اخلاقی فتح سے غیر اخلاقی فتح تک
وقاص احمد
“اگر پی ٹی آئی کے ووٹوں میں تیس ہزار جمع کر کے جواب کو ڈیڑھ سے تقسیم کریں اور اس کا جذر نکال کر جواب کو چھ سے ضرب دی جائے تو ہمارے ووٹ ن لیگ سے زیادہ بنتے تھے۔ یہی ہماری اخلاقی فتح ہے۔ ڈوب مرو پٹواریو۔”
صاحبان یہ تھا وہ عمیق اخلاقی انتخابی فارمولہ جسے 2013 سے 2018 کے دوران ہونے والے درجنوں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں، سینکڑوں بلدیاتی نشستوں اور گلگت بلتستان سے لیکر آذاد کشمیر کے انتخابات تک ہر حلقے میں ہم آل یوتھ سے سنتے اور محظوظ ہوتے تھے۔
یونہی وقت گزرتا رہا اور آل یوتھ کے foster parents (آنسہ عظمی اور مسمی وقار) کو یقین ہوگیا کہ بچوں سے “یہ نہیں ہو پائے گا”۔ آخر کب تک ہم ٹی وی پر ادائیگی شدہ تجزیوں اور سوشل میڈیا پر اخلاقی فتوحات کے لالی پاپ چاٹتے رہیں گے۔ مجبوراً تبدیلی ماڈل میں ترمیم کرنا پڑی۔ چار پانچ ن لیگیے تو عظمیٰ نے اپنی عصمت دری کے الزام میں دھر لیے، دو چار پر وقار نے ملکی غیرت کے نام پر غداری کے فتوے لگوا دیے۔ ایک آدھ کو کافر قرار دلوا دیا۔ 40-50 کو “محلے کے معززین” نے بٹھا کر دھمکی آمیز الفاظ میں بوریا بستر گول کرنے کا حکم دیا، سولہ سترہ ہزار مقدمے بنے اور جو تھوڑے بہت بچ گئے ان کو محکمہ زراعت نے ایسی ایسی چپیڑیں کروائیں کہ چھٹی کا دودھ یاد کروا دیا۔ شامل باجے کے طور پر نیب نے “سموسوں کے ساتھ تو چٹنی کا ایک پیکٹ ملتا ہے تمہارے پاس دو کیسے” ٹائپ مقدمے بنا کر بھرپور ساتھ دیا۔ نتیجتاً الحمدللہ ثم الحمدللہ کہ آل یوتھ کو “اخلاقی فتح” کے علاوہ بھی کسی فتح کی شکل دیکھنا نصیب ہوئی۔ ہم آپ آسانی کی خاطر اسے غیر اخلاقی فتح کہے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج آپ اپنے خاں صاحب کو عسکریت لینے کے باوجود وزیراعظم بننے کے لیے درکار ووٹوں کے لیے خوار پھرتا دیکھتے ہیں۔ جی جی مجھے معلوم ہے کہ لفظ عسکریت نہیں بلکہ اکثریت ہوتا ہے بس بعض اوقات لکھتے لکھتے انگلیاں پھسل جاتی ہیں۔
آل یوتھ سے وابستہ یار لوگ بڑے رسان سے کہتے ہیں کہ خاں صاحب کا ووٹوں کے لیے خوار ہوتے پھرنا ثابت کرتا ہے کہ ان کے پیچھے “وہ” نہیں تھے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ جواب ملا کہ اگر “وہ” پیچھے ہوتے تو دو سو سیٹیں تو دلواتے۔ میں جواباً یہی گزارش کر دیتا ہوں کہ صاحب جتنی “ان” کی اوقات تھی انہوں نے دلوا دیں، اب اس سے زیادہ وہ اور کیا کرتے۔ اب امریکہ بھی تو پورے افغانستان کا تورا بورا کرنے کے باوجود طالبان کا مکمل قلم قمع کرنے میں ناکام ہی رہا ناں؟ بندوق کچھ تو کر سکتی ہے، سب کچھ نہیں کر سکتی۔
کچھ جاہل پٹواریوں اور پی پی جیالوں نے ٹھٹھہ اڑایا کہ خاں صاحب تو پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو اور کراچی کے غدار قاتلوں کے چرنوں میں بھی جا بیٹھے تو آل یوتھ نے مدبرانہ انداز میں ان جاہلوں کو سمجھایا کہ جناب زمانے کے چلن یہی ہیں اور آپ بھی یہی کرتے تھے۔ اور میرے جیسا کم فہم ڈرپوک اس بحث کو دیکھ کر یہ پوچھنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا کہ صاحب وہ “تبدیلی” کہیں تیل لینے چلی گئی ہے یا وہ بھی بقول چیپ صاحب سیاسی بیان تھے۔
ایک دفعہ میں نے ایسی کوئی بات اپنے کچھ انصافی دوستوں سے کر دی تو سب نے مجھے یوں گھورا کہ مجھ سے بڑا احمق کوئی نہیں۔ حالانکہ میرا سوال بڑا معصوم سا تھا کہ صاحب اگر پیپلز پارٹی سے مک مکا، پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو جپھیاں، کراچی کے قاتلوں سے خوش گپیاں، آذاد امیدواروں کی لوٹ سیل اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے اتحاد آپ نے بھی کرنے تھے تو پہلے والوں کو کیا کیڑے پڑے تھے جو آپ پچھلے 5 سال سے اپنے ایمپائرز کے ساتھ ان پر ٹوٹے ہوئے تھے؟ انہی کو چلنے دیتے۔ پہلے چند سیکنڈ تو وہ ہونقوں کی طرح میرا منہ تکتے رہے پھر ان میں اس ایک بہت مضبوط لہجے میں بولا۔ “ہمارا لیڈر کرپٹ نہیں، اگر لیڈر کرپٹ ہو تو نیچے والے بھی کرپٹ ہوتے ہیں اور اگر لیڈر ایماندار ہو تو نیچے والے بھی ایماندار”. میں اس نکتہ آفرینی پر جھوم جھوم گیا مگر احمق جو ٹھہرا اس لیے ایک دفعہ پھر پوچھا کہ “بھائی اس بیان سے مکر تو نہیں جاؤ گے، جیسے آف شور کمپنی والے بیان پر پلٹا مارا تھا”؟ جواب میں چاروں نے سر ہلا دیے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ کی بات کو میں درست تسلیم کرلوں تو پھر کے پی کے میں جو پانچ سال کرپشن کا بازار گرم رہا ہے جس کے چرچے پورے پاکستان میں رہے اور جس کی بنیاد پر خاں صاحب کو احتساب کا ادارہ ہی بند کرنا پڑ گیا تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نا ہوا کہ لیڈر بھی کرپٹ تھا؟
میرے پیارے دوست اس “پٹواریانہ” منطق پر چیں بچیں ضرور ہوئے مگر انہوں نے ہار نہیں مانی، بولے “اگر خان کے خلاف کوئی کرپشن کا ثبوت ہے تو عدالت میں لے جاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں”. میں بولا “بھائی اگر نوازشریف کے خلاف کوئی کرپشن کا ثبوت ہے تو تم بھی لے جاؤ عدالت کے سامنے، میں تمہارے ساتھ ہوں”. وہ مسکرا کر بولے “نواز سزا یافتہ مجرم ہے”. میں نے پوچھا “کس جرم میں؟ کرپشن میں؟”. ان میں سے ایک جو کافی گہرا انصافی بھائی تھا اس نے پانامہ، اقامہ، اقامے کے فوائد و نقصانات، منی لانڈرنگ، ملکی سلامتی، سکیورٹی رسک، ختم نبوت پر دانشورانہ تقریر جھاڑنی شروع کی تو میں نے ٹوک دیا “بھائی صاحب! میں نے صرف اتنا پوچھا ہے کہ سزا کس پر ملی”. ان میں سے ایک بولا “آمدن سے زائد اثاثوں پر”. میں نے کہا کہ بھائی اس حساب سے تو خاں صاحب تو تقریباً صفر آمدن کے ساتھ جس لائف سٹائل کو انجوائے کر رہے ہیں وہ بھی آپس میں میچ نہیں کرتے, تو میرا سوال ابھی بھی وہی ہے اگر لیڈر سے لیکر کارکنان تک سبھی ایک ہی جیسے ہیں تو پھر جس تبدیلی کا شور پہلو دل میں سنتے تھے وہ کدھر ہے”؟
غرض اسکے بعد یہ گفتگو اسی بے ترتیبی اور لایعنی باتوں پر چلی گئی جو آپ ہر روز ان کے منہ سے سنتے ہیں۔ مگر گفتگو کا حاصل کچھ باتیں نکلیں۔
1- آل یوتھ کو معلوم ہو گیا ہے کہ زمینی حقائق کیا چیز ہوتے ہیں اور اس کے الٹ چلنے کا مطلب کیا ہے۔
2- ہمیشہ کی طرح وہ اس عمرانی یوٹرن پر بھی زرا برابر شرمندہ نہیں، سو آپ کوشش بھی مت کریں۔
3- خاں صاحب کی “since 1996” کے ٹیگ والی برانڈڈ سیاست کو خاں صاحب 2009 میں تیاگ چکے، آل یوتھ پر یہ انکشاف 2018 میں ہوا ہے۔
4- پاکستان کی دیگر تمام جماعتوں کے ووٹران الیکشن کے بعد رزلٹ مانگتے ہیں اور لیڈران وعدوں کی تکمیل کی کمی بیشی پر اپنی مجبوریوں کا رونا روتے ہیں، یہ پہلی سیاسی جماعت ہے جس میں لیڈران حلف اٹھانے سے پہلے رو پڑے ہیں اور سپورٹران بذات خود جواز گھڑ گھڑ کر لیڈران کو پیش کر رہے ہیں کہ جی کم از کم 20 سال دیں خاں صاحب کو، تاکہ وہ 70 سال کا گند صاف کر سکیں۔
سو جملہ معترضین ٹھنڈ رکھیں، تبدیلی کو ڈاؤن لوڈ ہونے میں کوئی 15-20 سال لگیں گے۔ تکلیف صرف اتنی ہے مجھے کہ جب میں یہی بات، انہی پڑھے لکھے دانشوڑوں کو سمجھاتا تھا کہ جادو کی چھڑی نام کی کوئی چیز نہیں تو یہ ہنستے تھے کہ پھر جھوٹےوعدے کیوں کیے؟ کءس خان کو موقع دیا؟ موقع دے کر تو دیکھو۔ اب میں 20 ارب میں پڑنے والی “سلیکشن” کا ٹیکا لگوا کر سوچ رہا ہوں کہ ہم نے اصل میں تبدیل کیا کیا ہے۔
خاں صاحب ایک تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں۔ باقی پارٹیوں کی نسبت ان کا زیادہ تر ووٹ بنک دو رخا ہے۔ عام پارٹیوں کے ووٹران کی پہلی محبت ان کی پارٹی ہوتی ہے جبکہ خاں صاحب کے ووٹران کی اکثریت کی پہلی محبت بوٹ پالشی ہے۔ خاں صاحب نے اگر اصلی وزیراعظم بننے کی ٹھان لی تو ہر طرف سے پڑنے والے پتھروں میں پہلے پتھر اسی آل یوتھ کے ہوں گے جو اس وقت خوشی سے نہال ان کے اردگرد ناچ رہی ہے۔
اضافی نوٹ: سوشل میڈیا پر بعض اوقات دماغی نابالغ لوگوں کی ایسی ایسی پوسٹ پڑھنے کو ملتی ہیں کہ طبیعت باغ باغ ہوجائے۔ پچھلے دنوں کہیں لکھا دیکھا کہ “عمران کو فوجی کندھوں پر چڑھ کر اقتدار میں آنے کا طعنہ دینے والو، نوازشریف کونسا سی ایس ایس کا امتحان دے کر وزیر اعظم بنا”. عرض ہے، برائے مہربانی، برائے صد مہربانی تھوڑا ہتھ ہولا رکھیں کہ سی ایس ایس کا امتحان دیکر تو فوجی بھی فوج میں نہیں جاتا۔ جس ایف اے پاس کو بندوق ہاتھ میں دیکر چوکیداری کے لیے بٹھاتے ہیں وہ ہمارے ہی سر پر بندوق تانے ہمیں بتاتا ہے کہ تم کیا کرو گے اور کیا نہیں۔ بلاشبہ آپ کی نظر میں ووٹ کی عزت نہیں(مطلب آپ ہی کی نظر میں اپنی کوئی عزت نہیں) لیکن جن کو اپنی عزت کا پاس ہے ان کو اپنی قطار میں شامل مت کریں۔