الیکٹڈ اور سلیکٹڈ یعنی منتخب یا چنتخب؟
عاطف توقیر
قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ایک تازہ ہدایتی حکم نامے میں ایوان میں عمران خان کو سلیکٹڈ کہنے پر پابندی عائد کر دی۔ اردو زبان کو چوں کہ اس سے قبل اس طرح کی صورت حال کا سامنا نہیں ہوا تھا جب قوم کا ایک بڑا طبقہ اس بات پر متفق ہو کہ موجودہ وزیراعظم عوامی قوت سے منتخب نہیں ہوئے بلکہ منتخب کرنے کے بعد ان کے لیے قوت لگائی گئی ہے، اس لیے اردو زبان میں الیکٹڈ اور سلیکٹڈ کے لیے الگ الگ الفاظ موجود نہیں تھے۔ کچھ دوستوں نے درخواست کی کہ زبان میں ایک نیا اظہاریہ پیدا کیا جائے، اس لیے میں نے اردو میں سلیکٹڈ کے لیے ’چنتخب‘ کا لفظ تخلیق کیا۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا آغاز انتخابات کی بجائے چن لیے جانے سے ہوتا ہے، یعنی پہلے بندہ چن لیا جائے اور اس کے بعد ایک کنٹرولڈ انتخابی عمل کے ذریعے اسے بغیراختیار اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا جائے۔
ایوان میں تاہم وزیراعظم کو سلیکٹڈ یعنی چنتخب کہنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اسی ایوان میں چور اور ڈاکو کہنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، حتیٰ کہ گزشتہ دور میں پارلیمان پر لعنت بھیجنے تاہم اپنی تنخواہیں باقاعدگی سے وصول کرنے والے کسی بھی رکن کے لیے کوئی بھی لفظ استعمال کر سکتے ہیں، کوئی پابندی نہیں ہے۔
ایوان میں عمران خان کے لیے سلیکٹڈ پرائم منسٹر کی اصطلاح سب سے پہلے بلاول بھٹو نے متعارف کروائی تھی تاہم اب یہ اصطلاح ہر جگہ پہنچ چکی ہے اور عام چوکوں اور چوراہوں میں بھی اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سلیکٹڈ اردو زبان میں کوئی گالی بھی نہیں تو اس پابندی کی وجہ کیا ہے؟
اس کا جواب بڑا واضح ہے۔ ماضی میں بھی انتخابات دھاندلی کا شکار ہوئے ہیں، تاہم اس بار جس انداز کی منظم اور تیاری کے ساتھ دھاندلی کی گئی اور جس طرح ملک کے اہم ادارے بہ شمول سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن حتیٰ کے میڈیا تک کو استعمال کیا گیا، اس کی نظیر شاید پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔
ماضی میں دھاندلی عموماﹰ انتخابات کے دن ہوا کرتی تھی، جس میں اپنے من چاہے بندے کے حق میں ڈبے بھرے جاتے تھے، تاہم اس بار اس کا آغاز انتخابات سے کوئی دو ڈھائی برس قبل وزیراعظم کے لیے ڈان لیکس اور ’مودی کا یار ہے غدار ہے‘ اور پھر پاناما لیکس جیسے معاملات کے ساتھ مکمل طور پر عوامی رائے تبدیلی کرنے اور صحافیوں کو استعمال کر کے الزامات کو مکمل حقائق بنا کر پیش کرنے کی صورت میں سامنے آئے۔ انتخابات کے روز تک ایک طرح سے یہ بات ایک حقیقت کی طرح یقین کی جانے لگی تھی کہ نواز شریف اور زرداری چور ہیں اور عمران خان جیسا صادق و امین روئے کائنات میں موجود نہیں۔ وہ تمام صحافی، جو اس بیانیے سے راضی نہ ہوئے، انہیں ایک ایک کر کے میڈیا اداروں سے باہر پھینک دیا گیا، جو جو صحافی سر جھکانے پر آمادہ ہوئے، ان کے درجات بلند کر دیے گئے۔ عدالت کو مکمل طور پر ہدایات دے کر استعمال کیا گیا حتیٰ کہ نیب عدالتوں کے ججوں سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی ملاقاتوں کی ویڈیوز تک عوام نے دیکھیں۔
سوال کرنا چوں کہ مملکت خداد میں شروع سے کوئی کفریہ عمل سمجھا جاتا ہے اور جو ریاست پڑھا دیتی ہے، عوام عمومی طور پر تسلیم کر لیتے ہیں، نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات تک ہر ٹی وی چینل پر یہ بیانیہ مکمل طور پر طے تھا کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں مکمل طور پر کرپٹ اور چور ہیں اور ان میں شامل تمام رہنما غدار اور ملک دشمن ہیں۔ دوسری جانب سیاسی رہنماؤں کو ملکی خفیہ اداروں اور فوج کے افسران پی ٹی آئی جوائن کرنے یا دوسری صورت میں مقدمات کا سامنا کرنے تک جیسے پیغامات کی ترسیل میں مصروف رہے۔
انتخابات کے دن پاکستانی کی تاریخ میں پہلی بار چار لاکھ فوج تعینات کی گئی، جب کہ سن 2013 کے انتخابات میں جب ہر جانب پرتشدد دہشت گردانہ حملے ہو رہے تھے اور ملک میں امن کی حالت نہایت بری تھی، اس وقت صرف 45 ہزار فوجی تعینات کیے گئے تھے۔ سوال یہ کیا جانا چاہیے تھا کہ اس بار اتنی بڑی تعداد میں فوجی تعینات کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
قانون کے مطابق ہر پولنگ اسٹیشن میں پولنگ افسر کو مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کیے جاتے ہیں، تاہم اس بار مجسٹریٹ کے ساتھ ساتھ وہاں تعینات فوجی کو بھی مجسٹریٹ کے اختیارات دیے گئے۔ سوال تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ایک ہی جگہ پر دو افراد کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات کیسے ہو سکتے ہیں؟
اس کے بعد فارم پنتالیس غائب ہونے اور پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشنز سے باہر نکالنے کے مناظر بھی ہم نے دیکھے اور اہم شہروں کے انتخابی نتائج میں شدید تاخیر بھی ہمارے سامنے رہی۔ اس دوران دور افتادہ مقامات سے انتخابی نتائج سامنے آ گئے تاہم لاہور اور کراچی جیسے شہروں کے کئی نتائج دو دو دن بعد سامنے آ سکے۔
سو اس پوری صورت حال کو یوں سمجھیے کہ ماضی میں دھاندلی کر کے اپنی مرضی کے لوگوں کو جتایا جاتا تھا تاہم پچھلے سال ہوئے انتخابات کو مکمل طور پر چرا لیا گیا۔
اب ایسی صورت حال میں اپوزیشن اگر عمران خان کو الیکٹڈ کی بجائے سلیکٹڈ یعنی منتخب کی بجائے چنتخب سمجھتی ہے، تو اس پر سوال ضرور ہو سکتا ہے، مگر یہ اس کا یہ حق چھینا نہیں جا سکتا۔
اس وقت ملک میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ ملکی اقتصادیات بدترین ابتری کی مثال پیش کر رہی ہے، انتہائی بنیادی ضرورت کی اشیاء عام افراد کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں، ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، ملکی کرنسی کی قیمت تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے، ملک بھی کی اسٹاک اکسیچیجز کسی کھنڈر کا روپ پیش کر رہی ہے، بچے ریپ اور قتل ہو رہے ہیں، ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں، تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ماضی کے مقابلے میں بڑی بجٹ کٹوتیوں کا سامنا ہے اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات دیکھیے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے اسمبلی کے دو اراکین کے پروڈکشن آرڈرز تک جاری کرنے سے انکار کیا جا چکا ہے، یعنی شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاقوں کی نمائندہ اس وقت اسمبلی میں کوئی نہیں۔
تاہم قومی اسمبلی ضابطہ بنا رہی ہے کہ ’’بادشاہ سلامت‘‘ کو پکارا کیسے جائے۔