ثقافت ،مذہب سے زیادہ طاقتور کیوں ہے؟

شہزاد فرید

مجھے یاد ہے جب چارلی ہیبڈو نے رسولِ خداؐ کے خاکے شائع کئے تھے تو UKکے مسلمانوں نے اس پراحتجاج نہیں بلکہ حسنِ احتجاج کیا ، ان لوگوں نے سڑک کے سٹاپ پر قرآن کا سٹال لگایا اور ہرراہ گیر کو انتہائی محبت سے قرآن بطورتحفہ پیش کرتے ہوئے کہتے “You need to know our Prophet (PBUH)”کیونکہ قرآن سے بہتر اور کون انسانیت کے رہنما کا خاصہ بیان کر سکتا ہے۔مگر ہمارے ہاں تبلیغ گالم گلوچ کےمترادف ثابت ہورہی ہے۔

ایسے ہی شدت پسندانہ رجحانات نے ایک محافظ کو قاتل بنا دیا مگر عام آدمی ابھی تک پریشان ہے کہ کون صحیح ہے کون غلط کیونکہ علماء حضرات میں ایک گروہ اس قتل کوافضل فعل قرار دیتا ہے اور دوسرا اس کو غیر شرعی۔ جب مطلق علم کی تشریح دو انتہاؤں میں بٹتی ہے تو انتخابِ علم رجحان کی بنیاد پر طے ہوتا ہے علم کی بنیاد پر نہیں اور ہماری یہی بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں رجحان ہی مذہبی علم کی اساس بن گیا ہے اور مذہبی بحث،رجحان کا دفاع قرار پائی جس کے نتیجے میں جب ایک مسلمان دین کے نام پر کسی غریب کی موٹر سائیکل جلاتا ہے ، کسی کو گالی دیتا ہے یا کسی کو قتل کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو خدا اور اس کے رسولؐ کےزیادہ قریب محسوس کرتا ہے اور اسی غیر اخلاقی عمل کو اخلاق کے اعلیٰ درجے پہ فائز ہونے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

ایسے اعمال جذبات کے تابع ہوتے ہیں اور جذبات عقل کےمخالف سمت سفر کرتے ہے دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ مطلق علم کی تشریح بھی کس حد تک جذبات کے ساتھ منسلک تو ہوتی ہی ہے مگر جذبات رجحان کے تابع ہوتے ہیں اگر یہ رجحان عقلی ہو تو جذبات کے اثرات کی تخصیص ہوتی ہے اور اگررجحان جذباتی ہوتو عقل کے تقاضے کمیاب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ رجحان بے شک جذباتی ہو یا عقلی اسے ان دونوں کی تخصیص کی بجائے کشید کے فرائض سر انجام دینے چاہئےلیکن مذہبی نظریات میں بٹنے والے دھڑے اس عملِ کشید سے دور ہوتےجارہے ہیں اور عقلی رجحان کے پجاری Dark Agesکےضدی رویوں کی صورتِ جدیدہے جسے وہ دورِ حاضر کا اعجاز تصور کرتےہیں ۔ دونوں اپنے رجحان کو اپنی اساس بنائے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کا تانا باناعملاً ثقافت کومذہب سے افضل بنادیتا ہےمثلاً اسلام میں جہیزکی کیا اہمیت ہے ہم سب جانتے ہیں لیکن ثقافت اس معاملے میں مذہب کو دخل اندازی کی اجازت نہیں دیتی، بیوی اپنے شوہر سے بچے کو دودھ پلانے کی اجرت مانگ سکتی ہے مگر ثقافت ایسی مانگ کو اخلاقی تقاضوں میں ضم کر دیتی ہے۔

درحقیت افراد کی زندگی کا زیادہ تر حصہ مذہبی عمل کی نسبت ثقافتی عمل میں گزرتا ہےاس لیے رجحان ثقافتی منطق کو جنم دیتا ہے جس سے جذبات کا درجہ عقل سے افضل ہوجاتا ہے کیونکہ ثقافت کو معمار نہیں بلکہ پیروکار درکار ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب ہم معاشرے کے ہر پہلو حتیٰ کے مذہب کو اپنے رجحان کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو تنقیدی اور تقابلی سوچ ہوا ہوتی جاتی ہےجو آنے والی نسلوں کے لیے ایسی آب و ہواتیار کرتی ہے جسے محض خبر کیا جاسکتا ہے تبدیل نہیں، اسی طرح جو رجحان ثقافت میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیتا ہےوہ نسل در نسل پھلتا پھولتا ہے اسی سبب میں ثقافت کو مذہب سے زیادہ با اثرسمجھتا ہوں۔

اسی طور سیاسی ثقافت عملاً مذہبی سیاست سے برتر ہے جس کی مثال اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام ہی واضع کر دیتا ہے، بھٹو کے اسلام میں اشتراکی اقتصادیت کا تصور اس کی زندہ مثال ہے جس ملک میں فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی جمہوریت کا نعرہ لگائیں جن کی نظریاتی بنیاد ہی خلافت ہے وہاں ثقافت کی طاقت سب طاقتوں کی ماں خیال کی جاسکتی ہے۔اس کے باوجود ہم صُمّم بُکْم عُمْی فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْن ہیں کیونکہ ثقافت افراد پر مذہب سے زیادہ اثر رکھتی ہے اور ثقافتی سیاست کرنے والے سیاسی تغیر یا تغیر کی سیاست سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔