افغانستان، پاک و ہند کے حالات اور فلم خداگواہ
مہناز اختر، کراچی
ایک دلیر اور سادہ لوح افغان پٹھان بادشاہ خان اور بے انتہا حسین افغان دوشیزہ بے نظیر کے لازوال عشق پر مبنی داستان بھارتی فلم خداگواہ مئی 1992 میں ریلیز ہوئی اور بھارت کے علاوہ افغانستان میں بھی مقبولیت کے کئی ریکارڈ قائم کیے۔ اس فلم کی شوٹنگ بھارت کے علاوہ افغانستان میں بھی کی گئی۔ فلم میں موجود تکنیکی خامیوں اور جھول سے قطع نظر یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس وقت دنیا آپ کو بحیثیت قوم کیسے دیکھتی تھی۔ اگر زمانہ حال میں حالات و واقعات اور حقائق کی گتھیاں اس قدر پیچیدہ ہو جائیں کہ انہیں سمجھنا اور حل کرنا دشوار ہو جائے تو حقائق کی تلاش میں مڑ کر ماضی کا سفر کرنا چاہیے اور کسی ایک نقطہ سے واقعات کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔
سال 1992 اس خطّے میں جنم لیتی مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے اس نقطہ آغاز کا سال تھا، جہاں سے مذہبی تحریکوں نے بہ تدریج مذہبی دہشت گردی کی شکل اختیار کی۔ اسی سال جون کے مہینے میں افغانستان میں جمیعت اسلامی افغانستان کے سربراہ برہان الدین ربّانی نے افغانستان کی صدارت سنبھالی۔ برہان الدین ربّانی ہندوستان میں پیدا ہونے والے پاکستانی ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کی تنظیم جماعت اسلامی سے بے حد متاثر تھے اور افغانستان میں سویت یونین کو دھول چٹانے والے ‘سول گوریلا فائٹرز’ عرف مجاہدین کے ہیرو کہلاتے تھے۔ یوں تو افغانستان سے سویت یونین اور سوشلسٹ نظام کو باہر پھینک کر برہان الدین ربّانی کی صدارت میں ایک حکومت قائم کرلی گئی تھی مگر افغانستان خانہ جنگی کی زد میں تھا اور مجاہدین کے حکومت مخالف دھڑے طالبان کے نام سے سامنے آگئے تھے۔
دوسری جانب ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے جھنڈے تلے ایل کے ایڈوانی کی سربراہی میں بہ ظاہر ایک پرامن رتھ یاترا نکالی گئی جس کا اختتام دسمبر کے مہینے میں ایودھیا میں رام جنم بھومی پر رام جی کے درشن کے بعد ہونا تھا مگر منصوبے کے عین مطابق یہ مجمع ایک پر تشدّد بھیڑ میں تبدیل ہو گیا اور نتیجہ بابری مسجد کے انہدام، سینکڑوں مسلمانوں کی جان و املاک کا نقصان اور فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں سامنے آیا۔
اس واقعہ کے اثرات پاکستان تک محسوس کیے گئے۔ جہاں ایک طرف اس واقعہ نے عالمی برادری کے سامنے سیکیولر ہندوستان کا سر شرم سے جھکا دیا وہیں اس کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست اور راشٹر سویم سیوک کے نظریہ ‘ہندوتوا’ کو نئی زندگی مل گئی۔
تقسیم ہند سے لے کر 90 کی دہائی تک ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات آج سے زیادہ خطرناک اور خراب تھے مگر کشیدگی اور نفرت کا زہر عوامی سطح سے نسبتا پرے تھا- ہندوستان میں ‘ہندوتوا’ اور پاکستان میں ‘اسلام’ کو ’اغیار‘ سے خطرات لاحق نہ تھے اور نظریہ جہاد پر ایمان رکھنے کے باوجود بھی مسلمان دہشت گرد نہیں کہلاتے تھے۔ 90 سے پچھلی دہائیوں میں مجاہدین امریکی صدر ریگن کے ساتھ خطّے کے دفاعی معاملات پر تبادلہ خیال اور پاکستانی دفاعی اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان و افغانستان کے مدارس میں ‘سعودی برانڈڈ امریکن اسپانسرڈ جہاد’ نصاب میں شامل کرنے پر غور کیا کرتے تھے۔ اس وقت ‘اسلاموفوبیا’ کے وائرس نے بھی وبائی شکل اختیار نہیں کی تھی اسی لیے راج کمار بیدی اور سنتوش سروج نے اس فلم کی کہانی کو اتنے مثبت انداز میں لکھا۔ فلم کی ہیروئن بے نظیر اور مہندی طالبان برانڈ کے ہلکے آسمانی رنگ والے شٹل کاک برقعے میں ملبوس ہونے کہ بجائے خود مختار رومانویت سے بھرپور اور ہارسنگھار سے مزّین دکھائی گئیں۔
اس وقت ہندوستانیوں کو بابر، محمودغزنوی اور تیمور لنگ سے آج والی نفرت بھی نہ تھی کہ جس کی وجہ سےکرینہ اور سیف کے نومولود بیٹے تیمور کا استقبال گالیوں اور بدعاؤں سے کیا گیا، اسی لیے ہر وقت تلوار نکالنے پر آمادہ اور بزکشی کے شوقین بادشاہ خان کو وحشی درندے کے بجائے دلیر، سچّا اور وعدے کا پکّا دکھایا گیا، جو حبیب اللہ کی تلاش میں ہوا کے گھوڑے پر سوار بلا روک ٹوک ہندوستان کی سڑکیں یوں ناپتا رہتا ہے، جیسے کہ درمیان میں پاکستان نامی ملک موجود ہی نہ ہو، جسے آج ہندوستان دہشت گرد ریاست قرار دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے یا پھر تینوں ممالک کے تعلقات اس قدر دوستانہ ہوں گے کہ بارڈر سکیورٹی فورس اور پاسپورٹ اور ویزہ جیسے جھمیلوں کی ضرورت نہیں پڑتی ہوگی۔ ہندو راجپوت اور مسلمان پٹھان کی دوستی کی مثال تو اب شاید ماضی کا قصّہ کہلائے گی کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آتے ہی اور سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ‘پدماوتی’ کی میکنگ کے اعلان کے بعد سے راجپوت ہندو بھائیوں کو مسلمانوں سے شدید نفرت ہو گئی ہے اور کم از کم چار ہزار سال سے موجود ہندو دھرم اور تہذیب کو مسلمانوں اور دیگر اقوام سے ویسے ہی خطرات لاحق ہو گئے ہیں جیسے پاکستان میں اسلام کو ہیں اور اس کی حفاظت کا ذمّہ سیاسی و جہادی تنظیموں نے اٹھا رکھا ہے۔
مذہبی جنونیت ایک ایسا وائرس ہے، جس کے ذریعے سیدھے سادے انسانوں کو پلک جھپکتے ہی ‘ہیومن بومبز’ اور ‘زومبیز’ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور ان کے تشخص کا بیڑہ غرق بھی کیا جاسکتا ہے، اس کی زندہ مثالیں ہم پاکستان اور افغانستان میں دیکھ چکے ہیں اور اس وائرس کے اثرات اب تک بھگت رہے ہیں۔
تحفظ مذہب کا یہ وائرس اب ہندوستان میں بھی وبائی شکل اختیار کرنے لگا ہے۔ اس وائرس کا خوف ہی تھا، جس نے شاہ رخ خان کو صفائی دینے پر مجبور کردیا کہ ’’مائی نیم از خان اینڈ آئی ایم ناٹ اے ٹیررّسٹ‘‘۔ ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات لاکھ دیرینہ سہی مگر بیچارہ پٹھان آج بھی خود پر سے طالبانی داغ مٹانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔