وانا کے بچے ہمارے بچے نہیں

عاطف توقیر

کل کم از کم پچیس پیغامات کے ذریعے وانا کے ایک زخموں سے چور بچے کی تصویر مجھے تک پہنچی۔ یہ تصویر سوشل میڈیا پر بھی گشت کرتی رہی۔ معلوم نہیں یہ بچہ زخمی تھا یا اپنی جان کی بازی ہار چکا تھا یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ تصویر وانا ہی کی ہے یا کہیں اور کی کیوں کہ وزیرستان مین کامیاب آپریشن کے دعوے اپنی جگہ مگر آزاد میڈیا یا صحافتی اداروں کی رسائی اس علاقے تک نہیں ہے۔ خیر اس تصویر کو ایک طرف رکھ دیں تو بھی وہاں کی تصویر اس تصویر سے مختلف نہیں۔ مگر تعجب ہے کہ اس پر نہ کوئی واویلا نظر آیا، نہ میڈیا کے کیمروں نے اسے جگہ دی، نہ بھاری بھاری تنخواہوں والے اینکروں کو اس بچے یا متاثرہ افرادکے زخم دکھائی دیے، نہ حکومتی ایوانوں میں کوئی کھلبلی مچی اور نہ ہی عادل وقت کے کانوں پر کوئی جوں رینگی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ سن 2015 میں غالباً اگست کا مہینہ تھا جب ترک ساحل پر ایک شامی مہاجر بچے ایلان کردی کی مردہ حالت میں الٹے لیٹے ایک تصویر سامنے آئی تھی اور یورپی خصوصاً جرمن شہریوں نے یورپی یونین کے مہاجرت سے متعلق ہر معاہدے پر لعنت بھیجتے ہوئے یونان کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ گاڑیوں کے قافلوں کے قافلے نکل رہے تھے اور شامی مہاجروں کو تمام سرحدیں عبور کروا کر جرمنی پہنچا رہے تھے بلکہ اپنے گھروں میں جگہ دے رہے تھے۔

سوڈان میں قحط کے دوران ایک بچے کی تصویر سامنے آئی تھی، جس میں ایک بھوک سے نڈھال ہو کر پنجر میں تبدیل ہو جانے والا بچہ اپنے نحیف ہاتھوں کے سہارے سے خوارک بانٹنے والے کیمپ کی جانب جا رہا تھا اور اس کے پیچھے ایک گدھ نظر آ رہا تھا جو اس کی موت کا منتظر تھا۔ اس تصویر سے دنیا میں ہلچل مچ گئی تھی اور طیاروں کے طیارے سوڈان میں امدادی سامان لے کر پہنچ گئے تھے۔

دور جانے کی بھی ضرورت نہیں کچھ عرصے قبل جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دی جانے والی قصور کی بیٹی زینب کی تصاویر سوشل میڈیا پر سامنے آئیں تھی، تو پورے پاکستان کی آنکھیں نم اور وجود میں غم و غصہ بھر گیا تھا اور سب نے یک سو ہو کر نہ صرف اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف فوری اور ٹھوس کارروائی کا مطالبہ کیا تھا بلکہ حکومت، چیف جسٹس، چیف آف آرمی اسٹاف، سیاسی رہنما اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدے دار اس مقام پر اہل خانہ کو دلاسا دلانے پہنچ گئے تھے یا ان سے ٹیلی فون پر بات کرتے نظر آتے تھے۔

مگر عجیب بات یہ ہے کہ وانا کا یہ بچہ جو متعدد دیگر افراد کے ساتھ دہشت گردوں کی کارروائی کا نشانہ بنا، ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ نہیں پایا۔میں اس بچے کا نام نہیں جانتا مگر مجھے یقین ہے کہ اس کی مسکراہٹ بیٹی زینب سے ہرگز مختلف نہیں ہو گی۔ میں یہ تصویر دیکھ کر ساری رات نہیں سو سکا اور آنکھیں ہیں کہ سوچ کر ہی نم ہو جاتی ہیں، کہ اس علاقے کے معصوم بچے کس کرب سے گزر رہے ہوں گے۔ میں عموماً ایسی خون آلود تصویریں کسی بھی مضمون یا اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شئیر نہیں کرتا میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے دیکھیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ کاُ کلیجہ پھٹ جائے اور آپ میری طرح اس بچے کے زخموں کا کرب محسوس کریں۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ آیا یہ سوشل میڈیا پر نظر آنے والی یہ تصویر اصل ہے یا کسی اور جگہ کی ہے۔ بدقسمتی سے وزیرستان میں آباد صحافتی اداروں کی کوئی رسائی نہیں اور وہاں سے آنے والی خبریں یا تو فوج کی وساطت سے ہم تک پہنچتی ہیں یا مقامی لوگوں کی وساطت سے۔ ان کر عام، ویڈیوز یا تصاویر کی تصدیق ایک ناممکن عمل ہے۔

میڈیا پر اس بچے بلکہ اس پورے واقعے کو کوئی جامع رپورٹ نہ چلی، چیف جسٹس صاحب جن کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ہسپتالوں کے دورے کر کے زخمیوں اور بیماروں کے ساتھ تصاویر کھچوا کر لطف آتا ہے، وہ بھی وانا کے ان زخمیوں کی عیادت کرنے یا کم از کم تصویر ہی کھچوا نے نہ پہنچے۔ تصویر کھچوانا یا عیادت تو دور کی بات کوئی مذمتی بیان ہی دے دیتے کہ ان متاثرہ پاکستانیوں کو معلوم ہوتا کہ ریاستی ایوانوں میں کوئی تو ایسا ہے جو ان کے دکھ محسوس کر سکتا ہے۔

چیف آف آرمی اسٹاف یا فوجی تعلقاتِ عامہ کا شعبہ تو ظاہر ہے اس بارے میں کیا بولے گا۔ وانا کے جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا اس سے چند سو گز دور فوجی اڈہ ہے مگر دہشت گرد مکمل سکون کے ساتھ نہتے شہریوں پر گولیاں برساتے رہے اور عام افراد علی وزیر کو بچانے اور ان “گڈ طالبان” نامی امن کمیٹی کے دہشت گردوں کو روکنے کے لیے انہیں اینٹیں مارتے رہے۔

ملک میں اس وقت نگران حکومت ہے، جس کا بنیادی کام انتخابات کروانا ہے مگر کاش اسی کی جانب سے کوئی سخت بیان آ جاتا۔

مگر معاملہ یہ ہے کہ زخمی یا ہلاک ہونے والے لوگ ہماری نگاہ میں کسی اہمیت یا ہم دردی کا مستحق نہیں۔

ہم ایک ایسی منافقانہ دلدل میں دھنس چکے ہیں جہاں ہمیں کشمیری بچوں کے دکھ پوری شدت سے دکھائی دیتے ہیں (جو دکھائی دینا بھی چاہئیں)، برما کے روہنگیا کا کرب بھی محسوس ہو جاتا ہے (جو ہونا بھی شاہئے)، شامی بچوں کی چیخیں بھی سنائی دیتی ہیں (جو سنائی دینا بھی چاہئیں) اور فلسطینیوں کا دکھ بھی ہمیں سونے نہیں دیتا (جو واقعی اس دنیا کے ضمیر پر ایک بڑا بوجھ ہے)، مگر ہمارے اپنے ملک میں ہمارے اپنے لوگوں کو ہماری اپنی بندوق، ہماری اپنی پالیسیوں اور ہماری اپنی مصلحتوں کے ہاتھوں پہنچنے والے کسی زخم، کسی دکھ، کسی تکلیف کا ہمیں کہیں احساس نہیں ہوتا۔

گلگت بلتستان کے لوگ روتے ہیں مگر نہ میڈیا کا کیمرہ ان کا دکھ دکھاتا ہے نہ سوشل میڈیا پر ہاہاکار مچتی ہے، بلوچ گم شدہ پیاروں اور مسخ شدہ لاشوں کا نوحہ پڑھتے ہیں مگر نہ ٹی وی اینکروں کو وہ دکھ سنائی دیتا ہے نہ ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کرتا ہے، سندھی اور مہاجر لاپتا افراد کے لیے بھوک ہڑتال کرتے ہیں، کیمپ لگاتے ہیں مگر نہ ٹی وی پر ان کی رپورٹ چلتی ہے اور نہ عدلیہ کے انصاف کے ترازو میں کوئی جنبش ہوتی ہے۔

خدا کرے کہ وانا کا یہ چھلنی بچہ مر گیا ہو کیوں کہ اگر وہ زندہ رہا تو اس کے جسم کا ایک ایک زخم اس قوم، اس ریاست اور اس دستور سے سوال پوچھتا رہے گا۔ اس کی آنکھوں کی وحشت اس ہمارے اجتماعی ضمیر کو گالیاں دیتی رہے گی اور ہمیں چین سے نہیں سونے دے گی۔ اس کے زخموں سے ٹپکتا خون اس دیس کے دستور کی ہر اس شق کو لہولہان کرے گا، جس میں لکھا ہے کہ اس ملک کے ایک ایک شہری کی زندگی کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ بچہ مر گیا تو خدا کے حضور پہنچنے پر ہم اس بچے کی موت اور اپنی خاموشی کا کیا جواب دیں گے؟ ان ججوں، جرنیلوں یا سیاسی رہنماؤں کو تو خیر اگر خدا کا خوف یا جواب دینے کا خیال ہوتا، تو یہ دیس اس وقت آگ اور خون میں لت پت نظر نہ آتا۔