فحاشی اور عورت کا جسم

عفاف اظہر

آخر کیا بلا ہے یہ فحاشی؟ جسے صدیوں سے حلال و حرام کی مالائیں پہنا کر گناہ و ثواب سے جوڑ کر ہمارے ہاں ایسی درگت بنائی جاتی ہے کہ پھر سارا وبال عورت کے برہنہ جسم پر ہی آ کر ٹوٹتا ہے۔ جبکہ فحاشی کا کوئی تعلق بھی عورت یا عریانیت سے نہیں بلکہ حتمی طور پر مرد کی بیمار ذہنیت سے ہے۔ ہاں یہ لفظ فحاشی کہیں باہر نہیں بلکہ صرف اور صرف ایک تنگ نظر معاشرے کی بیمار سوچ کے اندر ہی پایا جاتا ہے اور یہ عورت کے جسم سے نہیں مرد کی ذہنیت سے جڑا ہے۔

ورنہ کیا یہ کھلا تضاد نہیں اور کیا سرا سر ظلم نہیں؟ کہ اپنی جنم بھومی پرفخر کرنے والا جائے پیدائش پر اترانے والا، گاؤں گلیوں شہر چوراہوں، جہاں اس کا بچپن گزرا، جوانی گزری کی انمٹ یادوں کو سینے سے لگائے پھرنے والا یہ مشرقی مرد، اپنے جنسی عضو کو مردانگی سے تشبیہ دینے والا یہ ابن آدم، نت حوا کے اعضاء نسوانی پر غیرت کھاتا اور شرم سے ڈوب ڈوب مر تا ہے ؟ آخر یہاں اس کی سوچ مرد و زن کی اتنی جنسی تفریق کیوں کرتی دیکھائی دیتی ہے؟

جس کوکھ میں اسے ایک نطفے سے جان ملی، نو ماہ تک جس جسم میں رہ کر اس نے ایک وجود کی شکل اختیار کی، پھر ان نسوانی اعضاء نے تکلیف کی ایک شدت سے گویا زندگی و موت کی کشمکش سے گزر کر اس کے ننھے سے وجود کو اپنی کوکھ سے الگ کیا، ایک نئی دنیا میں سانس لینے کے قابل بنانے کے لیے، اور پھر اپنی چھاتیوں سے اترتا من و سلویٰ اس کے نازک بدن میں انڈیل انڈیل کر اس ننھی سی کونپل سے تناور درخت بننے تک قدم قدم پر اس کی اپنی جان سے بڑھ کر حفاظت کی۔ اور پھر اسی درخت نے جونہی اپنی شاخیں پھیلائیں اور بلندی کی طرف رفتار بڑھائی تو اسے اپنی ہی یہ جڑیں خود سے حقیر نظر آنے لگیں خود سے کہیں کمتر دیکھائی دینے لگیں۔
کبھی ان جڑوں کی ساخت اس کی ذلت کا موجب بنی تو کہیں ان کی بناوٹ پراس کی غیرت رہ رہ کر جاگنے لگی۔ واہ یہ کیسا بے تکا فلسفہ ہے،اس مشرقی مردانہ ذہنیت کا بھی۔ اصولا تو اس غیرت اور عزت کے استعمال کا اگر کسی کو حق ہوتا تو وہ صرف ان جڑوں کو ہوتا درختوں کو ہرگز نہیں، ہاں یہ حق جڑوں کا ہی تو بنتا ہے کہ وہ اپنے وجود سے نکلی ان کانٹے دار جھاڑیوں کو دھتکار سکیں اور پھلدار درختوں پر فخر کر سکیں۔

یہ بنت حوا یعنی کہ ہر بچی اس دنیا میں آنکھ کھولتے ہی ایک نسل کی ماں ہے، چاہے روپ کمسن بچی کا ہو، نوجوان بہن کا، بیوی کا یا پھر ماں کا، مگر اس کا وجود روز ازل سے اتنا ہی اور ایک سا ہی مقدس ہے ۔ ہاں یہاں یہ بڑا فرق اس مرد و زن میں جنسی تفریق پیدا کرتی اس غلیظ و مکروہ روایتی سوچ کا ہے، جو عورت کو انسان سے کہیں زیادہ مرد کی ملکیت قرار دیتی ہے۔ اور یہ سارا فحاشی کا گند بھی اسی گھٹیا ذہنیت کا مچایا ہوا ہے ،جنہیں آج تک اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آ سکی کہ نسوانی وجود کا مرد کی عزت سے کوئی ناطہ نہیں بلکہ وہ خود اس کے اپنے لیے ایک انفرادی تقدس رکھتا ہے، جو کسی طور بھی ابن آدم کی غیرت نہیں بلکہ صرف نو ع انسان کے فخر کا موجب ہے۔