ایک تجزیہ
محمد طلحہ ایڈووکیٹ
پاکستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات پر جب تجزیہ کیا جاتا ہے تو ہمیں دو قسم کے نقطہ ہائے نظر کا سامنا پڑتا ہے۔ ایک نقطہ نظر وہ مجموعی ریاستی بیانیہ ہے۔ جس کے مطابق حالیہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے اور جسکا ڈنڈھورا خود الیکشن کمیشن سے بھی زیادہ فوج پیٹ رہی ہے۔ جس سے بظاھر اس عوامی بیانیے کی کافی حد تک تائید ہوتی ہے کہ فوج انتخابی عمل پر بھرپور طریقے سے اثرانداز ہو کر ایک مخصوص ذہنیت کو اقتدار میں لانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
دوسرا نقطہ نظر وہ بیانیہ ہے جو نواز شریف کو سویلین سپریمیسی کو ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے۔ جس کے مطابق حالیہ انتخابات میں تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔ ان تمام تر حالات میں نوازشریف کو سول سپریمیسی کاقائد بنا کر پیش کرنے کی ایک مغالطے نے جنم لیا ہے۔ جس کے مطابق حالیہ انتخابات میں نوازشریف سول-ملٹری کشمکش میں سول سپریمیسی کا علمبردار بن کر ابھرا۔
حالیہ انتخابات میں بےنقاب ہونے والی لڑائی دراصل سول یا ملٹری سپریمیسی کی نہیں بلکہ مقامی اسٹیبلشمنٹ اور بین الاقوامی اسٹیبلشمینٹ کی خطے میں باہمی بالادستی کی تھی۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مقامی اسٹیبلشمینٹ اس لڑائی میں اپنے بل پر نہیں کھڑی ہے بلکہ وہ اس ایجنڈے کے ساتھ کھڑی ہے جسکے ساتھ اسکا مفاد آج جڑا ہے۔ جہاں تک سوال سول سپریمیسی کا ہے جسے ہم جیسے پسماندہ خطوں میں جمہوریت سے تعبیر کیا جاتا ہے تو اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں رکھنی چاہیئے کہ عام اۤدمی کی صحت پر چاہے جمہوریت ہو یا امریت ہو کسی کا بھی مثبت اثر نہیں ہوتا۔ ایک طبقاتی سماج میں زبردست طبقہ زیردست طبقے کی ووٹ کی طاقت سے اۤپس میں ہی اقتدار کی باری طے کرتا رہتا ہے اور زیردست طبقے سے تعلق رکھنے والا معصوم مزدور اس اۤس پہ انتخابی عمل میں حصہ لیتا رہتا ہے کہ شائد اب کے بار ہمارے بھی حالات سدھر جائنگیں لیکن اسے نہیں معلوم ہوتا کہ ایک طبقاتی سماج میں جمھوریت صرف حکمران طبقے کی حد تک محدود ہوا کرتی ہے اور یوں جاگیردارانہ ــــــــــــــــ سرمایہ دارانہ طبقاتی سماجوں میں جمھوریت کی گاڑی چلتی رہتی ہے۔ بہرحال حالیہ انتخابات میں مقامی اسٹیبلشمنٹ اور بین الاقوامی اسٹیبلشمینٹ کی باہمی کشمکش گزشتہ سترسالہ تاریخ میں پہلی بار بری طرح بے نقاب ہوئی ہے۔
گزشتہ 70 سالہ تاریخ پر نظر دہرائےتو مقامی اسٹیبلشمینٹ ہمیشہ بین الاقوامی اسٹیبلشمینٹ کی آلہ کار بنی رہی، اور بظاہر حکومت چاہے فوجی رہی ہو یا نام نہاد جمہوری دونوں، جیسا کہ عرض کیا گیا، عام آدمی کی زندگی پر یکساں طور پر اثرانداز ہوتی رہی ھیں دونوں بیرونی قرضوں سے ملک چلانے کی کوشش کرتے رہے ھیں اور بدلے میں بین الاقوامی اسٹیبلشمینٹ کی انشائیں پوری کرکر کے اپنے ہی ملک کو مزید تباہی کی طرف دھکیلتے جاتے رہے ھیں۔ سرد جنگ اور اسکے کچھ عرصے بعد تک یہاں کا ارباب اقتدار امریکہ بہادر کی ھدایات پر خطے پر پورے طریقے سے اثرانداز ہوتا رہا۔ انہی کی منشاء پر او۔آئی۔سی بنائی گئی اور اسی پلیٹ فارم سے ان کے کہنے پر افغانستان کے انقلاب ثور کو اسلام دشمنٗ خطہ دشمنٗ دھریہ نوازٗ روس نواز اور پتہ نہیں کیا کیا قرار دے کر اسلام اور دو قومی نظریہ کے عظیم تر مفاد میں جہاد کے بیچ بوئے گئے جسکے پھل آج تک افغانستان بالخصوص اور پاکستان بالعموم کھا رہا ہے۔
حال کا تجزیہ کریں تو اب پاکستانی ریاست ایک سامراج کی گود سے اتر کر دوسرے کی گود میں بیٹھنے کی کوشش کر رہی ہے اور کچھ اس طرح سے پھنس گئی ہے کہ طے کرنا مشکل ہوگیا کہ امریکہ بہتر تھا یا چائنا بہتر ہے؟ پاکستان کی معیشت جو ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان بنی رہی اور اس سے بھی ذیادہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت نے آج مقامی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمینٹ کو باہم دست و گریباں کردیا اور جو بظاہر مقامی اسٹیبلشمینٹ حالیہ انتخابات میں جیتتی ہوئی نظر آئی ہے لیکن جن کی خاطر یہ لڑائی لڑی گئی، کیا وہ اس ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے لیئے کوئی چندہ قرضہ دینگے؟ بلکہ شائد ہماری اسٹیبلشمینٹ کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ چائنا کی ایسی کوئی پالیسی ہی نہیں اور جو اس وقت وہ تھوڑی بہت امداد کرتا نظر آرہا ہے تو وہ صرف اپنی 60 بیلین ڈالر کے پراجیکٹ کو آئی۔ایم۔ایف کے کسی سمجھوتے سے بچانے کی ایک ناکام سی کوشش کررہا ہے۔ تو سوال یہ ہے کے اس سے تو بہتر تھا کہ ہم امریکہ کے پاس ہی رہتے؟
پاکستانی اشرافیہ جس کو جز وقتی ناپائدار پالیسیوں کی عادت رہی ہے اس پالیسی شفٹ کو بھی اسی کی ایک کھڑی سمجھ لیتے ھیں۔ اشرافیہ میں شامل پاکستانی فوج جیسے کچھ عناصر اپنی منڈی کے محدود تحفظ کے لیئے اس پالیسی شفٹ کا سبب نظر آتے ھیں۔ جولائی 2016 میں پاکستان کے سینیٹ میں پاکستانی فوج کے زیر انتظام صنعتی و دیگر منافع بخش کاروباری امور پر سوال اٹھایا گیا تو جوابا جو اعداد و شمار باضابطہ طور پر منصہ شہود پر لائے گئے اس کے مطابق پاک فوج پاکستان کی سب سے بڑی کاروباری اتحادیہ تھی جسکا سالانہ کاروباری ہجم 20 ارب ڈالر ہے۔ اس کے سامنے بالخصوص اور پاکستان کی دیگر صنعت کے لیئے بالعموم چین کا ”اوور پراڈکشن“ کا بحران خطرے کی وہ گھنٹی ہے جس سے امریکہ کے اندر خود اپنی منڈی کے تحفظ کے لیئے امریکہ چائنیز مصنوعات پر 25 فیصد تک ٹیریف لگا رہا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کی صنعت کو بالعموم اور فوج کی صنعت بالخصوص تحفظ فراھم کرنے کے لیئے کچھ ایسے منصوبوں کی ضرورت تھی جسکے تحت کچھ مخصوص مصنوعات کے لیئے مقامی منڈی کو محفوظ کیا جائےٗ بدلے میں چین کے زائد پیداواری صلاحیت کے بحران کو حل کرنے میں پاکستان چین کے ساتھ ”سیپیک“ جیسے منصوبوں کی شکل میں تعاون کریگا۔
صرف یہی وجہ ہے جسکی خاطر مقامی اسٹیبلشمینٹ نے ایک سامراج کو خیرآباد کہہ کر بھی ایک مرتبہ پھر پاکستان کو اس نئی ”گلوبل ٹریڈ وار“ میں دھکیل دیا ہےجسکے ”آفٹر شاکس“ ہم آنے والے دنوں میں شدت سے محسوس کرینگے۔ دوسری جانب امریکی اسٹیبلشمینٹ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ پاکستان کو موجودہ حالات سے نکالنے کو تیار ہے لیکن اس کرم نوازی کے بدلے میں اسے کیا چاہیئے؟ بدلے میں پاکستان کو افغانستان میں امریکا کا براہ راست اتحادی بننا ہوگا اور بعد میں وہ ہمیشہ کی طرح پاکستان کو بیچ رستے میں چھوڑ جائیگا۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ فوج کو خدانخواستہ ملک یا خطے سے کوئی انس ہوگیا ہے تو یہ برخلاف حقائق ہے۔ اس فوج کا اپنا مفاد ہے جو آج جڑتا ہے چائنا سے اور اسی کے لیئے اسے امریکہ بہادر کو خدا حافظ کہنا پڑرہا ہے۔ لیکن ایسی بند گلی میں پہنچنا ہے یہ شائد اس نے اپنی جزوقتی مفاد کی خاطر نہیں سوچا تھا۔آخری ممکنہ اوریقینی رستہ یہاں کی اسٹیبلشمینٹ کے پاس آئی۔ایم۔ایف سے ”بیل آوٹ“ پیکیج لینے کی صورت میں ہےجس سے پاکستان کے بیرونی قرضے جسکی مالیت حالیہ ”فائنینشل ایئر“ کی مد میں 27 بیلین ڈالر ہےٗ وہ بڑھ کر اگلے ”فائنینشل ایئر“ میں تقریبا 43 بیلین ڈالر تک پہنچ جایئنگے جسکی ادائیگی کے لیئے مزید قرضوں کی ضرورت ہوگی جبکہ واضح رہے کہ اس وقت پاکستان کے ”فارن رزروز“ تقریبا 9 بیلین ڈالر کے پاکستان کی کمترین سطح پر ہے اور جس میں ہفتہ وار بنیادوں پر تقریبا 4 فیصد کے حساب سے گراوٹ آرہی ہے۔ ”بیل آوٹ“ پیکیج کی صورت میں چائنا کے ساتھ طے ہونے والے منصوبے الگ سے متاثر ہونگے۔
ایسے حالات میں اسٹیبلشمینٹ عمران خان کو لے تو آئی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ وہ اس سے ”سیپیک“ کا کوئی من پسند ڈرافٹ“ جو خصوصا فوجی صنعت کے لیئے حوصلہ افزا ہو، منظور کروا سکتے ھیں”۔ سوال بہر صورت اس خطے میں چائنا کے مستقبل کا رہ جاتا ہے کہ اگر پاکستان آئی۔ایم۔ایف کے پاس جاتا ہے اورجو یقینی ہے جیسے کہ عرض کیا گیا تو چائنا کے پاس ممکنہ آپشنز کیا رہ جاتے ھیں؟ یقینا وہ اس خطے میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کیلیئے آنے والے دنوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ایسے منصوبوں کی جانب جائیگا جو سیپیک منصوبے کے ساتھ بطور سپلیمینٹ رکھے جائینگے کیونکہ اس وقت اس کے سامنے اپنے اوور پراڈکشن کے بحران کے ساتھ ساتھ ایک بڑا چیلینج اپنے مغربی خطوں کی پسماندگی بھی ہے جس کی ترقی کیلیئے سیپیک جیسا منصوبہ ایک اہم سنگ میل ہوسکتا ہے۔ آخری تجزیئے میں اس تمام تر کھیل کا خمیازہ محنت کش عوام کو ہی بھگتنا ہے، جس سے نجات کی راہ محنت کش عوام کے پاس ایک ہی اور آخری ہے اور وہ یہ ہے کہ محنت کش عوام اس نظام کی بساط لپیٹ کر ایک ترقی پسند انقلاب برپا کریں۔