انڈہ کھائی اور مملکت خداداد

احسان باری

شاید میں آٹھ سال کا تھا، جب پرانے محلے میں گھر سے آتے جاتے ایک نیم پاگل سا شخص نظر آتا تھا، پھٹے پرانے کپڑے، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے سر کے بال آڑے ھوئے، سانولی رنگت، کوئی نہیں جانتا تھا وہ کون ھے کدھر سے آیا ہے بس سب اس کو” انڈہ کھائی” کے نام سے جانتے تھے،
انڈہ کھائی بہت دلچسپ شخصیت کا مالک تھا۔ ہر آتا جاتا اس پر آوازیں کستا، مذاق اڑاتا، جسکا دل کرتا اس سے گاڑی کو دھکا لگواتا، گھر کا کوئی مشقت والا کام کرواتا… محلے کے بچے اکثر پتھر اٹھا کر اُس کیچڑ کے ڈھیر میں پھینکتے جس کے پاس اسکا بسیرا تھا چھینٹوں سے اسکے گندے کپڑے اور گندے ھو جاتے مگر اس سب کے باوجود انڈہ کھائی خالی آنکھوں سے ان سب کو دیکھتا رہتا اور اپنے اس خارش زدہ کتے کا سر سہلاتا رہتا جو اسکا واحد ہمنوا اور دوست تھا۔ انڈہ کھائی کو اس کتے سے عجیب سی انسیت تھی اپنے پاس کھانے کو کچھ ھوتا یا نہیں کتے کو کچھ نہ کچھ کھلا ہی دیتا تھا۔ پتہ نہیں کتا اسکا رکھوالا تھا یا وہ کتے کا چوکیدار ،کبھی محلے کے کسی بزرگ کو ترس آتا تو اسکے گندے وجود کو کمیٹی کے نلکے کے پانی سے نہلا دیتا کپڑے بدل کر شیو کر کے اسکو پھر سے ادھر بٹھا جاتا، وقتی طور پر اسکی شکل پر صفائی آتی اسکے وجود سے اٹھنے والا تعفن کم بھی ھو جاتا مگر یہ اجلا روپ کچھ گھنٹوں کا مہمان ھوتا اور اسکے بعد پھر سے وہی اجڑی شکل اور اسکا وہی روپ.
کبھی کبھی مجھے اپنا یہ ملک بھی انڈہ کھائی کی طرح لگتا ہے کسی کو آج تک یہ یقینی طور پر پتہ نہیں چل سکا کہ یہ کیوں دنیا کے نقشے پر آگیا اگر آ ہی گیا کیا اسکے وجود کے پیچھے بھی انگریز سامراج کی کوئی کانسپریسی تھیوری تھی یا اسکا بانی محمد علی جِناح اسکو مذہبی ریاست بنانا چاہتا تھا یا سیکولر، کیا یہ اسلام کا قلعہ بننا تھا یا مختلف مذاھب کو اپنے اندر سمونے والی کوئی جمہوری ریاست،انڈہ کھائی کی طرح جسکا دل کرتا ہے اسکو اپنے کام پر لگا لیتا ہے۔ کبھی کوئی مذھبی شدت پسند اسکو دنیا بھر میں اسلام کے غلبے کی واحد امید قرار دیتا ہے تو کبھی یہ اپنے اندر رہنے والے لبرلوں کے لئے مشقت کرتا دکھائی دیتا ہے، ہر آنے والا حکمران ایسا بھاری بھرکم پتھر استعمال کرتے ہوئے کیچڑ کی چھینٹوں سے اسکے تعفن زدہ وجود کو مزید گندہ کرتا ہے کہ بدبو سے اندر رہنے والوں کے دماغ پھٹنے لگتے ہیں۔
محلے کے بزرگ کی طرح کبھی کسی دوست ریاست کو ترس آ بھی جائے اور بیل آؤٹ پیکج کے ذریعے اس انڈہ کھائی کی ظاہری بدصورتی اور بے بسی کو چھپا بھی لیا جائے تو یہ کیفیت زیادہ دیر قائم نہیں رہتی اور کچھ دن بعد ہی پھر سے اپنی اصل حالت میں آ جاتا ہے . ہمارا یہ انڈہ کھائی بھی یہ نہیں جان سکا کہ اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ اسکے رکھوالے ھیں ، دہشت گردوں کے دھوکے میں نہتے بچوں اور عام لوگ پر گولیاں برساتی پولیس اسکی رکھوالی پر ھے یا یہ اپنے قابل ترس وجود کے ساتھ انکو سہارا دئے ھوئے ھے.. میڈیا پر چنگھاڑتے اور جھاگ اڑاتے اینکرز کی سیاستدانوں کے ساتھ نورا کشتیاں اور بریکنگ نیوز کے ڈپریشن بم ، بڑھتی مہنگائی، روپے کی گرتی قدر، بجلی گیس کا بحران انڈہ کھائی کو پڑتے وہ پتھر ھیں جن کی وجہ سے حالت مزید قابل ترس ھوتی جارہی ہے.
ایک دن میں اسکول سے واپس آ رہا تھا تو گھر کے باہر لوگوں کا ہجوم دیکھا پتہ لگا انڈہ کھائی مر گیا. لوگوں کے تاثرات سے اندازہ ھوا کہ میری طرح انکو بھی شاید یہی لگتا تھا کہ وہ کبھی نہیں مرے گا اور اسی طرح سب چلتا رہے گا مگر وہ خاموشی سے چلا گیا، اسکی لاش کے پاس کھڑے اسکے کتے کو سکون سے کھڑا دیکھ کر البتہ یہ گتھی سلجھ گئی کہ کون کس کو پال رہا تھا