آزادی ء صحافت کیا ہے؟ ایک تاریخی خط
(آزادی صحافت پر لینن کا لکھا گیا خط 5اگست 1921)
مترجم: ولید بابر ایڈووکیٹ
نوٹ: میڈیا کے کردار کے حوالے سے اکثر لوگوں کو شکوہ رہتا ہے کہ وہ غیر جانبدار رپورٹنگ نہیں کرتا، اصل حقائق عوام کے سامنے نہیں لاتا اور نہ ہی عوامی احتجاج کی کوریج کرتا ہے۔اس کے کیا عوامل ہیں ؟ میڈیا کا اصل کام کیا ہے؟ میڈیا کس طبقے کے مفادات کی نگہبانی کرتا ہے؟ میڈیا کے کردار پر لینن کی سیر حاصل بحث سے میڈیا کے کردار کو سمجھا جا سکتا ہے۔ (مترجم)
’’ٹو کیورل مسنی کوف
میں ابھی آپ کے دونوں مضامین پڑھنے کے قابل ہوا ہوں۔ میں آپ کی پرم تنظیم (مقامی سیاسی یونٹ) میں کی گئی تقاریر کی ہیئت اور تنظیم سے آپ کے تضادات سے لاعلم ہوں اور اس بابت کچھ نہیں کہہ سکتا۔ تنظیمی بیورو اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا اور میرے علم کے مطابق اس نے کمیشن نامزد کر دیا ہے۔
میرا مقصد مختلف ہے جو کہ آپ کے مضامین کی بطور ادبی اور سیاسی دستاویز کی جانچ ہے۔ یہ دلچسپ دستاویزات ہیں۔
میرے خیال میں آپ کی بنیادی خامی آپ کے “معرکتہ الآراءسوالات” (vexed Question)والے مضمون سے عیاں ہوتی ہے۔ میں اسے اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ آپ کی اصلاح کے لیے ہر ممکن کوشش کروں۔ مضمون کی ابتداء میں آپ نے جدلیات کا بطریق احسن اطلاق کیا ہے۔ درحقیقت جو کوئی بھی “سول جنگ” کے نعرہ کے متبادل “سول امن” کے نعرہ کو سمجھنے سے قاصر ہے وہ خود کو بہت بُرا نہیں تو مضحکہ خیز ضرور پائے گا۔یہاں تک آپ بلکل درست ہیں۔
چونکہ آپ جامع طور پر اس نکتہ پر درست ہیں۔ مجھے آپ کا نتیجہ اخذ کرنے پر خاصی حیرت ہوئی۔ آپ کو یہاں جدلیات کو نہیں بھولنا چاہیے تھا کیونکہ آپ خود اس کا بطریق احسن استعمال کر چکے ہیں۔
“آزادی صحافت” درحقیقت “شاہ پرستوں” سے “انارکسٹوں” سے؟بہت خوب۔مگر ایک منٹ توقف کیجیے۔ ہر اشتمالی/مارکسٹ اور ہر مزدور جس نے انقلاب کے چار سالوں (اکتوبر انقلاب 1917سے 1921کا دورانیہ) کا غور وخوص اور مشاہدہ کیا ہے یہ ضرور کہے گا” اس کو غور سے دیکھیے’کس قسم کی “آزادی صحافت”؟کس کے لیے؟کس طبقہ کے لیے”؟ ہم مطلق العنانیت پر یقین نہیں رکھتے’ ہم خالص جمہوریت پر ہنستے ہیں۔
’’آزادی صحافت‘‘ کا نعرہ قرونِ وسطیٰ کے عہد سے انیسویں صدی تک ایک عالمگیر نعرہ بن کر ابھرا۔کیوں؟ کیوں کہ یہ ترقی پسند سرمایہ داری کی نمائندگی کرتا تھا۔جو کہ بادشاہوں’پروہتوں’جاگیرداروں اور زمین مالکان کے خلاف ایک جدوجہد تھی۔دنیا کے کسی ملک نے پروہتوں/ مذہبی پیشواؤں اور زمین مالکان سے اپنی عوام کی نجات کے لیے اتنا کچھ نہیں کیا جتنا سوویت یونین نے کیا اور کر رہا ہے۔ ہم دنیا میں دیگر کسی بھی جگہ سے بہتر طور پر “آزادی صحافت” کی ذمہ داری احسن طور پر سرانجام دے رہے ہیں۔
دنیا میں جہاں کہیں سرمایہ داری موجود ہے وہاں “آزادی صحافت” سے مراد اخبارات اور لکھاریوں کو خریدنے کی آزادی ہے۔ وہ رشوت اور پیسے کے زور پر “رائے عامہ” تشکیل دیتے ہیں تاکہ سرمایہ داری کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ یہ حقیقت ہے۔
اور ہمارے ہاں؟ کیا کوئی بھی اس سے انکاری ہو سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں سرمایہ داری کو صرف شکست ہوئی ہے، یہ ابھی مکمل تباہ نہیں ہوئی؟ بس پسِ پردہ چلی گئی ہے۔کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔
سوویت یونین پوری دنیا کے سرمایہ دار دشمنوں کے گھیرے میں ہے۔ یہاں “آزادی صحافت” سے مراد سرمایہ داروں اور ان کے پالتوں’ منشویک (اگست 1903 دوسری کانگریس میں ہونے والی اقلیتی گروہ جس کی سربراہی پلیخانوف’مارٹوف اور ٹراٹسکی کر رہے تھے منشویک کہلاتے ہیں، جبکہ اکثریتی پارٹی جس کی قیادت لینن کر رہا تھا، جس نے اکتوبر 1917 کا انقلاب برپا کیا تھا انہیں بالشویک کہا جاتا ہے)اور سوشلسٹ انقلابیوں کی سیاسی تنظیم سازی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔
عالمی سرمایہ داری ہمارے مقابلے میں ابھی کافی طاقتور ہے۔اس کے ہاتھوں میں سیاسی تنظیم کا ایک اور ہتھیار (آزادی صحافت کا بنیادی اصول سیاسی تنظیم سازی ہے) دینے کا مطلب اپنے دشمن کے ہدف کو سہولت دینا اور اپنے طبقہ کے دشمن کی مدد کرنا ہے۔
ہمارا خودکشی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔اس لیے ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔
ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کے “آزادی صحافت”کا عملی مطلب عالمی سرمایہ داری کا فوری طور پر ہزراوں کارکنان’سوشلسٹ انقلابیوں اور منشیویکوں کی خریداری کی صورت نکلے گا جو کہ ہمارے خلاف ایک منظم پروپیگنڈہ کے ذریعے ایک جنگ لڑیں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے۔وہ ہم سے زیادہ امیر ہیں ۔ہم سے لڑائی کے لیے دس گناہ بڑی قوت خریدیں گے۔ نہیں ہم ایسا نہیں کریں گے۔ہم عالمی سرمایہ داری کی مدد نہیں کریں گے۔
آپ تمام طبقات میں سے طبقاتی تشخص سے کیسے انکاری ہو سکتے ہیں؟آپ جذباتی اور فرسودہ تخمینہ کیسے لگا سکتے ہیں ؟ یہ میرے لیے ایک مہمہ ہے۔ “سول امن” یا “سول جنگ” کے سوال پر اور اس سوال پر کہ ہم کیسے فتحیاب ہوئے’کیسے کسانوں کو مزدوروں کے شانہ بشانہ رکھتے ہوئے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں’ پر دو بنیادی عالمی سوالات (جو کہ عالمی سیاست کی ہئیت پر اثر انداز ہوتے ہیں) جو کے( آپ کے مضامین میں زیر بحث آئے ہیں) ان پر آپ جذباتی اور فرسودہ موقف کے بجائے مارکسسٹ موقف اپنا سکتے تھے۔ آپ نے طبقات اور ان کے تعلقات کو عملی اور سنجیدہ طور پر لیا اور پھر اچانک جذبات کی رو میں بہہ گئے۔
زیادتی اور بدسلوکی اس ملک میں بکثرت پائی جاتی ہے۔”آزادی صحافت”اس کو بےنقاب کرے گی۔میرے نزدیک آپ یہاں پر ہی لغزش کھا گئے ہیں۔ دُکھی اور افسوسناک واقعات کے باعث آپ نے خود کو افسردہ کر لیا اور طاقت کو سنجیدہ طور پر سمجھنے سے قاصر رہے۔
“آزادی صحافت” عالمی سرمایہ دار قوت کی مدد کرے گی۔یہ ایک حقیقت ہے۔”آزادی صحافت”سوویت یونین کی خامیوں، کوتاہیوں، بدانتظامیوں اور ناکامیوں کی نشاندہی نہیں کرے گی(اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا ایسی بیشمار خامیاں موجود ہیں) چونکہ سرمایہ داری کا مطمع نظر ایسا کرنا نہیں بلکہ “آزادی صحافت” بین الااقوامی سامراج کے ہاتھوں میں ایک آلہ ہو گا۔جو ابھی مرانہیں ہے بلکہ زندہ ہے۔یہ ہمارے اوپر منڈلا رہا ہے اوراسے مارٹوف جیسے پالتو وفاداروں کی حمایت حاصل ہے(کچھ تو ان کی اپنی حماقت اور کچھ ہمارے خلاف بداندیشی کے باعث’مگر اصل وجہ ان کے اپنے گماشتہ جمہوری سرمایہ دارانہ موقف کے باعث)۔ آپ سڑک کے غلط کنارے کھڑے ہیں۔
آپ کمیونسٹ پارٹی کی خامیوں کو دور کرنا چاہے رہے ہیں مگر آپ اس کے لیے وہ دوا تجویز کر رہے ہیں جس سے موت یقینی ہے۔ آپ کے ہاتھوں نہیں بلکہ بین الالقوامی سامراج کے ہاتھوں (ملوکوف+چیرنوف+مارٹوف)۔آپ عالمی سامراج کے اخبارات اور سیاسی پارٹیوں کی قیادت کو خریدنے کی آزادی کے چھوٹے اور بہت معمولی نکتے کو بھول گئے ہیں۔
ہم ایسا عمل نہیں کریں گئے۔ہزار میں سے نو سو باشعور سیاسی کارکن ایسا کرنے سے انکاری ہوں گے۔ ہماری بیشمار خامیاں ہیں۔ہماری مشترکہ خامیاں جو ہم سب سے سرزد ہوتی ہیں۔(کونسل برائے محنت اور دفاع’عوامی کمیسار کی کونسل’ مرکزی کمیٹی)۔جیسا کے 1920 کے خزاں اور سرما میں ایندھن اور خوراک کی تقسیم کے دوران ہم سے سرزد ہوئیں۔یہ کافی خامیاں ہیں اور ہماری صورتحال میں ان کا حجم بڑا ہے-اس بابت 1921 کے قحط پر کافی گہرے اثرات پڑے-اس سے سنبھلنے کے لیے ہمیں خاصی سعی کرنا پڑے گی۔ہم ان پر قابو پا لیں گے اور اس کے لیے جدوجہد شروع کر لی ہے۔
ہم اپنی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو جائیں گئے کیونکہ ہم نے بین الااقوامی سطح پر تمام طبقاتی قوتوں کو ساتھ ملانے کی درست حکمت عملی وضح کی ہے۔ہم اس لیے بھی کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ اس سے قبل ہم نے اپنی حالت بہتر کرنے کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا تھا۔ہمیں تمام مشکلات کا ادراک ہے۔ہمیں ساری خامیوں کا علم ہے اور ان کے خاتمے کے لیے’بغیر کسی خوف کے’باضابطہ طور پر’ثابت قدمی کے ساتھ اقدامات کر رہے ہیں۔
آپ نے بہتری کے لیے تصورات (خوف)کو خود پر حاوی کر لیا ہے۔خوف(تصورات) ایک ایسی ڈھلون ہے کہ آپ اس پر ایک بار قدم رکھ لیں تو یہ آپ کو نیچے(تنزلی) کی حالت تک لے جاتی ہے جہاں آپ کو محسوس ہو کے نئی تنظیم تشکیل دے رہا ہوں یا پھر خود کشی کر رہے ہوں۔آپ خوف کو حاوی نہ ہونے دیں۔ کیا کمیونسٹ پارٹی کا کوئی یونٹ پارٹی سے علحیدہ ہو سکتا ہے؟ ایسا ہے۔یہ ایک برائی ہے’بد قسمتی اور خامی ہے۔یہ وہاں (پرم تنظیم) میں موجود ہے۔یہ شدید خامی ہے۔ہم اس کو دیکھ سکتے ہیں۔
اس کا علاج مزدور اور پارٹی کے ذریعے ہونا چاہیے نہ کہ آزادی (سرمایہ داری کی) جیسے اقدامات سے۔ آپ نے ملکی معیشت کی ازسر نو تعمیر’کسانوں کے اثرورسوخ کے خلاف جدوجہد کے متعلق جو باتیں کیں اور طریقہ کار واضح کیا وہ کافی حد تک درست اور مفید ہے۔
آپ اس کو الگ سے کیوں نہیں پیش کرتے؟ہمیں ملکر پارٹی کی یگانیت کے لیے ایک ساتھ اور ایک پارٹی میں کام کرنا ہو گا۔اس کے اثرات بڑے ہونگے۔یہ ایک دم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ شروع ہوں گے۔ سوویت کی ازسرنو تشکیل’غیر پارٹی افراد سے تعاون’غیر پارٹی افراد سے پارٹی ممبران کے کام کی جانچ’یہ سب درست اقدامات ہیں۔ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی شروعات ہوئی ہے۔
آپ کانگریس کے لیے ایک پمفلٹ کی صورت اس کی عملی تشکیل کیوں نہیں کرتے؟ آپ اس کو اس انداز میں کیوں نہیں لیتے؟ آپ بنیادی کام سے خوف زدہ کیوں ہیں (مرکزی معینہ کمیشن پریس پراودا کے زریعے انکاری کیوں ہیں)؟
سست’مشکل’دشوار اور بنیادی کام کو چھوڑ کر اور خوف زدہ ہو کر لوگ آسان حل کی تلاش شروع کر دیتے ہیں’ “آزادی صحافت” (سرمایہ داری کے لیے) بھی ایسا ہی آسان کام ہے۔ آپ کو اپنی خامی پر ڈٹے نہیں رہنا چاہیے۔ ایک یقینی خامی’جو آپ کے غیر تنظیمی اور مزدور دشمن جیسے “آزادی صحافت” نعرے سے عیاں ہے۔آپ سرمایہ داری کی جگمگاہٹ اور قابلیت کی نسبت کم زہین مگر بنیادی کام کے ذریعے خامیوں کا تدارک اور ان کا مقابلہ کرتے ہوئے غیر تنظیمی افراد کی بہتری کے لیے سنجیدہ اور عملی کام کیوں نہیں کرتے؟
کیا آپ نے کسی خاص خامی کو سنٹرل کمیٹی میں لاتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے کوئی مخصوص حکمت عملی تجویز کی ہے؟ نہیں آپ نے ایسا نہیں کیا۔ ایک بار بھی نہیں۔ آپ خامیوں اور کوتاہیوں کے بہاؤ کو دیکھتے ہوئے’قنوطیت کی حالت میں دشمن کے دست و بازو بن گئے۔سرمایہ داری اور سرمایہ داروں کے لیے “آزادی صحافت”۔میری آپ کو نصحیت ہے قنوطیت اور مایوسی کو مت اپنائیں۔
ہم اور ہمارے ہمدرد’مزدور اور کسان’ ہمارے پاس ابھی بھی طاقت کا بڑا زخیرہ محفوظ ہے۔ہم ابھ بھی جوانمردی اور مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم ابھی خوراک کی بہتری اور فراہمی کے لیے کافی کچھ نہیں کر رہے۔
ہم اپنےُنعروں کی عملی تعبیر کے لیے احسن طریقہ سے کام نہیں کر رہے۔غیر تنظیمی افراد کی ترقی’اور غیر تنظیمی افراد سے تنظیمی کارکنان کے کام کی جانچ کیجئے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں اور ہم یہ کریں گے۔ہم ایسا کر رہے ہیں ہمیں اس سے سو گنا بہتر طور پر یہ کام کرنا ہو گا۔
مجھے امید ہے آپ اس پر سنجیدگی کے ساتھ سوچتے ہوئے’جھوٹی انا کے ساتھ ایک یقینی سیاسی غلطی(آزادی صحافت) پر اٹل نہیں ہونگے اور خود کو یاسیت سے نکالتے ہوئے عملی کام کریں گے۔غیر تنظیمی افراد کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے’غیر تنظیمی افراد سے تنظیمی کارکنان کے کام کی جانچ کیجئے۔ اس(تنظیمی)کام کا کوئی اختتام نہیں ہے۔
“آزادی صحافت”کے جھانسے میں آنے کے بجائے آپ اس انداز میں کام کرتے ہوئے’آہستہ مگر یقینی طور پر اپنی خامیوں کی درستی کر لیں گے۔
کمیونسٹ(اشتمالی) تسلمیات‘‘