صلاح الدین کا مشکل سوال

عابد حسین

تاریخی لحاظ سے وہ پتھر کا  زمانہ تھا کہ جب لوگ صرف آقا اور غلام دو حصوں میں تقسیم تھے، آقا ہی مملکت کا حاکم سپہ سالار اور قاضی ہوا کرتا، غلاموں کا ایک ہی کام آقا کی تابعداری اور اطاعت کرنا ہوتا۔ رعایا کو کسی بھی ظلم اور تکلیف پر شکوہ و آہ زاری کی اجازت حاصل نہ تھی، اس زمانے میں انسان خود بھی انسانی حقوق،قانون اور عدالت کے نام سے واقف نہ تھا طاقت ہی اصل قانون تھا اور طاقت ہی سب سے بڑی عدالت تھی اگر کوئی کمزور ہوتا تو اس کے جینے کی شرطِ لازمہ صرف غلامی کرنا تھی کہ اس نے اپنے زیادہ طاقتور کا ہر حکم ماننا ہے۔

مگر پھر انسانی شعور نے انگڑائی لی، انسان نے عقل کے بل بوتے پر غلامی کی زندگی کو حقیر سمجھنا شروع کیا اور پھر غلامی کی زندگی بسر کرنے سے انکار کر دیا خود پر ہونے والے ظلم کو سمجھ لیا، اس پتھر کے زمانے سے نکلتے بھی اگرچہ انسان کی صدیاں صرف ہوئیں لیکن خیر جان چھوٹی خدا خدا کر کے، بالآخر انسان نے عظمت کی بلندیوں کو پا لیا سب انسان برابر ہیں، سب کے حقوق ایک سے ہیں ۔ سب کو آزاد رہنے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے کی اصلاحات نافذ ہوئیں طاقت کی بجائے دلیل کا زمانہ شروع ہوا آقا اور غلام کا تصور ایک جرم سمجھا جانے لگا۔

قانون سب کےلیے یکساں ہوا اور عدالتی ترازو کا تصور بھی معرضِ وجود میں آیا یوں انسان ایک مہذب زمانے میں پر امن اور قابلِ فخر زندگی گزارنے لگا ۔

ان تمام مکافات کے باوجود مجھے اب یہ لکھتے ہوئے شرمساری محسوس ہو رہی کہ ہم اب پتھر کے زمانے سے نکل آئے ہیں اور ایک مہذب دور میں جی رہے ہیں۔

کیونکہ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے ہی میں اس دور کو مہذب دور لکھوں گا تو صلاح الدین میرا منہ چڑھانے لگ جائے گا اور کہے گا کہ یہ کیسا مہذب دور ہے؟

یہ مہذب دور والی اپنی بکواس لکھنا بند کرو اور ہہ میرا جلا ہوا جسم دیکھو میرے جسم پر تمہیں گہرے کالے نیلے نشان نظر آ رہے ہیں؟

یہ ظلم مجھ پر پتھر کے زمانے میں نہیں ہوا بلکہ کل ہی تمہارے مہذب دور کے محافظوں نےمجھ نیم پاگل شخص پر تشدد کر کے میرے جسم کی چمڑی تک ادھیڑ ڈالی۔

مہذب زمانے کے جھوٹے تعریفی پُل مت باندھو مجھے تو یہاں پانی مانگنے پر پہلے جانوروں کی طرح زبان باہر نکالنے کا کہا گیا ۔ مہذب زمانے کی کوئی عدالت اور قانون ہے کہ جو دہائی دیتی میری ماں صلاح الدین نہیں دے سکتی مگر  انصاف تو دے سکتی ہے۔

صلاح الدین میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں تم ذرا یہ منہ بنانا ختم کرو پلیز اس سے مجھے شرمساری ہو رہی میں تم معافی کا طلبگار ہوں  واقعی یہ مہذب دور نہیں بلکہ یہ پتھر کے زمانے سے بھی گیا گزرا حیوانی زمانہ تم سے پہلے  وزیرستان میں بھی محافظوں کے لگائے کرفیو میں مرنے والے بچے تڑپتے رہے، کراچی میں رینجر افسر کے سامنے ہاتھ جوڑے زندگی کی بھیک مانگتا جوان رو.کر کہتا رہا مجھے مت مارو مگر عوام کی حفاظت کےلیے لی گئی بندوق سے اسے گولیاں مار کر چھلنی کر دیا گیا۔

نقیب اللہ محسود کی روح تو آج بھی مخاطب ہے کہ اپنے دل ہر ہاتھ رکھ کر کہو کہ کیا میں دہشتگرد تھا؟

سانحہ بھابھڑہ میں اپنی ہی پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے چھ سو نہتے خدائی خدمتگار ہوں یا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی خواتین، سانحہء ساہیوال کے یتیم بچے ہوں یا بلوچستان کے بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں پر ماؤں کے نوحے ہوں یہ سب واقعی کسی مہذب دور ہونے کی ہرگز علامتیں نہیں ۔ صلاح الدین درد سے کراہتے ہوئے بولا کہ اللہ تینوں حج کرائے تے فیر چھیڑ ملنگاں نوں، بس کل کشمیر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر احتجاج ضرور کرنا کہ وہاں کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق غصب ہو چکے ہیں اور پاکستان کی شہہ رگ پر خنجر دھرا ہے جبکہ تمہیں اپنے گھر(پاکستان) کے قصے لیے بیٹھے ہو۔