے پینل کوڈ میں موجود دیگر قوانین گوروں یا ہمارے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں خامی اور کوتاہی ہونا کوئی غیرمعمولی بات نہیں اور ان پر کھل کر بات بھی کی جا سکتی ہے، مگر ایک قانون جسے اسلام، پیمبراسلام یا اللہ سے جوڑا جا رہا ہو اور اس میں اس انداز کی خامی یا کسی بے گناہ کو سزا دیے جانے کا اندیشہ ہو تو ایسے سقم کو ختم کرنا دیگر قوانین کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہے، کیوں کہ یہ خود توہین مذہب کے زمرے میں آ سکتا ہے۔

مذہبِ عدل و انصاف کی توہین اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ اس کے نام پر بنائے جانے والے ایک قانون کی وجہ سے کوئی بے گناہ مارا جائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ایسے مزید کتنے محمد منشا مختلف جیلوں میں سڑ رہے ہوں گے؟

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ذاتی عناد، بغض، حرص و ہوس، انتقام اور نجی مفادات کے لیے لوگوں نے پیمبر رحمت و اقدس اور مذہب عدل و انصاف سے جڑے اس پاکستانی قانون کا استعمال کرتے ہوئے بے گناہ لوگوں کو پھنسایا ہو گا؟

یہ سوال بھی بنتا ہے کہ محمد منشا کے جیل میں گزارے گئے یہ نو سال کون لوٹائے گا؟

اور اس سے بھی بڑھ کر یہ سوال کہ محمد منشا جیسے کتنے مزید افراد بے گناہ ہونے کے باوجود مختلف جیلوں میں پڑے انصاف انصاف پکار رہے ہوں گے؟