سندھ کی بیٹیاں اپنے پیاروں کی منتظر ہیں

نبیل ابڑو

یہ آوز اب صرف سندھ تک ہی محدود نہیں رہی اب یہ آواز تیز ہوکر کم و بیش پورے ملک میں دن بہ دن زور پکڑتی جا رہی ہے یہ آواز درد سے بہری ہوئے ہے یہ آواز اس 12 سالہ بچی وفا چنا کی ہے جس کا والد غالباً 8 ماہ سے لاپتہ ہیں اس بچی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے بابا کس حال میں ہیں، سندھ کی بیٹیاں سسئی اور تنویر بھی نہیں جانتیں کہ ان کے والد کس حال میں ہیں اور کہاں ہے، گذشتہ ایک سال سے یہ بیٹیاں اپنے والدین کی تلاش میں ہیں، مختلف شہروں میں احتجاج کرنے اور بار بار اعلیٰ حکام کو خط لکھنے کے باوجود ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، ان سب کے گھروں میں اس دن سے صف ماتم بچھی ہوئے ہے جس دن ان کے پیاروں کو اٹھا کر گم کر دیا گیا ہے۔

20 مئی کو کراچی پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے تین روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کی گئی جہاں پولیس و رینجرز والوں نے احتجاج کرنے والی پر امن بیٹیوں کی تذلیل کی، ان کے کپڑے پھاڑے گئے۔

احتجاجی کیمپ پر بیٹھی سندھ کی ان بیٹیوں کے ہاتھوں میں نہ تو کوئی ہینڈ گرنیڈ تھا اور نہ ہی کوئی کلاشنکوف سندھ کی ان بیٹیوں کے ہاتھوں میں تو صرف اپنے پیاروں کی تصویریں تھیں جو کئی ماہ سے لاپتہ ہیں، پہر بھی دن دہاڑے بلا جواز ان کی تذلیل کی گئی اور کپڑے پھاڑے گئے۔

اس واقعے نے سندھ کے لوگوں کو ایک ہونے کا موقع فراہم کیا اور اس واقعے کے رد عمل میں سندھ کے شعور میں ایسی چنگاری اٹھی جو اب آسانی سے بجھنے والی نہیں. اس واقعے کے بعد سندھ کے نوجوان نسل کو بڑی تعداد میں مختلف شہروں میں متحرک ہوتے دکھ رہے ہیں نوجوانوں کے اس عمل سے اس بات کا اندازہ لگانا آسان ہوگیا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی و سماجی حالات پر کتنی حد تک واقف ہیں۔

سسئی سے لے کر وفا چنا تک جن بھی بیٹیوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جو آواز اٹھائی ہے، وہ کم از کم یہ ثابت کرنے میں کامیاب گئی ہیں کہ صرف کھوکھلے نعروں اور مذمتی بیانات سے کچھ نہیں ہوتا عملی طور پر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے سے ہی ظالم کو شکست دی جاسکتی ہے۔

سندھ میں جبری طور پر گم کرنے والا عمل کوئی نئی بات نہیں ہے یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے، شروع میں تو صرف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو اٹھا کر لاپتہ کردیا جاتا تھا پر اب تو سندھ کے اس شعوری لوگوں کو اٹھایا گیا ہے جو دوسرے لوگوں میں شعور کی شمع روشن کرتے ہیں، نصیرآباد سے لاپتہ ترجمہ نگار ننگر چنا کو کس جرم میں لاپتہ کردیا گیا ہے، ننگر چنا تو ایک ترجمہ نگار ہیں جن کا کام ہی کتابوں کا ترجمہ کرنا ہے وہ کتابوں کا ترجمہ کرنا ہی ان کا ذریعہ معاش ہے ترجمہ کر کے ہی وہ اپنی اور اپنے بچوں کے پیٹ کی دوزخ کرتے ہیں، ننگر چنا کی بازیابی کے لئے ان کے بچے اور بھائی گذشتہ آٹھ ماہ سے سراپا احتجاج ہیں. صرف ننگر چنا ہی نہیں بلکہ انعام عباسی جو ایک مصنف ہیں ان کا بھی کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں جبکہ ہدایت لوہار بھی سندھ کے نوجوان نسل کو شعور کی شمع روشن کرنے کے الزام میں ہی لاپتہ ہیں. ان سمیت اس وقت کم و بیش 146 افراد لاپتہ ہیں. اس بات سے یہ اندازہ لگانا آسان ہوگیا ہے کہ ان افراد کو گمشدہ کرنے والے جو بھی ہیں وہ سندھ کے اس شعور سے کس قدر خوفزدہ ہے۔

کراچی سے اٹھنے والی لاپتہ افراد کی آواز اب سندھ ہی تک محدود نہیں رہی بلکہ اسلام آباد میں بھی مہران سٹوڈنٹ کونسل کی جانب سے 3 روزہ ہڑتالی کیمپ لگائی گئی جس کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اکھاڑ تو دیا لیکن طلباء کہ اس عزم کو ختم نہیں کرسکے اور اسلام آباد میں کھلے آسمان تلے احتجاج جاری رہا اور ملک کے دارالحکومت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے آواز اور بھی تیزی سے گونج آٹھی اور اسی آواز کے تسلسل میں حیدرآباد میں بھی نوجوانوں کی جانب سے تین روزہ بھوک ہڑتال کی گئی اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے آج سندھ کے مختلف شہروں میں پرامن احتجاج کیے جا رہے ہیں. اگر چہ یہ تحریک اتنی بڑی نہیں پر اس تحریک کے مقاصد بہت بڑے ہیں اور اسی تحریک کی بدولت سندھ کو کامریڈ ثناء اللہ امان کی شکل میں پڑھے لکھے اور صبر قسم کے لیڈر ملے ہیں۔

اگرچہ اس واقعے کی خبر سوائے چند ایک اخبارات کے سوا کسی نے بھی شایع کرنے کی توفیق نہیں کی تاہم کسی ایک بھی نیوز چینل نے اس واقعہ کو رپورٹ نہیں کیا اس کے باوجود یہ ساری خبریں اور پل پل کی خبر اور تقریریں ہم نے سوشل میڈیا سے حاصل کی ہیں اور اس ساری تحریک کا محور اگر سوشل میڈیا کو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

مسنگ پرسنس والے سارے معاملے میں سندھ کی کسی بھی سیاسی جماعت کا کردار اتنا اچھا نہیں رہا اور نہ ہی کسی قومپرست پارٹی اس سنگین معاملے میں آواز اٹھائی ہے تعریف کے قابل ہے وہ نوجوان نسل جس نے اس آواز کو تیز کرکے سوشل میڈیا کے توسط سے پوری دنیا میں پہلیا سندھ کے اس شعور نے یہ ثابت کردیا کہ ہمیں آواز اٹھانا آتی اور جدوجہد کرنا بھی ہم جانتے ہیں۔

لاپتہ افراد کے ورثاء کا سادہ سا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو آزاد کیا جائے اگر ان پر کوئی کیس ہیں یا انہوں نے کو جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں لایا جائے کیس چلائے جائیں پاکستان کے آئین کے مطابق انہیں سزائیں دیں جائے باقی یہ تو کو تک نہیں اٹھا کر گم کردیا جائے اور جب بازیابی کیلئے آواز اٹھائی جائے تو ان کے کپڑے پہاڑ کر ان کی تذلیل کی جائے. چیف جسٹس پاکستان جناب میاں ثاقب نثار صاحب سندھ کی یہ بیٹیاں نہ جانے کتنے دنوں سے اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے ہوئے ہیں، ان کی خوشیاں حرام ہیں، یہ روز ایک درد سے گزرتی ہیں، اب آپ ان کے پیاروں کو خدا کے واسطے واپس کروائو اور ان کے دردوں کا درمان کرو۔