آج کا نوجوان اور سیاسی شعور

اشفاق احمد

ہم پچھلے سات سال سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی اور عمران خان یہ دعویٰ کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ انہوں نے نوجوانوں کو شعور دیا ہے۔ انہیں زبان دی ہے۔ اور آج نوجوان اگر بات کرتا ہے تو اسے بات کرنے کا شعور عمران خان نے دیا ہے۔

لیکن تاریخی حقائق اس کی نفی کرتے ہیں ۔تحریک پاکستان میں نوجوانوں کا کردار اور جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے جس طرح پاکستان کے پیغام کا پرچار پورے ہندوستان میں کیا اور اسے تحریک پاکستان میں تبدیل کیا اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد بھی نوجوانوں کے سیاسی شعور نے بہت اہم کردار ادا کیا جس کی مثال ایوب کے مارشل لاء کے خلاف تحریک، فاطمہ جناح کا ایوب کے خلاف صدارتی الیکشن میں ساتھ دینا یا پھر ذوالفقار بھٹو کی پیپلزپارٹی میں نوجوانوں کی شمولیت ہے۔ لیکن اس کے مقابلےمیں ہم آج کی نوجوان نسل کے سیاسی شعور کا تجزیہ کریں تو سب سے پہلی بات جو نظر آتی ہے وہ ان کی پاکستان کی سیاسی تاریخ سے لاعلمی ہے جو کہ کافی تشویش ناک بات ہے۔ موجودہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انہیں سیاسی تاریخ کا علم زیادہ ہوتا لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ باکل واضح انداز میں بتاتی ہے کہ ہمارے ملک کے اصل مسائل کیا ہیں اور ان مسائل کے اصل ذمہ دار کون ہیں۔ اس بات سے کوئی انکا ر نہیں کہ نوجوانوں کی اکثریت عمران خان کو پسند کرتی تھی جس نے 2018 کے الیکشن میں عمران خان کو ووٹ دیا لیکن افسوس ناک عمل یہ ہے جس نوجوان کو عمران خان شعور دینے کا سہرا اپنے سر لیتا ہے وہ نوجوان آج عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد کیا سوچ رہا ہے اور آنے والے وقت میں اس کا ردعمل کتنا شدید ہو سکتا ہے۔

عمران خان نے نوجوانوں کے اعتماد کو جس طرح سے ٹھیس پہنچائی ہے، اس کا ردعمل انتہائی خطر ناک ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کا قصور میں صرف عمران خان کو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس نے وزیر اعظم بننے کیلئے جس راستے کا انتخاب کیا، اس کی بنیاد خود غرضی، اقتدار کی حوس، بہتان تراشی اور جھوٹ تھی۔ اصل ذمہ دار یہ نوجوان خود ہیں جنہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو پڑھنا تک گوارہ نہی کیا اور جو جھوٹ اور الزام عمران لگاتا رہا اس پہ اندھی تقلید کرتے رہے اور تبدیلی کے نام پہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے رہے۔

اس سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ سوشل میڈیا تحریک اور تبدیلی کا ایک آلہُ تو ہو سکتا لیکن تبدیلی کا منبع نہی ہوسکتا۔ اگر نوجوان سیاسی تاریخ کو پڑھے بغیر سوشل میڈیا کو صرف پروپیگنڈہ کے طورپر استعمال کرے گا تو وہ اسی طرح دھوکا کھاتا رہے گااور ساری زندگی تبدیلی کے نام پہ سراب کے پیچھے بھاگتا رہے گا۔