ہم ہنسیں یا روئیں!

شہزاد فرید

انسانی تاریخ میں ایسی اموات واقع ہوئیں جنہیں سُن کے ہم ہنسنے پر مجبور ہو جاتے ہیں مثلاً Zeuxis یونانی مصور تھا، ایک بوڑھی عورت نے اسے دیوی Aphrodite کی ایسی تصویر بنانے کہا جو اس عورت کی خدو خال سے متاثر ہو، جب تصویر مکمل ہوئی تو Zeuxisاپنےمضحکہ خیز شاہکار کو دیکھ کر اتنا ہنسا کہ اس کی موت واقع ہوگئی ۔ Chrysippus of Soli اپنے ہی چُٹکلے پر ہنس ہنس کے مر گیا اس نے ایک گدھے کو انجیر کھانے میں مصروف پایا تو اسے شراب پلا دی، مدہوش گدھے کی حرکات دیکھ دیکھ وہ اتنا لوٹ پوٹ ہوا کہ اسی کے قہقہوں نے اس کی جان لے لی۔ Aeschylus کو کسی Oracle نے بتایا کہ اس کی موت خداؤں کے آسمان سے قہر برسنے پر ہوگی جس نے Aeschylusکو پریشان کر دیا ، وہ یہ سوچ کر گھر سے باہر نکل آیا کہ خدا کے قہر سے دیواریں گرجائیں گی اور وہ ان کے نیچے دب کر مر جائے گا،وہاں ایک عقاب کچھوے کا شکار اپنے پنجوں میں دبوچے اُڑا جا رہا تھا، عقاب اکثر ایسا شکار پہاڑ پر گراتے ہیں تاکہ اس کا خول ٹوٹ جائے مگر شاید عقاب نے Aeschylus کی روشن گنج کو پہاڑ سمجھ کر اس پر اپنا شکار گِرا دیا جس سے Aeschylus کا سر کھل گیا اور اس کی موت واقع ہوگئی۔Darco of Aegina کے بارے میں یہ رائج ہےکہ وہ یونان کا پہلا قانون دان تھا، اس کی زندگی کے بارے میں تو زیادہ علم نہیں مگر اس کی موت بہت مشہور ہوئی۔ ایک مرتبہ وہ تھیڑ کی تقریب میں پہنچا تو تھیٹر کے ناظرین نے اپنی محبت کے اظہار اور Darco کی عزت افزائی کے لئے اس پر اتنی چادریں ، کپڑے ، ٹوپیاں وغیرہ پھینکیں کہ اس محبت کے بوجھ کے نیچے دب کر Darco کی موت واقع ہوگئی۔ گیارہوں صدی کے دوسرے عشرے میں انگلینڈ کا بادشاہ Edmund II تھا جس کی موت کے بارے میں کافی کہانیاں مشہور ہیں ۔ ان کہانیوں میں سے ایک کہانی میں یہ درج ہے کہ اس کا قتل Bathroom میں ہوا جہاں قاتل کموڈ کے نیچے بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا اور اس نے اسی حا لت میں نیچے سے وار داغ کر بادشاہ سلامت کو قتل کردیا ۔ Hans Staininger of Austria ایک ٹاؤن کا مجسٹریٹ تھا۔ کھانا کھانے کے لئے جب ا س نے اپنی روٹی منہ کے جھٹکے سے توڑنے کی کوشش کی تو اپنی ہی گردن تُڑوا بیٹھا۔مشہور مارکسی ، Louis Althusser نےاپنی بیوی کی گردن کی مالش کرتے کرتے اسے مار دیااور بعزت بری بھی ہوگیا۔
کیا آپ کو ان اموات کو پرھتے وقت ہنسی آئی ؟ اگر آئی ہے تو آپ کو مبارک ہو کیونکہ آپ ایسے معاشرے کا حصہ ہے جس کے افراد ہنسی کو اتنا ترس گئے ہیں کہ وہ کسی کی موت میں دکھ سے زیادہ مزاح پر توجہ دیتے ہیں، میں ایسے ہی مزاح کا چند دنوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں۔یہ مزاح اُن دو خطرناک دہشگردوں کا بہانہ بنا کر کیا جارہا ہے جن کے ماں باپ کو ان کی آنکھوں کے سامنے بے دردی سے گولیاں ماردی گئیں۔تمام سیاسی جماعتوں کے کارکناں ان دہشتگردوں کی آڑ میں اپنی اپنی سیاسی جماعت کا دفاع کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک جماعت دوسری کو بتا رہی ہے کہ جناب ماڈل ٹاؤن کے واقع بھی ہوا تھا ، اس پر آپ خاموش تھے مگر اب اگر دو تین لوگ مارے گئے ہیں توبہت شور مچا رہے ہیں۔دوسری جماعت کے کارکنان کھلکھلا کر ہنستے ہیں کہ ماڈن ٹاؤن پہ بہت شور ڈالا تھا ، اب آیا اُونٹ پہاڑ کے نیچے ! ایک جماعت کے کارکنا ن یہ باور کر وا کر ہنس رہے ہیں کہ جناب ہم نہ کہتے تھے کہ مدینے کی ریاست چودہ سو سال پرانی ہے، ہمیں تعجب ہے کہ یہ قتل اونٹوں پر بیٹھ کے تلواروں سے کیوں نہیں ہوا، اس واقع میں جدید اسلح استعمال ہوا ہے مدینے کی ریاست میں ایسا اسلح حرام ہی ہوگا اس لیے یہ قتل شاید جرمنی میں یا پھر انگلینڈ میں ہوئے ہیں۔ایک جماعت یہ بتا رہی ہے کہ مدینہ کی ریاست ، ہماری حکومت کے بغیر ناممکن ہیں کیونکہ اس ریاست کے کوپی رائٹس ہمارے پاس ہیں۔ سب کو معصوم لوگوں کی لاشوں اپنی دلیل کا ثبوت دکھائی دے رہی ہیں ۔
سب سیاسی کُشتی میں مصروف ہیں کیونکہ ہمیں ایک دوسر ے کو پچھاڑنے کا بہانہ چاہئےلیکن ایک بات تو واضع ہے کہ ہم جتنے بھی سیاسی ہوجائیں اس معاشرے نے اخلاقیات اور احساسات کا اجتماعی قتل کیا ہے اوریہ قتل بڑی محنت و مشقت کے بعد اپنا رنگ لا رہا ہے۔ ان بچوں کے پاس ہر جائز وجہ ہے کہ وہ بڑے ہو کر اس ملک کے خلاف بندوق اُٹھا لیں ویسے بھی دہشتگرد پیدا کرنے اور انہیں تیار کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ کسی دور میں ہم پیسے لے کریہ قومی فریضہ سر انجام دیتے تھے مگر اب چونکہ ہمارے پاس کوئی سپونسر شپ نہیں لیکن اس عادت کا کیا کریں جو ہماری پہچان ہے، اب یہ قوم عادتاً دہشت گرد پیدا کر رہی ہے۔
موجودہ حکومت کو یہ بات تو سمجھ آہی گئی ہوگی کے جن لوگوں نے انہیں ووٹ دیا وہ اس واقع کی وجہ سے بالکل بھی ان کی سپورٹ نہیں کررہے یہ قابلِ قدر عمل ہےمگر یہی لوگ ساتھ ساتھ حکومت کا کھوکھلا دفاع بھی کر رہے ہیں ، پہلے تو میں انہیں یہ یاد کروا دوں کہ ان صاحبان کی دھواں دار تقاریر پہ آپ سب نے بہت واہ واہ کیا ہے، بہت دفاع کیا ہے، بہت سپنے بنے ہیں ، میں بھی ان میں شامل ہوں ، مگر جس ریاست کا تصور اس حکومت نے دیا تھا اگر اس تصور پر عمل نہیں ہوسکتا تو ان میں اور دوسری جماعتوں میں کوئی فرق نہیں! میرا اور آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ اس حکومت کو اس کے وعدے یاد کرائیں اور ان معصوم بچیوں کو انصاف دلائیں مگر افسوس کے ان کے ماں باپ کو تو ہم واپس نہیں لا سکتے ، نہ ہی ان کے دکھ کا مدعوا ہو سکتا ہے۔اب تو افسوس کے دو بول بھی لولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جھوٹ بول رہے ہیں ، بچیوں کو دیکھتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے، پولیس کو دیکھتا ہوں تو منہ چھپانے کا من کرتا ہے، وزیرِ اعلیٰ کی ناکردہ پالیسی پہ نظر جاتی ہے تو اپنے آپ کو پنجاب پولیس ہی تصور کرتا ہوں، وزیرِ اعظم کی مدینہ کی ریاست کو دیکھتا ہوں ذہین میں آتا ہے کہ ان بچیوں کے لئے مدینہ کی ریاست کا تصور کیا ہوگا؟