ایک جرمن فوجی کے ساتھ سفر

عاطف توقیر

میں کوئی مصرعہ گنگنانے اور اسے مکمل کرنے میں مصروف تھا اور بھول بیٹھا تھا کہ میری ٹرین کا پلیٹ فارم وہ نہیں، جس پر میں کھڑا ہوں۔ ایسے میں دوسرے پلیٹ فارم سے ٹرین کی آمد کا اعلان ہوا، تو میں دوڑتا ہوا، سیڑھیوں کو لپکا۔ ٹرین اس دوران ٹرین آ چکی تھی، لوگ چڑھ چکے تھے اور جب میں اس پلیٹ فارم پر پہنچا تو ٹرین کے دروازے بند ہو رہے تھے۔ مگر وہاں ایک دروازے پر ایک فوجی، جو اس وقت خود ایک مسافر تھا اور اس نے اپنی کمر پر ایک بھاری بستہ لٹکا رکھا تھا، دروازے کے بیچ کھڑا ہو کر مجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنی جناب آنے کا کہنے لگا۔ میرے حوصلہ چھوڑ بیٹھے قدموں میں جیسے پھر سے جان آ گئی اور میں دوڑ کر اس تک پہنچ گیا۔ اس نے تب تک دروازہ بند نہ ہونے دیا، میں پاس پہنچا تو وہ مسکراتے ہوئے اندر کی طرف سرک گیا اور میں ٹرین میں داخل ہو گیا۔ میں نے شکریہ ادا کیا، تو اس نے جیسے آنکھ کے اشارے سے کہا ہو کہ ’تکلف برطرف‘۔

جرمنی میں دوسری عالمی جنگ میں فوج نے جس طرح کی خون ریزی کی۔ ہٹلر اور اس کے حواریوں کے آمرانہ اور غیرانسانی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا، کیمیائی ہتھیار تک استعمال کیے مگر جنگ کے خاتمے کے بعد جرمنی میں بنائے جانے والے دستور میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے لکھ دیا گیا کہ آئندہ کوئی فوجی ہتھیار کے ساتھ کبھی کسی شہری علاقے میں نہیں آئے گا۔ یعنی آپ کو جرمنی کی سڑکوں کو پولیس کے پاس تو ہتھیار دکھائی دیں گے، مگر فوج غیرمسلح ہو گی۔

مزے کی بات ہے کہ ستر کی دہائی میں میونخ میں ہونے والے اولمپکس میں جب فلسطینی اغواکاروں نے اسرائیل کے ایتھلیٹس کو ایک طیارے میں یرغمال بنا لیا اور اسرائیل کی جانب سے یہ درخواست کی گئی کہ چوں کہ پولیس کے پاس ماہر نشانچی نہیں ہوتے اس لیے یا تو جرمن فوج کے نشانچیوں کو ان اغواکاروں کے خلاف استعمال کیا جائے یا اسرائیلی فوجیوں کو ایئرپورٹ پر تعینات کیا جائے تاکہ وہ کارروائی کر سکیں، تو تب کی جرمن حکومت نے وہ درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جرمنی میں فوج کا عام شہری علاقوں میں مسلح حالت میں آنا دستور کی خلاف ورزی ہے اور اس ہنگامی حالت میں بھی دستور میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اس معاملے میں پولیس کو تعینات کیا گیا، ظاہر ہے پولیس کے نشانچی فوجیوں کی طرح کے ماہر نہیں تھے اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس کارروائی میں اسرائیلی ایتھلیٹس ہلاک ہو گئے۔ اس تمام تر معاملے کے باوجود ایک واضح پیغام دے دیا گیا، جرمن دستور میں تبدیلی نہیں ہو گی اور فوجی صرف اور صرف فوجی اڈوں، ملکی سرحدوں یا دیگر ممالک میں عسکری کارروائیوں یا تعیناتیوں کے وقت مسلح ہوں گے۔
ٹرین بھری ہوئی تھی اور وہ فوجی اپنا بھاری بستہ سامان کے لیے مختص جگہ پر رکھ کر خالی نشست تلاش کر رہا تھا، جو ڈبے کے قریب بیچ میں مل گئی اور اس کے ساتھ والی خالی نشست پر میں بیٹھ گیا۔

https://www.youtube.com/watch?v=FYN5oW0HKDg&t=3s

اس دوران کوئی دو گھنٹے کی مسافت ہم نے ساتھ طے کی۔ اس فوجی نے بتایا کہ وہ شمالی افغانستان میں تعینات رہ چکا ہے اور وہاں وہ افغان فوجیوں کو تربیت فراہم کرتا تھا۔

سن 2009 میں قندوز میں ایک جرمن فوجی کمانڈر نے نیٹو ٹرکوں پر طالبان کے حملے کے بعد فضائی مدد طلب کی تھی اور تاہم اس دوران حملہ آور وہاں سے جا چکے تھے، جب کہ بمباری کے وقت وہاں عام افغان خواتین اور بچے جلتے ٹرکوں سے تیل بھر رہے تھے۔ اس واقعے میں قریب سو افراد جن میں زیادہ تر عام شہری تھے مارے گئے تھے۔ اس واقعے پر بھی اس سے بات ہوئی۔ یہاں جرمنی میں فوج کی جانب سے موصولہ اطلاعات میں تاہم کہا گیا تھا کہ مرنے والے تمام عسکریت پسند تھے، تاہم بعد میں ایک اخبار نے یہ بھانڈا پھوڑ دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف تو چانسلر میرکل نے نہ صرف اس پر قوم اور افغان عوام سے معافی مانگی اور متاثرہ خاندانوں کے لیے مالی اعانت کا اعلان کیا مگر ساتھ ہی ساتھ یک بہ جنبش قلم فوجی سربراہ اور خفیہ ادارے کے سربراہ کو برطرف کر دیا تھا۔ میں نے کہا کہ اس سے وہاں فوج کے مورال پر کیا فرق پڑا تھا، کہنا لگا فوج کا مورال بلند ہو گیا تھا، کیوں کہ جب میدان جنگ میں کسی فوجی کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک ایسی قوم ہے، جو ملکی دستور پر یقین رکھتی ہے، جب کوئی فوجی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی پشت پر عوام کا نمائندہ رہنما ہے اور اس کو فیصلے کا اختیار قوم نے دے رکھا ہے اور اسی کے حکم سے اس وقت میں میدان جنگ میں ہوں اور تب تک ہوں کہ جب تک وہ کوئی نیا حکم نہ دے دے، تو فوجی کے ہاتھوں میں لغزش نہیں آتی۔ میں نے کہا فوج پر تنقید کیسی لگتی ہے؟ کہنے لگا، فوج پر تنقید بھی قوم کا حق ہے، مگر چوں کہ فوج کا کام لڑنا ہے اور وہاں وہاں لڑنا ہے، جہاں ملکی پارلیمان اسے کہے، اس لیے عموماﹰ فوج پر تنقید نہیں کی جاتی، ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے فوج کو کہیں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا جائے تو لوگ اس حکومتی فیصلے پر احتجاج یا تنقید کرتے ہیں۔

میں اس بیچ یہ سوچ رہا تھا کہ ہمارے ہاں فوج کی تعیناتی سے لے کر دفاعی پالیسی تک، کسی بھی مقام پر نہ قوم کی رائے کا خیال رکھا جاتا ہے، نہ عوام کے نمائندوں کی کوئی سننے کو تیار ہے۔ ملکی فوج کا سربراہ ایک طرح سے ملک کا سربراہ ہوتا ہے اور عوام کا نمائندہ اس کے سامنے اس طرح بیٹھتا ہے، جیسے کوئی کم ذات ملازم اپنے چوہدری کے سامنے بیٹھا ہوا ہو۔ تمام تر پالیسیاں فوج خود بناتی ہے، مگر ان پالیسیوں پر تنقید کی جائے، تو براہ راست آپ کو ’غدار‘ یا ’ایجنٹ‘ کا لقب دے کر ایک میڈیا مہم شروع کر دی جاتی ہے، جیسے پاکستانی قوم یا عام شہری فوج یا اس کی پالیسیوں کے ماتحت آتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے دستور کی تو دستور کو فوج کیا سمجھتی ہے؟ اس کا جواب پاکستانی تاریخ میں اس دستور کی بار بار پامالی اور منسوخی کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔

میں نے کہا کہ وردی میں سفر کرنے کی وجہ کیا ہے؟ کہنے لگا وردی میں سفر کرنے پر لوگوں کی نگاہوں میں عزت دیکھنے کو ملتی ہے۔

اس کی یہ بات مجھے اپنے بچپن کی جانب لے گئی۔ مجھے یاد ہے ہم چھوٹے ہوتے تھے، جب کہیں سے کوئی فوجی ٹرک گزرتا تھا، تو ہم اس کی جانب مسکرا کر دیکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی فوجی سلام کی نقل بھی اتار لیا کرتے تھے اور وہ فوجی بھی ہمیں دیکھ کر مسکرایا کرتے تھے۔

https://www.youtube.com/watch?v=Sfaq2NsnmjY&t=6s

میرا دماغ اچانک دو تین دہائیوں عبور کر کے چند ہی ثانیوں میں آج کی دہلیز پر پہنچ گیا۔ خود ہی میں کوئی جملہ اٹھنے لگا کہ اب کوئی فوجی، فوجی وردی میں کسی گلی کوچے میں کبھی نہیں دیکھا۔ پھر وہ بم دھماکے، وہ حملے، وہ خون اور وہ دہشت گردی کے واقعات جھماکوں کی صورت میں ذہن پر گرنے لگے۔

معاملہ یہ ہے کہ جب ایسی پالیسیاں بنائی جائیں، جن میں فوج فوج نہ رہے بلکہ ایک سیاسی جماعت کا رنگ اختیار کر لے۔ جب ملک کی تقدیر کے فیصلے عوام کے نمائندے نہ کریں بلکہ فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں میں ہونے لگیں، جب کرپٹ اور نالائق سیاست دان عوام کے ووٹ اور نمائندگی کرتے ہوئے پوری قوت سے ملک میں دستور کی بالادستی کو قائم کرنے کی کوشش نہ کریں، جب وردی پوش قوم میں تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی بجائے خوف کا ہتھیار استعمال کرنے لگیں۔ جب قوم اپنا خون پیسنہ نچھاور کر کے اتنی بڑی فوج کی ضروریات کا خیال رکھے اور جواب میں ہر روز یہ سننے کو ملے کہ ملک خطرے میں ہے اور ہم میں سے اگر کسی نے اپنے حق کے لیے دستور کے مطابق آواز بھی اٹھائی تو دشمن ملک ہمیں تلف کر دے گا۔

جب بیس کروڑ عوام کے ملک کو اتنا کم زور بنا کر پیش کیا جائے، جیسے ملک میں ہر وقت مارشل لا کی ضرورت ہے، بنیادی حقوق، تعلیم، تربیت، روزگار، معیشت، ترقی، زندگی یا بہتر معیار زندگی سے متعلق کوئی بھی شے اہم نہیں، کیوں کہ ملک کی سلامتی خطرے میں ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=jVDztDBNAJE&t=4s

یہ سوال بھی میرے ذہن میں دوڑتا رہا کہ بھارت پاکستان سے بہت بڑا ہے، وہاں کئی تہذیبیں، ثقافتیں، نسلیں اور زبانیں ہیں، مگر وہاں شورش کا وہ عالم نہیں جو ہمارے ہاں ہے۔ بھارت اور پاکستان میں ایک ہی خطے کے لوگ ہیں، صدیوں ایک ساتھ بھی رہے ہیں تو پھر ایسا کیا فرق ہے کہ ہم ایک اذیت ناک اور نہ ختم ہونے والے خوف اور عدم استحکام کا شکار ہیں جب کہ ہمارا نصف ملک ضائع بھی ہو چکا ہے۔

جواب صرف یہ ہے کہ بھارت میں شروع دن سے جمہوریت نافذ ہے۔ وہاں دستور موجود ہے۔ معاشرتی سطح پر عدم مساوات ہے، مذہبی گروہ بندیاں ہیں، نسلی فرق بھی ہیں، مگر کم از کم بھارت کا دستور سیکولر بنیادوں پر تمام رنگوں، تمام نسلوں اور تمام قومیتوں کو جوڑ رہا ہے۔ ہمارے ہاں دو مسائل ہیں، ایک تو یہ کہ ہمارے ملک میں دستور کی حکم رانی نہیں اور پہلے دن سے لے کر آج تک ملک کے دستور کو بار بار پامال کیا جاتا رہا ہے اور دوسری بات ملک میں جمہوریت تسلسل کے ساتھ موجود نہیں رہی بلکہ جرنیل بار بار اس ملک کو فتح کر کے اس قوم کا حق حکم رانی چھینتے رہے ہیں۔

ملک کسی ایک ادارے سے قائم نہیں رہ سکتے بلکہ ایک ریاست صرف اس وقت قائم رہ سکتے ہیں، جب اس ملک میں ادارے ہوں اور وہ تمام فعال ہوں اور دستور کے نیچے کام کر رہے ہیں۔ یہ فرق نہ ہماری قوم سمجھ پا رہی ہے اور نہ فوج اور یہی وجہ ہے کہ نہ قوم محفوظ ہے اور نہ فوج۔

کتنا اچھا ہو کہ میں کراچی میں ٹرین میں بیٹھوں اور میرے ساتھ میرے ملک کا ایک فوجی وردی میں بیٹھا ہو۔ اسے کوئی خوف نہ ہو کہ وہ اس ملک میں رہ رہا ہے جس کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے وہ مورچے پر کھڑا ہوتا ہے، اس ملک کے اندر وہ مکمل طور پر محفوظ ہے اور میں اس کے ساتھ پوری محبت اور احترام سے بیٹھا یہ محسوس کر رہا ہوں کہ میرے ساتھ میرے ملک کی سرحد کا نگہبان بیٹھا ہے۔ ایسے میں ٹکٹ چیک کرنے والا آئے، دونوں کا ٹکٹ چیک کرے اور ہمیں سلام کرتا ہوا آگے بڑھ جائے۔ پلیٹ فارم پر گاڑی رکے اور ہم ہاتھ ملاتے ہوئے بالکل ویسے ہی خدا حافظ کہتے ہوئے الوداع ہو جائیں، جیسے میں اس وقت اس جرمن فوجی سے ہو رہا ہوں۔