اجداد کا دین, جبر اور جمہوریت

مہناز اختر

مذاہب اور مذہبی عقائد کا معاشرے اور انسانی نفسیات پر اثرات کا مطالعہ بنیادی طور پر میری دلچسپی کا علاقہ ہے اس لیئے مذہب سے جڑا کوئی بھی معاملہ مجھے اپنی طرف آسانی سے متوجہ کرلیتا ہے۔ میاں عاطف والے تنازعے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ یہاں مشکل یہ ہے کہ اگر آپ احمدیوں کے حقوق کی بات کررہے ہیں تو لوگ آپکو احمدی قرار دے دیتے ہیں مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بحیثیت پاکستانی دوسرے پاکستانی کے حقوق کی پامالی پر آواز بلند کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ میں مرزا غلام احمد کے دعوی نبوت کو نہیں مانتی یہ میرا عقیدہ ہے لیکن میرا عقیدہ مجھے کسی احمدی کے خلاف نفرت انگیزی کا جوازفراہم نہیں کرسکتا۔ احمدیوں سے انکے عقیدے سے متعلق علمی مخالفت یا مکالمت کرنا ایک علیحدہ بات ہے مگر عددی برتری کی بنیاد پر اقلیتی برادری پر دھونس جمانا اور انکی تحقیر کرنا کسی بھی مہذب معاشرے کی اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔

میاں عاطف کی وجہ سے اٹھنے والا ”قادیانی مسئلہ“ بیگم کلثوم نواز کے انتقال کیوجہ سے پس منظر میں چلا گیا تو میں نے بھی اپنی توجہ اس موضوع سے ہٹا کر بیگم کلثوم صاحبہ کی طرف منتقل کرلی۔ میں ماضی میں بیگم صاحبہ کو صرف ایک وفا شعار بیوی اور سلجھی ہوئی خاتون کی حیثیت سے جانتی تھی۔ مجھےانکے انداز سیاست پرغور کرنے کا اس سے پہلے کبھی موقع نہیں ملا۔ انکی وفات کے بعد ایک ٹی وی پروگرام میں جناب مجیب الرحمن شامی کو بیگم صاحبہ کی شخصیت اورانکی کتاب کے قصیدے پڑھتا سن کر مجھے بھی انکی کتاب ”جبراور جمہوریت “ پڑھنے کا شوق ہوا۔ یہاں میرا مقصد انکی کتاب پر تنقید کرنا ہرگز نہیں ہے لیکن جس موضوع سے فرار حاصل کرکے میں بیگم صاحبہ کی کتاب کی طرف آئی تھی یہ کتاب مجھے دوبارہ اسی مسئلے کی طرف لے گئی۔ پوری کتاب کا ماحاصل یہ ہے کہ صدر پرویزمشرف کا مارشل لاء یہود و ہنود و نصرانی اور”قادیانی“ سازشوں کا نتیجہ تھا جو پاکستان میں عقیدہ ختم نبوت پر وار کرنے کے لیئے لگایا گیا تھا۔ تاکہ اس مملکت خدادا کو میاں نواز شریف کی سربراہی میں نظام مصطفی کی طرف قدم بڑھانے سے روکا جاسکے۔ اس کتاب میں بیگم صاحبہ نے”قادیانیوں کی سازشوں“ کا پردہ چاک کرنے والی مولانا مودودی کی کتاب ”قادیانی مسئلہ“ کا ذکر بھی کیا ہے۔

بیگم صاحبہ کی کتاب کے مطالعے کے دوران مجھے بارہا ایسا محسوس ہوا کہ میں بیگم صاحبہ کے بجائے مولانا مودودی ,جنرل ضیا الحق اورحافظ سعید کے بیانیے کا مطالعہ کررہی ہوں۔ دوسری بات جسکا احساس مجھے شدت سے ہوا وہ یہ تھی کہ ہمارے یہاں عوامی حمایت کے حصول کی خاطر سیاست میں مذہب کا استعمال بڑی بے رحمی سے کیا جاتا ہے۔ مذہبی نفرت انگیزی کو یہ نعرہ لگا کر جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلام کو خطرہ ہے۔ حالانکہ اسلام سمیت دنیا کا کوٸی مذہب خطرے میں نہیں ہے۔ ایمان کو خطرہ تب ہوتا ہے جب اسکی عمارت علم اور غورو فکر کے بجاۓ جہالت اور اندھی تقلید پر قاٸم ہو۔ انا کو ایمان سمجھنے والی قومیں مذہب پر اپنی اجارہ داری قاٸم کرکے اسے اپنی ملکیت تصور کرنے لگتی ہیں۔

تاریخِ ادیانِ عالم کے طالبعلم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب بھی کسی نئے مذہب ,مسلک یا فرقے نے جنم لیا ہے اسے طاقت سے کچلا نہیں جاسکا ہے۔ بلکہ طاقت کے استعمال سے اقلیتی مذہب ردعمل کے طور پرمزید طاقتور ہوجاتا ہے اور اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے اکثر اقلیتوں کا مذہب اکثریت کے مذہب میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ دنیا میں جب کبھی کوئی نیا مذہبی نظریہ سامنے آتا ہے تو اصل کے پیروکاروں کو اپنی بقا کے حوالے سے یہ خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ انکے دین کو خطرہ ہے۔ اس خوف کو جواز بنا کر وہ نئے فلسفے کے خلاف محاذ آرائی اور طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ پھر تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد یا تو دونوں ہی دنیا میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں یا پھر کمزور فلسفے والے قدیم مذہب کا نام نشان دنیا سے مٹ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آج دنیا میں تمام تر محاذ آرائیوں اور جبر کے باوجود یہودیت ,مسیحیت اور اسلام تینوں ہی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔

ہندوستان کا قدیم ویدک دھرم آج بدھ مت,جین مت اور سکھ مت کی موجودگی میں بھی ہندوستانیوں کی اکثریت کا مذہب ہے۔ اسکے برعکس فارس میں مزدایاسنا (مجوسیت) نے ہزاروں برس قبل وہاں کے قدیم مذہب متراٸیت کو مٹا کر رکھ دیا تھا۔ البتہ یہی مزدایاسنا ایران میں اسلام کے مظبوطی سے قدم جما لینے کے باوجود بھی دنیا میں اپنا فلسفہ لیٸے کھڑا ہے دوسری طرف بہائیت ایران سے بے دخل کیۓ جانے کے بعد بھی پھل پھول رہی ہے ۔

مذہبی نفرت ہمارے رویوں میں تب شامل ہوتی ہے جب ہم مذہب کو فلسہ حیات کے بجاۓ آباٶاجداد کی وراثت مان لیتے ہیں۔ ہندوستان میں اکثریت کے لیٸےگاۓ مقدس ہے لہذا جو لوگ گاۓ کو خوراک کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں ان پرگا ۓ حرام کردی گٸی ہے۔ گاۓ کا گوشت کھانے والا ہندوستان میں واجب القتل ہے۔ فرض کریں کہ وہاں مستقبل میں غیر ہندوٶں پر دریاۓ گنگا اور جمنا کا پانی بھی حرام کردیا جاۓ کیونکہ وہ اسے دیوی نہیں مانتے تو کیا ہندوستان کے اس ریاستی جبر کو صرف اس لیۓ جائز قرار دیا جاۓ گا کہ یہ اکثریت کا فیصلہ ہے؟
اسی طرح یہاں ہم نے ارض پاکستان کو اپنی میراث سمجھا ہوا ہے اور اکثریت سے مختلف عقاٸد رکھنے والوں پر جبر کرنا ہم اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پاکستان پر کسی ہندو,مسیحی,پارسی,احمدی,ذکری,سکھ,یہودی حتی کے کسی ملحد کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی مسلمان کا تو پھر ہمارے یہاں پاکستانیت کو اسلام سے نتھی کیوں کیا جاتا ہے, کیا اس نقطہ پر ہم نے کبھی غور کیا ہے؟

مولانا مودودی کی نظر میں بھی قادیانی مسٸلہ درحقیقت مذہبی مسٸلے سے زیادہ سیاسی مسٸلہ ہے کیونکہ ختم نبوت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مرزا غلام احمد کے دعوی نبوت کے معاملات اس قدر واضح ہیں کہ اسلام اور احمدیت میں فرق کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ اس لیٸے میرے خیال سے مذہبی معاملات کے اندر ایک خاص حد پر جاکر ہمیں جبر یا مذہبی انتہا پسندی کے بجاۓ ”لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِىَ دِيْن(تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین )“ کی پالیسی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ ہماری اسی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے دنیا بھر میں اسلام لفظ ”جبر“ کے مترادف قرار دیا جانے لگے گا۔ احمدی جماعت کے معاملے میں بھی ہمیں یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ میں یا آپ یہ تو طے کرسکتے ہیں کہ ہم کسی کو کیا سمجھتے ہیں کیا نہیں لیکن ہم کسی سے یہ مطالبہ ہرگز نہیں کرسکتے کہ وہ خود کو کیا کہے اور کیا سمجھے۔