ایمان کا چوتھا درجہ
عاطف توقیر
میں کئی برسوں بعد گزشتہ سال لاہور گیا، تو ایک نہایت عزیز دوست ہوائی اڈے پر لینے آ گئے۔ ان سے گہری دوستی بھی ہے اور وہ میری منہ پھٹ طبیعت سے واقف بھی تھے۔ میں آمد کے خانے سے برآمد ہوا، تو فوراﹰ میرا سامان میرے ہاتھ سے لیا اور ہاتھ تھامے گاڑی تک لے گئے۔ گاڑی اسٹارٹ کرنے سے قبل میری جانب بڑی ہم دردی سے دیکھ کر کہنے لگے بھائی صاحب ایک بات کہوں اگر برا نہ لگے۔ میں نے بنا سوچے کہا ضرور کہیے۔
کہنے لگے بھائی جی ایمان کے تین درجے اسلام نے بتائے ہیں مگر یہاں پنجاب میں درجے چار ہیں۔ میں نے کہا صاحب ہم نے تو ہمیشہ تین ہی سنے ہیں کہ کوئی غلط کام ہوتے دیکھو تو ہاتھ سے روکو، یا زبان سے روکو اور تیسرا اور سب نچلا درجہ یہ ہے کہ دل میں برا خیال کر کے چلتے بنو۔ کہنے لگے درست مگر یہاں پنجاب میں ایمان کا ایک اور درجہ ہے، جو ان تمام درجوں سے زیادہ سخت اور کسی حد تک خوف ناک ہے اور وہ یہ کہ ایمان کے پہلے درجے والے کو جا کے بتا دو، باقی وہ خود سنبھال لے گا۔ کہنے لگے بھائی جی یہاں بات سوچ سمجھ کر کیجیے گا، کیوں کہ ایمان کے چوتھے درجے والے ہر ہر جگہ پر ہیں۔
بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایمان کے چوتھے درجے والوں کی بہتات ہو گئی ہے۔ جس شخص نے کبھی ٹھیک سے کوئی کتاب تک نہیں پڑھی ہوتی، وہ اسکول میں پڑھائی ہوئی اسلامیات کے بل بوتے پر خود سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے شخص سے بحث کرنے لگتا ہے۔
ایک دور تھا کہ ہمارے ہاں ہم سے کہیں زیادہ پڑھا لکھا کوئی شخص بولتا تھا، تو دوسرے سنا کرتے تھے۔
کوئی اختلاف ہوتا، تو سوال کرتے اور بات سمجھ نہ آتی تو پھر سوال کرتے۔ اگر بات پھر بھی پلے نہ پڑھتی، تو یا تو خود کوئی کتاب پڑھتے یا خود سے زیادہ جاننے والے کسی اور شخص کا دروازہ جا کھٹکھٹاتے۔ مگر پھر سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
ہم نے پچھلے تیس برسوں میں ملک میں سب سے بڑی تبدیلی گناہ اور جرم کے گڈمڈ ہونے کی صورت میں دیکھی ہے۔ جدید دنیا کی ڈگر سے ہٹ کے چلنے کی مثال کچھ یوں ہے کہ دنیا بھر میں جرم کو قانون سے روکا جاتا ہے اور چوں کہ گناہ کسی شخص کا ذاتی فعل ہے، وہ جب تک جرم کے زمرے میں نہیں آتا، ریاست اور قانون اس سے دور رہتے ہیں۔ مگر ہم نے بچوں کو سکھایا یہ ہے کہ گناہ کو روکو اور جرم کی خیر ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہمارے آس پاس چوری، ڈکیتی، بچوں سے جبری مشقت، مدرسوں میں جنسی زیادتی، عورتوں کے حقوق کی پامالی، لوگوں سے جھوٹ، ملاوٹ، دھوکا دہی، مردہ چوہوں کی چربی سے تیار کردہ تیل اور جان بچانے والی جعلی ادویات تک کی فروخت پر کوئی اہل ایمان کھڑا ہو کر توہین مذہب یا کم از کم توہین ریاست کا نعرہ نہیں لگاتا، مگر جہاں آپ نے کوئی بھی ایسی بات کی، جس سے کسی شخص کے اسکول میں پڑھائی جانے والی اسلامیات سے اختلاف کی راہ نکلتی ہو، فوراﹰ کوئی من چلا آ کر آپ کو گھٹیا زبان سے نواز دیتا ہے۔
اب اس بات پر تو تکرار ہوتی ہے کہ نماز کیوں نہیں پڑھی اور روزہ کیوں نہ رکھا مگر یہ پوچھنے والا کوئی نہیں کم کیوں تولا۔ اس بات پر داد ملتی ہے کہ حج کر لیا یا عمرہ ہو گیا مگر اس بات پر ٹوکنے والا کوئی نہیں کہ حج کے لیے رقم کسی کا حق مار کر تو نہیں آئی؟
مزید خوف ناک بات یہ ہے کہ اگر آپ نے جرم کی جانب توجہ دلائی اور اس سے یہ پہلو نکلا کہ آپ جرم کو گناہ سے زیادہ غلیظ تر سمجھتے ہیں یا اس کے خاتمے کو ترجیح دیتے ہیں، تو ایمان کے چوتھے درجے والے فوراﹰ وویلا مچا کر، ایمان کے پہلے درجے والوں کو بتا دیں گے اور ظاہر ہے اس کے بعد قانون حرکت میں آئے نہ آئے مشتعل ٹولا حرکت میں آ جائے گا۔