احتجاجی تحاریک اور معاشرتی نفسیات

 وقاراحمدصدیقی

امریکا میں سیاہ فام شہری جارج فلائڈ کی پولیس تشدد سے ہلاکت کے بعد لاس اینجلس، فلاڈیلفیا، اٹلانٹا سمیت امریکا کے مختلف ریاستوں میں پرتشدد ہنگاموں کا آغاز ہو گیا۔ مذکورہ فسادات کے حوالے سے فیس بک پر احباب کے کچھ تبصرے اور پوسٹ نظر سے گزریں جن میں وہ امریکی معاشرے کے اس تاریک اور ناقابل رشک پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے اس طبقے کو شرم دلاتے، ملعون و مطعون ٹھہراتے نظر آئے جو ان مغربی اقوام کی اقتصادی و سماجی ترقی کی ترویج و تبلیغ کرتا ہے۔ آپ دوست بجا فرما رہے ہیں! تشدد کسی بھی رنگ اور شکل میں ہو، اسے جواز نہیں دیا جا سکتا۔ وہ ہر جگہ، ہر حوالے سے قابل مذمت اور لائقِ نفرت ہے۔

چلیے اب اِس تشدد کی لہر سے اظہارِ برأت سے آگے بڑھتے ہیں! کیا آپ اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ مذکورہ مزاحمت اسی معاشرے کا حصہ اور خاصہ ہو سکتا ہے جس میں کوئی حس باقی ہو؟ جو اپنے انفرادی نفع نقصان سے بالاتر ہو کر معاشرے میں اجتماعی ذمہ داری کا ادراک رکھتا ہو؟ کیا آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ایک سیاہ فام کے خونِ ناحق کیلئے انصاف مانگنے والوں میں “بلیک لائوز میٹر” کے پلے کارڈز اٹھائے اکثریت سفیدفام کی ہے۔ مذکورہ   ردعمل کی توقع ایک ایسا معاشرے سے ہی کی جا سکتی ہے جو نہ صرف صحیح غلط کی تمیز رکھتا ہو بلکہ اس کے لیئے کھڑے ہونے؛ اپنا وقت، جان ومال کھپانے اور جوابی ریاستی جبر و تشدد سہنے کا حوصلہ اور برداشت بھی رکھتا ہو۔

اب ذرا اس کے موازنے میں اپنے معاشرے کا جائزہ لیجئے! ریاست پاکستان، خلیل کے نوعمر یتیم بچوں کو انصاف دے سکی نہ نقیب اللہ اور مشال خان کے ضعیف باپ کو۔ ہم نے مشال خان کے بد قسمت باپ کے دکھ کا مداوا اس طرح کیا کہ اس کے خلاف بھی ریاست سے بغاوت کا مقدمہ درج کرا دیا۔ اب وہ اور اس کا مقتول بیٹا ایک صف میں کھڑے ہیں۔ ایک دین، دوسرا ریاست کا باغی۔ نقیب اللہ محسود کا ضعیف باپ اپنے بے گناہ مقتول بیٹے کے لیئے عدالت سے انصاف طلب کرتے، اللہ کو پیارا ہو گیا۔ نقیب کے کمسن بچے کے سر سے باپ کا سایۂ شفقت ریاست نے اٹھایا تھا، دادا کا قدرت نے۔ ریاست کے عدالتی نظام سے مایوس ہو کر نقیب کے باپ نے اپنے بیٹے کے لیئے انصاف کی عرضی اس ذات کے دفتر میں داخل کر دی جو بہترین منصف ہے۔ اب یہ معاشرہ اس علیم و خبیر کے فیصلے کا انتظار کرے۔ کراچی، بے نظیر بھٹو پارک میں رینجرز کے ہاتھوں سرفراز شاہ کے قتل کا آخری مجرم، رینجر اہل کار بھی صدارتی فیصلے کے نتیجے میں رہا ہو گیا۔

عدالت فرش مقتل دھو رہی ہے

اصولوں کی شہادت ہو گئی کیا؟

آخر وہ کونسا سانحہ، کیسا حادثہ ہو گا جس پر یہ معاشرہ اپنا احتجاج اور در عمل درج کرائے گا؟

موج خوں سر سے گزرنی تھی سو وہ بھی گزری

اور کیا کوچۂ قاتل کی ہوا چاہتی ہے؟

کیا کبھی سوچا کہ گزشتہ 74 سالوں سے معاشرے میں روا جبر اور ظلم کےلیئے کون قصوروار ہے؟  نقیب اللہ، مشعال خان، سرفراز شاہ، خلیل اور اسکے اہل خانہ؛ ان سب کا خونِ ناحق آخر کس کے ہاتھوں پر ہے؟ بلاشبہ اصل قصوروار ہم ہیں، یہ معاشرہ ہے۔ یہ معاشرہ، جس کے مذہب پرست اس وقت محظوظ ہوتے ہیں جب لبرلز لاپتہ ہوتے ہیں اور لبرلز، مذہبی عناصر کی لاشیں سڑک کنارے ملنے پر برا نہیں مناتے۔ ہم، جو ریاستی جبر اور طاقت کے استعمال کو جواز اور منطق کا لبادہ اس وقت تک اوڑھاتے ہیں جبتک اس کا نشانہ وہ طبقہ اور گروہ ہے جو کسی بهی وجہ سے ہمارے دل کو نہیں بهاتا، آنکهوں کو بهلا نہیں لگتا۔ ہم، جنہیں اپنے مخالفین کے حوالے سے انہی اداروں اور ایجنسیز کے دعوے عین حق معلوم ہوتے ہیں اور انہیں منطق کی کسوٹی پر پرکهنا لایعنی عمل لگتا ہے۔ ہم، جنہیں وہ مائیں قابل ہمدردی اور قابل رحم نہیں محسوس ہوتیں جو بلوچستان سے فاٹا اور پشاور سے کراچی تک اپنے لاپتہ بچوں کی تصویریں اٹهائے دربدر پهرتیں ہیں۔ ہم جو اداروں کے ماورائے آئین و قانون آپریٹ کرنے کی تاویلیں تلاشتے ہیں۔ انسانی حقوق و شخصی آزادی کو بے معنی باتیں اور کچھ لبرلز کے چونچلے سمجهتے ہیں۔ مسخ لاشوں کو نظریے ضرورت اور کولیٹرل ڈیمج کے تناظر میں جانجتے ہیں۔ ملٹری کورٹس کو وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضہ گردانتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اراؤ انوار کی بطور ایس ایس پی ملیر معطلی کے خلاف اور اس کی بحالی کےلیئے مظاہرہ کرنے والے وہ قبائلی بھی تھے جو بعد ازاں نقیب اللہ کے لیئے انصاف مانگے نکلے۔ آج تک کسی نے یہ جاننے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی کہ نقیب اللہ محسود سے قبل راؤ انوار کے ہاتھوں کراچی میں مارے جانے والے 449 نوجوان کس ماں کے لعل تھے؟1992کے کراچی آپریشن کے دوران ماورائے عدالت قتل ہونے والے کراچی کے نوجوانوں کےلیئے ملک کے کسی خطے سے کبھی کوئی آواز نہیں آئی۔ نصیر اللہ بابر کی وزارت داخلہ کے دور میں کراچی کے نوجوانوں کو لگڑا، بچو، کن کٹا، ٹنڈا اور دیگر نفرت انگیز نام دیکر ایک ایک دن میں کئی کئی جوانوں کی لاشیں سڑکوں پر پھینکے جانے کی داد پورے اہل پاکستان نے تالیاں بجا کر دی اور کیوں نہ دیتے، یہ آگ ابھی ہمارے گھر تک نہیں پہنچی تھی۔ سو بے نیاز رہے، بلکہ محظوظ ہوئے۔ ہم نے پورے معاملے کو لسانی، علاقائی، اور سیاسی پس منظر سے ہٹ کر خالصتاً قانونی اور انسانی پہلو سے دیکھنے اور سمجھنے کی زحمت کبھی کی ہی نہیں۔

آج بھی ریاست میں مشرقی پاکستان کی طرح، بلوچستان کے ایشو کو اسٹبلشمنٹ کے نکتۂ نظر سے دیکھنے والوں کی کمی نہیں ہے اور یہاں دائیں بازو کے انتہا پسند اور مذہبی تنظیموں کے حامیوں کی کیا بات کیجئے، خود سول سوسائٹی، میڈیا اور پروفیشنلز میں ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ ایشو صرف و صرف پاکستان کے دشمن ملک بھارت نے کھڑا کیا  ہے۔ سقوط ڈهاکہ سے قبل اگر مغربی پاکستانی، بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم اور زیادتیوں سے باخبر ہوتے، سراپا احتجاج ہوتے، مغربی پاکستان سے دباؤ ہوتا تو بنگالیوں کے حقوق کی جدوجہد کبھی الگ ہونے کی تحریک میں نہ بدلتی۔ ہم کوتاہ عقل یہ نہیں سمجھ پاتے کہ قانون و آئین سے بالاتر اور جوابدہی سے آزاد اداروں و ایجنسیوں کے منہ کو جب ایک بار خون لگتا ہے تو پهر ان کی پیاس محض خون سے ہی بجهتی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس پیاس میں اتنی شدت آتی ہے کہ استثقاء کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ جہاں خون پی پی کر مزید خون کی طلب ہوتی ہے۔ خون کس قوم، طبقے، مذہب و فرقے کا ہے، مریض اس سے مکمل بے نیاز و لا تعلق ہوتا ہے۔ بینجمن فرینکلن نے کہا تها:- 

 “Those who would give up essential Liberty, to purchase a little temporary Safety, deserve neither Liberty nor Safety.”