ہندوستانیوں سے نفرت

سید شعیب حسن

کچھ عرصہ پہلے گفتگو ہوئی کہ ہندو اور مسلمان ساتھ ایک ملک میں نہیں رہ سکتے۔ جس کے جواب میں، میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں، خیر، میں نے سیدھا سا جواب دیا کہ وہ بھی انسان ہیں ساتھ رہنے میں کیا حرج ہے؟ جس پہ پہلے تو مجھے پاکستان مخالف بول دیا گیا اور پھر پاکستان کے وجود کا مخالف، مزاحقہ خیز بات تو یہ ہے کہ مجھے ہندوستان جانے کا بھی بولا گیا۔

اگر ہم 70 سال پہلے اور آج کے حالات کا موازنہ کریں تو صاف ظاہر ہے کہ 1947 اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے، سب سے بڑا فرق ہی یہی ہے کہ دونوں قومیں اس وقت غلام تھی، یاد رہے کہ مغلیہ دور میں بھی یہ دونوں قومیں ساتھ رہیں، البتہ خلافت تحریک تک میں گاندھی نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ پھر سیاسی بحران پیدا ہوا اور بلاخر 2 علیحدہ ریاستیں قیام میں آئیں۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ، آج بھی تو ہندوستان میں کچھ مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم ہوتا ہے؟ یقیناً اس کی زمہ دار پوری ہندو عوام نہیں بلکہ وہ شدّت پسند ٹولہ ہے جو سرحد کے اس پار بھی طاقت میں ہے، بالکل اسی طرح جیسے یہاں مسیحی جوڑے کو جلانے میں پوری عوام نہیں بلکہ چند شدّت پسند ملوث اور ذمہ دار تھے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں ہندوستانی اور پاکستانی سکون اور اطمینان سے شاید اس لئے رہتے ہیں کیوں نکہ وہ شدّت پسندوں کے ٹولے اور میڈیا کی تعصب زدہ خبروں سے آزاد ہیں۔ جب کہ یہاں اور وہاں دونوں جگہ تعلیمی نصاب، شدّت پسند بیانات، اور میڈیا کے ذریے ایک عام فضا قائم کر دی گئی ہے کہ آپ کا پڑوسی آپ کا بدترین دشمن ہے اور آپ کو اپنے وطن سے محبّت ظاہر کرنے کے لئے محض پڑوسیوں کو بُرا جاننا اور ماننا ہے۔

کچھ دنوں پہلے چند لوگوں کا سامنا بھی ہوا جن کے بقول ہندوستان اور پوری ہندوستانی عوام جھوٹی، گندی، پاکستان اور پاکستانیوں سے شدید نفرت، بغض، حسد اور کینہ رکھتی ہے، یا شاید انہیں معلوم ہی نہیں کہ ہندوستان کی 25 کروڑ آبادی مسلمان بھی ہے۔ بقول ان کے ہمیں ہندوستان سے محض اس وجہ سے نفرت کرنی چاہیے کیوں نکہ بھارتی فوج کشمیر پہ قابض ہے اور اس کی زمہ دار 125 کروڑ عوام بھی ہے جو اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی، اس بات سے بالکل ناآشنا کہ، بلوچستان، کراچی، کے-پی-کے میں جبری گمشدگی یا ساہیوال واقعے کی زمہ دار بھی تو یہ 21 کروڑ عوام ہو سکتی ہے۔

ہمیں نظریات سے اختلاف کرنا سیکھنا ہوگا نہ کہ کسی قوم یا فرد سے۔ جب تک ہمارے ذہنوں میں یہ سوچ رہے گی اس خطّے میں امن و سلامتی ناممکن ہے، اور اگر یہی رویّہ رہا تو آنے والی نسلوں کے ذہن میں بھی یہ زہر خون کی طرح سرایت کرے گا۔