انڈیا کے پاس پیڈ مین ہے اور ہمارے پاس۔۔۔
شیزا نذیر
بالی ووڈ اداکار اکشے کمار نے بیک وقت اپنے آپ کو بہترین اداکار اور سپر سٹار ثابت کیا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے اکشے کمار کی ہر فلم بڑی حد تک ہر لحاظ سے زبردست رہی ہوئے سوائے چند ایک کے جیسے کہ سنگھ از بلیک۔
پیڈ مین کی کہانی انڈیا کے حقیقی کردار سے متاثر ہے۔ انوکلم مروگن (Arunachalam Muruganantham ) کی جدوجہد کے بارے میں ہے جو ایک انڈین ایکٹیوسٹ اور سوشل انٹرپنیور ہیں۔ انڈیا میں حقیقی زندگی کے ہیرور پر فلمیں بننے کا رحجان بہت بڑھتا جا رہا ہے جیسے کہ میری کوم، دنگل وغیرہ۔ اِس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انڈیا کی فلم انڈسٹری انٹرنیمنٹ سے آگے ایجوکیشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ فلم بیڈ مین کمرشل پہلو پر فوکس کئے بغیر ایجوکیشن اور آگاہی کے لئے بنائی گئی۔ فلم ٹوائلٹ کا ایجنڈا بھی ایجوکیشن اور آگاہی مہم ہی تھا۔
یوں تو فلم کا موضوع خواتین کے لئے جراثیم کش اور سستے سینٹری پیڈ مہیا کرنا ہے لیکن فلم میں ایک نہیں کئی موضوعات پر بات کی جا سکتی ہے۔ مرکزی موضوع تو عورت کی صحت کے بارے میں فکر مندی ہے لیکن دیگر موضوعات میں مخنت، لگن، احساس، بھروسا، لوکل ہوم انڈسٹری کو فروغ اور ویمن امپاورمنٹ ہیں۔
اِس فلم کے مرکزی موضوع کے علاواہ مجھے جس بات نے متاثر کیا وہ لوکل ہومم انڈسٹری کی حوصلہ افزائی اور ویمن امپاورمنٹ ہے۔ شاید آپ کہیں کہ یہ فلم کا موضوع نہیں لیکن اگر فلم کی کہانی کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ دونوں موضوع بڑے جاندار نظر آئیں گے۔
پیڈ مین یعنی اکشے کمار بڑی مخنت اورلگن سے سینٹری پیڈ بنانے کی لوکل مشین تیار کرتا ہے۔ لیکن پھر بھی ناکام رہتا کیونکہ کوئی خریدتا نہیں۔ سونم کپور ایک تجربہ کرتی ہے کہ وہ خود گھر گھر جا کر خواتین سے سینٹری پیڈ کے متعلق بات کرتی ہے اور جس کام میں اکشے بری طرح ناکام ہوتا ہے اُس میں سونم کامیاب ہو جاتی ہے۔ یہاں سے سونم ہی اکشے کو آئیڈیا دیتی ہے کہ کیوں نہ دیگر خواتین کو استعمال کیا جائے۔ اِس طرح ایک تیر سے دو شکار ہوتے ہیں یعنی خواتین، خواتین کی بات کو بہتر طریقے سے سمجھتی ہیں، جراثم کش سستے سینٹری پیڈ سے مستفید ہوتی ہیں اور بے روز گار خواتین کو زور گار ملتا ہے۔
دوسری طرف انڈیا کی لوکل انڈسٹری کو فروغ ملتا ہے۔ جو پروڈکٹ مہنگے داموں ملتی ہے اور فائدہ فارن انڈسٹری کو ہوتا ہے وہی پروڈکٹ لوکل قیمت میں بکتی ہے اور فائدہ عوام اور لوکل انڈسٹری مالکان کو ہوتا ہے۔ اکشے کئی لوگوں کو مشین بنا کر دیتا ہے اور اِس طرح لوکل کاروبار ترقی کرتا ہے۔
کئی سال پہلے ہم اپنی ہائی کلاس کے نصاب میں پڑھا کرتے تھے کہ پاکستان ایک رزعی ملک ہے لیکن حیرت اُس وقت ہوئی جب رزعی ملک نے سبزیاں اور پھل درآمد کرنے شروع کر دیئے۔ ہمارے لوگ بھی خوب نکلے۔ میڈ اِن ۔۔۔ کا ٹھپا دیکھا اور بڑے فخر سے چیز خریدی بھلے وہ خراب ہی نکلی۔ اُس دور میں میری امی ایک دن درآمد شدہ لہسن لے آئیں لیکن وہ خراب نکلا حالانکہ پیکنگ کمال تھی یعنی اونچی دکان پھیکا پکوان۔ لیکن جلدی ہی اُنہوں نے دیسی لہسن پھر سے خریدنا شروع کر دیا جو ذائقے میں بھی درآمد شدہ سے کہیں بہتر تھا۔
کرنٹ افئیر کی کلاس میں ایک دِن یہی موضوع تھا کہ پاکستان کی لوکل ہوم انڈسٹری تباہی کے دھانے پر ہے (خیر اب تو بالکل ہی تباہ ہو چکی ہے)۔ وہ کھلونا جو پاکستان کی ہوم انڈسٹری بنا کر ایک سو روپے کا بیچتی تھی وہ اب میڈ اِن فارن ممالک کا دس روپے میں ملنے لگا۔ اب ظاہری سی بات تو یہ ہے کہ فائدہ تو سستی چیز خریدنے میں ہے لیکن میڈ اِن پاکستان کا سو روپے والا کھلونا جہاں چھے ماہ ٹھیک رہتا تھا اب درآمد شدہ کھلونا ایک یا دو دِن چلتا ہے۔
ایک اَور مثال یہ کہ ہمارے رشتے کے نانا وزیر آباد کی سٹیل مِل میں کام کرتے تھے۔ وہ جب بھی ہمارے گھر آتے ہمارے لئے سٹیل کے برتنوں میں سے چمچ اور چھریاں لاتے جو میری امی تحفے کے طور پر اکثر اپنی سہیلیوں کو دے دیتیں۔ نانا جب جاب سے ریٹائر ہو گئے تو برتن ملنا بھی بند ہو گئے۔ ہمارے پاس اُن برتنوں میں سے ایک چھری تھی جو کئی سالوں تک استعمال ہوتی رہی اور جب اُسے دھوتے تو وہ پھر سے نئی لگتی۔ کبھی کبھی اُسے تیز کیا جاتا۔ گھر شفٹ کرنے کی وجہ سے کافی برتن کھو گئے۔ اور پھر میڈ اِن ۔۔۔ کی چھریاں ہمارے گھر آنے لگیں۔ دس سے بیس روپے کی ایک چھری جو بمشکل دس دِن ہی چلتی۔
پاکستان میں بے روز گاری و غربت کی اہم وجہ ہماری ہوم انڈسٹری کا ختم ہونا بھی ہے۔ بے روزی گاری کا واحد حل نوکریوں کی تعداد بڑھا دینے میں نہیں کیونکہ اِس میں شرح خواندگی ایک مسئلہ ہے۔ جب کہ ہوم انڈسٹری کے فروغ کے لئے خواندگی مسئلہ نہیں ہوتی۔
فلم میں امیتابھ بچن کہتے ہیں کہ کسی کے پاس سوپر مین ہے تو کسی کے پاس سپائڈر مین لیکن ہمارے پاس پیڈ مین ہے۔ تب سے میں سوچ رہی ہوں کہ انڈیا کے پاس تو پیڈ مین ہے لیکن ہمارے پاس کیا ہے؟